روزنامہ جدوجہد رپورٹ (واشنگٹن ڈی سی) بھارت کے معروف سماجی کارکن ڈاکٹر سندیپ پانڈے نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیار استعمال نہ بھی کئے جائیں تو ان کی موجودگی انسانی زندگی کے لئے انتہائی مہلک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار استعمال ہوں یا نہ ہوں اس بات کے امکانات ہیں کہ دونوں صورتوں میں ا ن کی تابکاری ہمارے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اور واشنگٹن ڈی سی کے تھینک ٹینک ولسن سینٹر کے زیراہتمام سالانہ عاصمہ جہانگیر میموریل لیکچرمیں ورچوئل خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خطے کے لوگ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے تنگ آ چکے ہیں اور امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ”کسے امید تھی کہ دیوار برلن ایک دن گرجائے گی، ہمیں بھی امید ہے کہ ہمارے خطے میں ایک دن ایٹمی ہتھیاروں کی جنونی دوڑ ختم ہو گی اور امن و ترقی کاسورج ضرور نکلے گا۔“
لیکچر سیریز میں اس سال کے موضوع ”جنوبی ایشیا میں امن اور جوہری ہتھیاروں پر پابندی“ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ خطے میں قیادت کی تبدیلی کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان قیام امن ممکن ہو سکے گا۔
دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی پر بات کرتے ہو ئے انہوں نے کہاکہ ”اس سلسلے میں دو اقدامات مذاکرات کی فضا پیدا کرنے کے لئے اہم ہیں، ہندو پاک سرحدوں کو لوگوں کے لئے کھولنے اوردونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی سے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور معاشی خوش حالی کی راہیں نکلیں گی۔“
انہوں نے بتایاکہ جنوبی ایشیاکے تمام شہری امن کے خواہاں ہیں لیکن دائیں بازو کے گروہ اور سیاست دان خطے میں بین المذاہب تصادم بڑھا رہے ہیں۔
ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر قیصر عباس نے مقرر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”ڈاکٹر پانڈے اس عہدمیں امن کی ایک موثر آواز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود بھی ایک انجینر کی حیثیت سے جوہری تباہ کاریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں اور سیاست دانوں کے حربوں کوبھی خوب پہچانتے ہیں۔“
مذاکرے کی نظامت ولسن سینٹرمیں ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کی اور آفتاب صدیقی نے موضوع کے دیگر پہلوؤں پر تبصرہ پیش کیا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر پانڈے کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس دونوں ملکوں کو ہتھیار فروخت کررہے ہیں۔ اس سے ایک طرف خطے میں قدامت پسند قوتوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور دوسری جانب جنگ کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ”جب تک یہاں دائیں بازو کے گروہ طاقت ور رہیں گے، دور رس قیام امن کی کوششوں میں تاخیر ہو سکتی ہے۔“
ان کے خیال میں خوش آئند بات یہ ہے کہ خطے میں کئی تحریکیں امن کے لئے مسلسل کوشاں ہیں۔ ”نریندر مودی کی حکومت سے پہلے ”پاک بھارت پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی“ کے ہر دو سال بعد اجلاس ہوا کرتے تھے اورمیں نے خود کراچی اور الٰہ باد کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ ”فزیشنز فار دی پریونشن آف نیو کلر وار“ بھی ایک فعال تنظیم ہے جس میں عاصمہ جہانگیر نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔“
ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اورواشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے تعاون سے عاصمہ جہانگیر میموریل لیکچر کا انعقادگزشتہ چار سال سے کیا جا رہا ہے جس میں نامور دانشور اور سماجی کارکن خطے کے اہم مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔