پرویز امیر علی ہود بھائی
پاکستان کی ایک اہم ترین پبلک یونیورسٹی کی زمین بچانے کے لئے کچھ لوگ انتہائی مشکل لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض یونیورسٹی کی زمین بچانے کے لئے نہیں، یہ لڑائی پاکستانی کی روح بچانے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ اس لڑائی کا مقصد پاکستان کی واحد وفاقی یونیورسٹی کا دفاع کرنا ہے۔ اس سے بھی اہم بات: اس لڑائی کا جو بھی نتیجہ نکلے گا اس سے یہ طے ہو گا کہ ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں۔ اس لڑائی کا جو نتیجہ نکلے گا اس سے یہ بھی طے ہو جائے گا کہ کیا ملک کے تعلیمی ادارے سیاستدانوں کی سڑکوں اور رہائشوں کے لئے قربان کر دئے جانے چاہئیں؟ کیا عوامی جدوجہد سیاستدانوں، قبضہ مافیا اور بد عنوان سرکاری اہلکاروں کو شکست دے سکتی ہے؟ اگلے چند ہفتوں میں یہ طے ہو جائے گا۔
ایک مہینے سے بلڈوزر قائد اعظم یونیورسٹی کے کیمپس پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ محنت اور لگن سے لگائے اور پالے ہوئے ان گنت درخت ان بلڈوزروں نے روند ڈالے ہیں۔ یہ بلڈوزر 250 فٹ چوڑی مری اسلام آباد ہائی وے کے لئے جگہ ہموار کر رہے ہیں جو یونیورسٹی کے اندر سے گزرے گی۔ وقتی طور پر تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان ہیبت ناک مشینوں کو کام کرنے سے روک دیا ہے البتہ کیمپس کی حدود کے دونوں جانب ہائی وے کی تعمیر کا کام برق رفتاری سے جاری ہے۔
ناکام گورننس، جس کی ناکامی کو بے تحاشہ بڑھتی آبادی نے اور گھمبیر مسئلہ بنا دیا ہے، اصل مسئلہ ہے۔ مری روڈ پر واقع بارہ کہو نامی قصبہ چند سو گھرانوں پر مشتمل تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بے ہنگم بھیڑ میں بدل گیا۔ ہر طرف گھر، ریڑھیاں، پلازے، دکانیں نمودار ہونے لگیں اور خالی زمین کا کوئی ٹکڑا تک نہیں بچا۔ اس بے ہنگم پھیلاؤ میں کوئی ترتیب لانے یا اس کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے شہری انتظامیہ دور بیٹھی اونگھتی رہی اور جنگل کے قانون کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ بے ہنگم پھیلاؤ نے مری روڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹریفک میں خلل پڑنے لگا۔ جس مری روڈ پر گاڑیاں برق رفتار ی سے دوڑتی تھیں، وہاں اب وہ رینگ رینگ کر گزرنے لگی ہیں۔
اس مسئلے کا حل تو یہ تھا کہ اوور ہیڈ بریج تعمیر کیا جاتا تا کہ ٹریفک با آسانی آبادی کے اوپر سے گزر جائے۔ در حقیقت 2015ء میں یہ منصوبہ بنا تھا کہ 5.3 کلو میٹر لمبا ایلیویٹڈ روڈ (Elevated Road) تعمیر کیا جائے گا۔ کئی سال پہلے سی ڈی اے نے جبکہ اس سال کے شروع میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے بھی اس منصوبے کی منظوری دی تھی۔ سب سے آسان اور بہتر حل بھی یہی ہے۔
اس احسن منصوبے کو بظاہر اس لئے ترک کر دیا گیا کہ بارہ کہو کے دکاندار اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ حقیقت در اصل اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ قائد اعظم کیمپس کی زمین پر ہائی وے کی تعمیر کے پیچھے اصل میں سی ڈی اے ہے۔ جوں ہی شہباز شریف وزیر اعظم بنے، قائد اعظم یونیورسٹی بائی پاس کا منصوبہ پیش کیا گیا اور وزیر اعظم سے اس کی منظوری لے لی گئی۔
کیا سی ڈی اے نے ایمانداری سے وزیر اعظم کو اس منصوبے کے نتائج و عواقب سے آگاہ کیا تھا؟ کیا وزیر اعظم کو آگاہ کیا گیا تھا کہ جب ایک پبلک یونیورسٹی کی زمین اس لئے چھین لی جائے کہ اسے تعلیمی مقاصد کی بجائے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا وزیر اعظم کو بتایا گیاتھا کہ مئی 2009ء میں جب جہلم میں اسی قسم کی ایک کوشش کی گئی تھی تو سپریم کورٹ نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا تھا؟ ایسے منصوبوں سے دیگر یونیورسٹیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب تو متعلقہ حکام ہی دے سکتے ہیں۔
حسب توقع اس منصوبے کے شروع ہوتے ہی ہر طرح کے بد نیت حلقے متحرک ہو گئے ہیں۔ قبضہ گروپوں نے خون کی بو سونگھتے ہی مجوزہ سڑک کے دونوں طرف زمینوں کے سودے کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ پروین رحمن کے قاتلوں کی طرح، جنہیں حال ہی میں رہا کیا گیا ہے، ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر زمین کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
سی ڈی اے کا یہ منصوبہ قائد اعظم یونیورسٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اس کی تعمیر سے کیمپس دو ایسے حصوں میں بٹ جائے گا جن کا آپس میں کوئی زمینی رابطہ نہیں رہے گا۔ بارہ کہو سے متصل کیمپس کے حصے پر لینڈ مافیا کی نظر ہے۔ اس حصے پر ابھی یونیورسٹی کی تعمیرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سی ڈی اے نے اسے غیر آباد علاقہ قرار دے دیا ہے۔ اس زمین پر نئے ڈیپارٹمنٹ، ہاسٹل، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ہربیریم، باٹینیکل گارڈنز اور لیبارٹریاں تعمیر ہونا تھیں۔
اس بابت یہ جائز تحفظات پائے جاتے ہیں کہ یونیورسٹی کی یہ زمین چرا لی جائے گی۔ 2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کو حکم دیا تھا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کی حدود کا تعین کرتے ہوئے ناجائز تجاوزات کی نشاندہی کی جائے۔ لین دین کے لئے مشہور سی ڈی اے ابھی تک یہ کام نہیں کر سکی۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح کا کوئی نیا نقشہ بنانے سے ان سی ڈی اے ملازمین کے کرتوت آشکار ہو جاتے جو پیسے لے کر دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ ایک برا شگون ہے۔
اس لینڈ مافیا کے سامنے صدر عارف علوی بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے چانسلر کے طور پر اور اس حیثیت میں حتمی ذمہ داری ان کی بنتی ہے، انہوں نے ہفتوں پہلے یونیورسٹی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کی تھی۔ صدارتی محل کا کہنا ہے کہ ابھی تک یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے جواب نہیں آیا۔ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ کچھ تو پک رہا ہے۔
1967ء میں یونیورسٹی کو جو 1709 ایکڑ کا رقبہ الاٹ کیا گیا تھا، اس میں سے اب صرف 1250 ایکڑ یونیورسٹی کے قبضے میں ہے۔ لگ بھگ 450 ایکڑ پر ناجائز تجاوزات والوں نے قبضہ کر رکھا ہے جن میں پیپلز پارٹی کے ایک معروف سابق رہنما بھی شامل ہیں۔ سی ڈی اے کے تازہ منصوبے کی بدولت کئی سو مزید ایکڑ یونیورسٹی سے چھین لئے جائیں گے۔ اس بائی پاس کی وجہ سے اگر ایک فریق کو یہ فکر لاحق ہے کہ یونیورسٹی کی زمینوں پر قبضے بڑھتے جائیں گے تو دوسرے فریق کی زبان سے رال ٹپک رہی ہے۔ شدید قسم کی پولرائزیشن ہو چکی ہے۔
ایک فریق وہ ہے جو یونیورسٹی کی زمین بچانے کے لئے سر گرم عمل ہے۔ اس گروہ میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ، سابق طلبہ اور شہری حقوق کا شعور رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ارکانِ سنڈیکیٹ مزاحمت کرنے والوں میں شامل نہیں حالانکہ یونیورسٹی کا مستقبل بیچنے کی دستاویز پر انہوں نے ہی دستخط کئے ہیں۔ وائس چانسلر اور ارکان ِسنڈیکیٹ کی مدت اس ہفتے ختم ہو جائے گی۔ بہتر مستقبل ان سب کا منتظر ہے۔ کس قدر آسانی سے یہ لوگ اگلے عہدوں پر براجمان ہو جائیں گے۔
دوسری جانب دکاندار، مقامی طور پر با اثر افراد اور پراپرٹی ڈیلرز ہیں۔ بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو دکاندار بھی ہیں با اثر بھی اور پراپرٹی ڈیلر بھی۔ ہر بڑا چھوٹا دکاندار فلائی اوور کی تعمیر کے خلاف ہے۔ کسی حد تک ان کی مخالفت کی سمجھ بھی آتی ہے۔ کسی بھی حکومتی محکمے سے زر تلافی حاصل کرنے میں دہائیوں خرچ ہو جاتی ہیں اور مٹھی گرم کئے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ اکثر دکاندار یہ بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ زمین کے اصل مالک ہیں۔
گذشتہ جمعے کے روز (بتاریخ 18 نومبر) کنونشن سنٹر اسلام آباد میں اس پولرائزیشن کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جب تحفظ ماحولیات ایجنسی (ای پی اے) کے زیر اہتمام سی ڈی اے نے ایک اجلاس کا ناٹک رچایا۔ گو پاکستان میں عموما ًتعمیرات کے ماحولیات پر اثرات بارے جائزہ رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہوتی ہیں مگر مذکورہ اجلاس تو اپنی مثال آپ تھا۔
قائد اعظم یونیورسٹی بائی پاس کی تعمیر کے ماحول پر اثرات بارے جن 19 افراد کو انٹرویو کیا گیا (جو کہ ایک قانونی تقاضہ ہے) ان سب نے اس منصوبے کی حمایت کی۔ ان میں سے البتہ کوئی بھی قائد اعظم یونیورسٹی کا استاد، طالب علم یا سابق طالب علم نہیں تھا۔ گو یونیورسٹی کی زمین کے لئے مزاحمت کرنے والے تین سو افراد کے مقابلے پر لینڈ مافیا نے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے رسہ گیر حامیوں کو جمع کر رکھا تھا مگر ای پی اے بری طرح بے نقاب ہوا۔
شکر ہے کہ پولیس موجود تھی اس لئے یہ اجلاس بغیر خون خرابے کے ختم ہو گیا۔ اگلے روز قائد اعظم یونیورسٹی ہڑتال پر چلی گئی۔ پریشان حال مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بلڈوزر دوبارہ کیمپس پر آئے تو وہ مجبوراً بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔
کیا قانون پر عمل ہو گا؟ کیا پبلک پراپرٹی کا تحفظ کیا جائے گا؟ کیا پاکستان کے لینڈ مافیا پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے؟ منافع کی لالچ میں حکومت کے اندر اور باہر موجود قبضہ مافیا آپس میں ملے ہوئے ہیں تا کہ پبلک پراپرٹی کو بیچ کر ذاتی دولت جمع کر سکیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو قوم کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو گا۔