محمد تقی
کیا آپ میرے کتوں کے نام بتا سکتے ہیں؟
سر! ایک کا نام ہے بڈی، دوسرا ہے ڈاٹ۔
سوال پوچھنے والی شخصیت پاکستان کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف تھے، ایک ایسی شخصیت جو کتے سے پیارکرنے والی، وہسکی پینے والی، سگار پینے والی اور عورتوں کی رسیا تھی۔
وہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 805 کے کاک پٹ سے بات کر رہے تھے، جو 12 اکتوبر 1999ء کو کولمبو سے کراچی کیلئے روانہ ہوئی تھی۔ تاہم پاکستان کے سول ایوی ایشن حکام نے اسے منزل پر نہ اترنے کی ہدایت کی تھی۔ پاس ورڈ کے ساتھ جواب دینے والی شخصیت کراچی میں آرمی ڈویڑن کے کمانڈر میجر جنرل ملک افتخار علی خان تھے، جن کے دستوں نے ہوائی اڈے کو محفوظ بنا رکھا تھا۔ انہوں نے پی آئی اے کی کمرشل پرواز کو لینڈ کرنے کا کہا تھا، جس میں 198 مسافر سوار تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کو ہٹا کر لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ کو عین اس وقت نیا آرمی چیف مقرر کر دیا تھا، جب پرویز مشرف کی پرواز نے کولمبو سے اڑان بھری تھی۔
یہ ہنگامہ خیز حالات میں مشرف کا کراچی کی طرف دوسرا سفر تھا۔ 1947ء کی تقسیم کے موقع پر 4 سالہ مشرف اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ دہلی سے ٹرین پکڑ کر 15 اگست کو کراچی پہنچے تھے۔ سید پرویز مشرف 11 اگست 1943ء کو پرانی دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید مشرف الدین علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور فارن سروس میں اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ مشرف کی والدہ زرین نے دہلی کے اندرا پراستھا کالج فار ویمن سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ ایک سکول ٹیچر بن گئیں اور بعد میں پاکستان کسٹمز میں شامل ہو گئیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے خاندان کی آمدن کو اچھا بیان نہیں کیا۔
جب مشرف کے والد انقرہ میں تعینات تھے، تو یہ خاندان اس وقت ترکی چلا گیا۔ نوجوان مشرف مصطفی کمال پاشا سے بہت زیادہ متاثر تھے اور جوانی میں وہ جدید ترکی کے بانی اتاترک کو اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔ انہوں نے 1961ء میں جنرل ایوب خان کے نافذ کردہ ملک کے پہلے مارشل لا کے دوران پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ مشرف ایک آرٹلری مین تھے، بعدازاں اسپیشل سروسز گروپ (SSG) یا کمانڈوز میں شامل ہوئے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ دو جنگیں لڑیں، جن کے بارے میں لکھنے کیلئے کوئی زیادہ بہادری کے قصے نہیں تھے۔ وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بن گئے اور آخر کار اسٹرائیک کور کی کمانڈ کی۔
جنرل جہانگیر کرامت کے مستعفی ہونے کے بعد پرویز مشرف کو وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف کے طور پر منتخب کیا تھا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے عوامی طور پر فوج کے زیر تسلط قومی سلامتی کونسل کے انعقاد کا مطالبہ کیا تھا، جو حکومتی پالیسی کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم نوازشریف نے ان سے خفگی کا اظہار کیا تھا، جو ان کے مستعفی ہونے کی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے غلطی سے یہ فرض کر لیا تھا کہ بطور مہاجرمشرف پنجابی اکثریتی فوج میں اتنی حمایت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ان کے لیے خطرہ بن سکیں۔ تاہم پاکستان میں فوج چیف ہے اور چیف اسکا سربراہ، ان کا باہمی طرز عمل ان تنظیمی تقاضوں کو پورا کرتا ہے، جو فوج کے مخصوص وقت میں اپنی برتری کو قائم اور برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فوج کی قیادت ایوب خان جیسا ہندکو بولنے والا پشتون، یحییٰ خان جیسا فارسی قزلباش، یا ضیا الحق جیسا پنجابی مہاجر کر رہا ہے۔ انسٹی ٹیوشنل سیلف پریزرویشن تنظیم اور سربراہ دونوں کوان کے طرز عمل سے آگاہ رکھتی ہے۔
کسی سربراہ کی ذاتی خواہش اور کردار کی خصوصیات فوج کی پوسچرنگ میں محدود کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل کرامت کا جھک جانا ایک ذاتی فیصلہ تھا، جس پر مشرف سمیت بہت سے لوگ خوش نہیں تھے۔ مشرف کی برطرفی تک، وہ اور شریف ایک دوسرے پر جھپٹنے کے موقع کا انتظار کرنے والے ڈریگن کی طرح تھے۔ نواز شریف اس بات پر سخت پریشان تھے کہ پرویز مشرف نے انہیں فوج کی کارگل مہم جوئی پر اندھیرے میں رکھا اور پھر ان سے التجا کی کہ وہ امریکیوں سے درخواست کریں اور بھارتی توپوں کی آگ سے ان کے سینوں کو چھلنی ہونے سے بچائیں۔ پھر جب انہوں نے ایسا کیا تو فوج نے شکست اور پسپائی کو انکی کمزوری کے طور پر دکھانے کی کوشش شروع کر دی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ خراب تعلقات کو ٹھیک کرنے کے خواہاں تھے اور انہوں نے کارگل کی غلط مہم جوئی کو اس عمل میں دھوکہ دہی کے طور پر محسوس کیا، جس کے نتیجے میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ان کی ان مشترکہ کوششوں کو نقصان پہنچا تھا جو بس یاترا اور امن کے لئے لاہور اعلامیہ پر منتج ہوئی تھیں۔ دوسری طرف آرمی قیادت اور جنرل کرامت عہدے سے ہٹائے جانے یا اس سے بھی بدتر اقدام کا سامنا کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل گل حسن خان اور ایئر مارشل عبدالرحیم خان کوان الزامات پر برطرف کر کے گھر میں نظر بند کر دیا تھا، جنہیں انہوں نے بوناپارٹزم قرار دیا تھا۔ مشرف نے بعد میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے سفیروں کے ذریعے نواز شریف کو بتایا تھا کہ وہ جنرل کرامت نہیں ہیں اور آسانی سے ہار نہیں مانیں گے۔ نوازشریف کو بجا طور پر شبہ تھا کہ بغاوت ہو رہی ہے لیکن آخر کار انہوں نے مشرف کو برطرف کر کے بغاوت کو ختم کرنے کی بہت ہی ناقص کوشش کی۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویڑن چینل پی ٹی وی پر اعلان کردہ اس خبر کو فوجی قیادت کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی، لیکن فوج رد عمل کے لئے تیار تھی۔ زمین پر موجود جرنیلوں نے فوری طور پر کارروائی شروع کر دی جس کو مشرف نے بعد میں ’کاؤنٹر کو‘ کہا، جسے انہوں نے وزیر اعظم کی’بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔ یہ بغاوت کی اصطلاح کا سب سے مضحکہ خیز استعمال تھا، اس کے باوجود کہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد عزیز خان، ڈی جی ایم او میجر جنرل شاہد عزیز، راولپنڈی میں ٹین کورکے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد سمیت جرنیلوں کا ایک گروہ، کراچی میں فائیو کور کے لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی، بدنام زمانہ بغاوت کرنے والے ٹرپل بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر صلاح الدین ستی وغیرہ نے اس فوجی بغاوت کو شروع کیا اور کامیابی سے اس پر عمل درآمد کیا۔ معزول آرمی چیف ابھی تک ہوا میں تھے، جو ظاہر کرتا ہے کہ بغاوت ادارہ جاتی تھی، کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں تھا۔
پاکستان کی فوج نے یہ بغاوت کی تھی اور مشرف محض اس بغاوت کا چہرہ تھے۔ جیسے ہی فلائٹ پی کے 805 نے لینڈ کیا تو مشرف کو کور ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا، جہاں انہوں نے فوج کے اقتدار پر قبضے کا اعلان کرنے کے لیے ایک مختصر تقریر کی۔ دو دن بعد مارشل لا کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ کراچی میں پہلی تقریر ریکارڈ کرنے سے پہلے مشرف کو احساس ہوا کہ انہوں نے سوٹ پہن رکھا ہے، جو اس موقع کیلئے انہیں انڈرڈریسڈ لگا۔ چنانچہ انہوں نے ایس ایس جی کمانڈو سے ایک فوجی جیکٹ پکڑی اور کیمرے کے سامنے جانے کیلئے وہ پہن لی، جبکہ انکی پتلون میز کے پیچھے چھپ رہی تھی، کیمرے میں صرف فوجی جیکٹ ہی نظر آ رہی تھی۔ چیئرمین پی ٹی وی اختر وقار عظیم، جن کا عملہ ریکارڈنگ کر رہا تھا، تاریخ بیان کرتے ہیں کہ جب مشرف فوٹو سیشن کے لیے اٹھے، تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تصویریں صرف کمر سے اوپر کی کھینچی جائیں۔ نئے آنے والے آمر نے بعد میں یونیفارم کو اپنی چمڑی قرار دیا، جسے انہوں نے تقریباً ایک دہائی تک اتارنے سے انکار کیا۔
جس ادارہ جاتی طاقت نے پرویز مشرف کو اقتدار کے منصب پر پہنچایا تھا اس کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں تھے۔ ہر وہ فیصلہ جو انہوں نے بغاوت کی نوبت تک پہنچنے کیلئے لیا اور اس کے بعد کا ہر ایک فیصلہ بھی فوج کا تھا۔ نئی رجیم نے نواز شریف کو ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔ بین الاقوامی طاقتوں، بالخصوص سعودی عرب کے دباؤ پر نوازشریف کی سزا میں کمی کی گئی اور انہیں ریاض جلاوطن کر دیا گیا۔ فوج کی مارشل لا پلے بک سے ہی رہنمائی لیتے ہوئے مشرف نے بالآخر معطل شدہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اپنے پیشرو ایوب خان اور ضیا الحق کی طرح جون 2001ء میں انہوں نے خود کو صدر مقرر کر لیا۔
تین ماہ بعد القاعدہ نے سرزمین امریکہ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں امریکی حکام نے مشرف حکومت کو سخت وارننگ دی۔ مشرف کی قیادت میں فوج افغانستان میں طالبان حکومت کی سرپرستی کرتی رہی، جو القاعدہ کی میزبانی کر رہی تھی۔ امریکہ اپنا کام نکلوانا چاہتا تھا اور مشرف کو پیغام مل گیاتھا کہ امریکہ کو ٹھکرانے کے سنگین نتائج ہونگے۔ مشرف نے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا لیکن اس کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ مشرف کے ماتحت فوجی قیادت نے ایک دوغلی پالیسی وضع کی، جس کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے درمیانی اور یہاں تک کہ بعض اعلیٰ سطحی لیڈروں کو تلاش کیا گیا، لیکن طالبان قیادت کو تحفظ فراہم کیا۔ مشرف حکومت نے افغانستان پر حملہ کرنے والے امریکی فوجیوں کے لیے سی آئی اے کے ڈرونز اور گراؤنڈ لائنز آف کمیونیکیشن (جی ایل او سی) کے اڈے سمیت لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ ساتھ ہی ساتھ طالبان کو پاکستان کے پشتون علاقوں بشمول سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، پشاور اور کوئٹہ میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔
طالبان کے ایک آنکھ والے امیر ملا عمر اور اس کے قندھار میں مقیم گروہ کو کوئٹہ کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا، جسے کوئٹہ شوریٰ کے نام سے جاناجاتا تھا۔ حقانی نیٹ ورک کو شمالی وزیرستان، پشاور اور یہاں تک کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں پناہ دی گئی۔ طالبان کی شکست کے لیے 500 فیصد عزم کا وعدہ کرنے، اڈوں اور جی ایل او سی کیلئے امریکہ سے اربوں ڈالر کرائے کے طور پر جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دراصل مشرف حکومت طالبان کی واپسی کی بنیاد ڈال رہی تھی۔ اردو اور انگریزی کے خوفناک لہجے کے حامل لفظوں کے دھنی پرویز مشرف مغرب کی طرف کامیابی سے آگے بڑھنے میں کامیاب رہے، جسے انہوں نے عقیدے پر مبنی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے روشن خیال اعتدال پسندی کا نام دیا۔ تاہم خاص طور پر جو کچھ انہوں نے پشتون سرزمین اور بلوچستان میں کیا، وہ اس کے برعکس تھا۔
طالبان کی بحالی کا میدان تیار کرنے کے لیے مشرف حکومت نے پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایک گروپ کو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام سے سیکولر پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کے خلاف کھڑا کیا، جو 2002ء کی انتخابی جوڑ توڑ کے نتیجے میں سامنے آیا۔ اس سے پہلے انہوں نے مزید 5 سال تک صدر رہنے کے لیے ایک جعلی ریفرنڈم میں اپنی فتح کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے اپنی دشمن نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کو توڑنے کے لئے فوج کی انتھک سیاسی انجینئرنگ مشین کو اتارا اور ایک بادشاہ گر یا کنگز پارٹی بنائی جس کا نام پاکستان مسلم لیگ قائداعظم (پی ایم ایل ق) تھا۔ مشرف حکومت نے بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اندر بھی توڑ پھوڑ کی۔
طالبان دوست ایم ایم اے نے بلوچستان میں مشرف کی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر اور خیبر پختونخواہ (کے پی) میں اکیلے حکومت بنائی۔ ایم ایم اے کی حکومتوں کو ملا ملٹری اتحاد کا نام دیا گیاتھا، کیونکہ اس کے زیر تسلط دونوں صوبوں میں جاری نصابی اور نظریاتی طالبانائزیشن پر آنکھیں بند کر لی گئی تھیں۔ وفاقی پارلیمنٹ میں ایم ایم اے نے مسلم لیگ (ق) کے لیے دوستانہ اپوزیشن کے طور پر کام کیا، جس نے عہدہ چھوڑنے کے وعدے کے باوجود پرویز مشرف کو آرمی چیف رہنے کی اجازت دینے کا بل منظور کیا۔ مشرف ہنگامہ خیز دور میں ’یونٹی آف کمانڈ‘ کے نام پر اپنے وعدے سے مکر گئے اور اس عمل میں فوج نے ان کی مکمل حمایت کی۔
مشرف نے ایم ایم اے کو اس بجوکے کی طرح بھی استعمال کیا، جس سے امریکہ اور مغرب کواسلام آباد میں مذہبی جنونیت کے اقتدار میں آنے سے خوفزدہ کیا جا سکے۔ یعنی اگر انہوں نے نام نہاد روشن خیال اور اعتدال پسند مشرف کو ترک کیا تو انکی جگہ ایم ایم اے لے سکتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مغرب نے مشرف کے اس دوغلے چہرے کو پہچانا یا نہیں، لیکن بہت سے جہادیوں نے ضرور ایسا کیا اور مشرف کو انہیں مغرب کے ہاتھوں بیچنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کا براۂ راست نتیجہ مختلف پاکستانی جہادیوں کا مل کر خطرناک تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شامل ہونا تھا۔ مشرف حکومت کے دوہرے کھیل نے امریکی مدد و حمایت تو حاصل کر لی، لیکن ٹی ٹی پی اور القاعدہ کی جانب سے شدید ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مشرف خود جہادیوں کی تین قاتلانہ حملوں کی کوششوں میں بچ گئے، لیکن افغان طالبان کے کھڑے ہونے اور کابل کے اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کے فوج کے منصوبے کو ترک کرنا ان کیلئے ایک بہت بڑا نقصان تھا۔ مشرف حکومت نے نام نہاد اچھے اور برے طالبان کی خود ساختہ تفریق کرنے کا انتخاب کیا۔ یعنی جو امریکیوں اور افغان حکومت پر حملے کرتے ہیں وہ گڈ طالبان اور پاکستان پر حملے کرنے والے ٹی ٹی پی برے طالبان قرار پائے۔ مشرف نے بعد میں ریکارڈ پر اعتراف کیا کہ پاکستان کی فوج نے افغانستان میں ہندوستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان طالبان اور اس کے مہلک اتحادی حقانی نیٹ ورک کو پناہ دی اور ان کی پرورش کی۔ فوج کے حساب کتاب میں دسیوں ہزار پاکستانی جانیں، جن میں زیادہ تر نسلی پشتون اور مذہبی اقلیتیں تھیں، اس کاروبار کی قیمت تھیں۔
افغانستان میں جہاد واحد ناپاک جنگ نہیں تھی جو مشرف حکومت نے شروع کی تھی۔ اس حکومت نے بلوچستان پر بھی ایک گندی جنگ مسلط کی،جو آج تک جاری ہے اور فوج بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرنے، لاپتہ کرنے کے علاوہ ان کی تشدد زدہ لاشیں پھینک رہی ہے۔ یہ جنگ بگٹی قبائلی علاقے میں سوئی گیس فیلڈز میں کام کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر کو اس کے رہائشی کوارٹر میں ایک آرمی کیپٹن کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد شروع ہوئی۔ نواب اکبر خان بگٹی، جو ایک بلوچ قوم پرست رہنما اور بااثر قبائلی سردار ہونے کے علاوہ ماضی میں وفاقی وزیر دفاع اور صوبائی وزیر اعلیٰ اور گورنر رہ چکے تھے، نے اپنے قبائلیوں کے ساتھ مل کر خاتون کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔ اس واقع کو بلوچوں کی طرف سے ان کے قبائلی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے طور پر سمجھا گیا، جو پہلے ہی پاکستانی ریاست کی جانب سے وسائل اور گیس کی رائلٹی کی غیر منصفانہ تقسیم پر غصے سے بھرے ہوئے تھے۔
انصاف نہ ملنے پر انہوں نے گیس فیلڈز پر حملہ کر دیا۔ مشرف کی قیادت میں فوج نے زمینی اور فضائی راستے سے ہزاروں فوجی بھیج کر اس حملے کا جواب دیا۔ جیسے ہی میزائلوں اور بموں کی بارش ہوئی، منحرف نواب اکبر بگٹی پہاڑوں میں پناہ گزیں ہو گئے۔ نواب اکبربگٹی کی مزاحمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے مشرف نے بدنام زمانہ طنزیہ انداز میں کہا کہ یہ 1970ء کی دہائی نہیں تھی اور انہیں (بلوچوں کو) پتہ بھی نہیں لگے گا کہ کس ہتھیار سے ان پر حملہ ہوا ہے۔ اس گفتگو میں مشرف 1973ء کی بلوچ شورش کا حوالہ دے رہے تھے۔ نواب اکبر بگٹی نہ تو علیحدگی پسند تھے اور نہ ہی وہ ان مذاکرات کے مخالف تھے، جو حکومت نے شروع کیے تھے۔ تاہم وہ ان مذاکرات میں ایک طاقتور پوزیشن میں رہنا چاہتے تھے۔ نواب اکبر بگٹی کو بالآخر اگست 2006ء میں ایک میزائل حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ مشرف پر بعد میں ان کے قتل کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی، لیکن وہ متوقع طور پر بری ہو گئے۔ مشرف اور ان کی تنظیم کے تحفظ کی وجہ سے عصمت دری کرنے والے کو بھی عدالت میں نہیں لایا جا سکا۔
بظاہر لبرل نظر آنے والے جنرل مشرف ایک کیس اسٹڈی تھے کہ شراب پینا اور رقص کرنا لبرل ازم کیوں نہیں ہے۔ مشرف حکومت نے ایک گینگ ریپ کا شکار ہونے والی مختاراں مائی پر سفری پابندیاں عائد کر دی تھیں اور انہیں امریکہ جانے سے روک دیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرویز مشرف خود بھی اکثر امریکہ آتے تھے۔ ایسے ہی ایک دورے پر انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ”آپ کو پاکستان کے ماحول کو سمجھنا چاہیے۔ یہ وہاں پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اور کینیڈا کا ویزا حاصل کرنا چاہتے ہیں یا شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو اپنا ریپ کروا لیں۔“
اس گھٹیا تبصرے کی آڈیو اب بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے اور جنرل مشرف کی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے بعد مشرف کے خلاف رد عمل آیا، تو انہوں نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے جواب دیا کہ انہوں نے کبھی ایسا تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم واشنگٹن پوسٹ نے اپنی سٹوری پر قائم ہرتے ہوئے مشرف کو بالکل جھوٹا قرار دیا۔
مشرف کے برسوں کے اقتدار میں تقریباً سب کچھ غاصبانہ، چوری شدہ یا فریب پر مبنی تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کا خیال لے کر آئے ہیں۔ درحقیقت یہ فوج کی نام نہاد بنیادی جمہوریت کی بحالی تھی، جسے ایوب خان کے دور میں سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیاتھا۔ اسی طریقے نے وسیع پیمانے پر مقبول فاطمہ جناح کے خلاف دھوکہ دہی سے الیکشن جیتنے میں مدد دی تھی۔ اس کے بعد ضیا الحق کے دور میں اس کا اعادہ کیا گیا، جب انہوں نے بلدیاتی انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کی اجازت دی۔ اسی طرح ایک سیکولر چہرہ اپنانابھی ایوب خان سے اخذ کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق اپنے مغربی تنخواہ داروں کیلئے لبرل ہونے کا ڈھونگ بھی کیا جائے اور ساتھ ساتھ اسلام ازم اور بھارت مخالف جنگجوؤں کی حمایت بھی کی جائے۔ ایوب خان نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے سویلین حکمرانوں کو دی گئی ’نو وار ڈیکلریشن‘ کی پیشکش کی مخالفت کی تھی۔ تاہم جب وہ خود حکمران تھے،توانہوں نے بھارت کو مشترکہ دفاع کی تجویز دی تھی۔ مشرف کا کارگل جنگ کے ذریعے نوازشریف اورواجپائی کی امن کوششوں کو صرف آگرہ سمٹ 2001ء میں خود کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کیلئے برباد کرنا بھی ایوب خان کے اقدام سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ سابق فوجی آمروں کی طرح مشرف نے جمہوریت کی بحالی کے بارے میں بھی برسوں تک جھوٹ بولا۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کی جلا وطنی کی وجہ سے مشرف شاید اس سے کچھ زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے قابل ہو ئے، جتنا عرصہ وہ اقتدار میں رہے۔ تاہم انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو برطرف کر کے ایک ناقابل تلافی غلطی کی، جنہیں انہوں نے خود مقرر کیا تھا۔ افتخار چوہدری نے اس حکم کو نہ ماننے کا انتخاب کیا اور کئی ججوں اور ہزاروں وکلا مشرف کے فیصلے کے خلاف احتجاج میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اقتدار کے 9 ویں سال میں مشرف اور فوج اس قدر غیر مقبول ہو چکے تھے کہ فوجی قیادت کو یہ ہدایت جاری کرنی پڑی کہ فوجی اپنی وردی میں عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئیں یہ ایک رینبو (قوس قزح کی طرز کا) اتحاد بن گیاتھا، جس میں اسلامی دائیں بازو سے لے کر بائیں بازو کی چھوٹی جماعتیں اور گروپ بھی شامل تھے۔ تاہم وکیل رہنماؤں نے بار بمقابلہ گیریڑن لڑائی کی قیادت کی، جو سڑکوں اور کمرہ عدالتوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ فوج کا انٹیلی جنس اپریٹس لڑائی میں غیرجانبدار کھڑا دکھائی دے رہا تھا، جو تجویز کرتا تھا کہ چیف کو عہدے سے ہٹانا ادارہ جاتی ضرورت ہے، لیکن لگتا تھا کہ انہیں اسکی کوئی جلدی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے جولائی 2007ء میں جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر دیا۔ تاہم مشرف نے اکتوبر 2007ء میں اسی الیکٹورل کالج سے ایک اور صدارتی مدت حاصل کی، جس کا انہوں نے 2002ء میں انتخاب کیا تھا۔ انہوں نے دوسری بار ایمرجنسی کا اعلان کیا اور چیف جسٹس کو دوبارہ اعلیٰ عدلیہ کے مزید 51 ججوں کے ہمراہ نظر بند کر دیا۔ انہیں اپنے ہی منتخب کردہ ججوں کے ایک ٹولے سے توثیق ملی، لیکن یہ ایک ناقابل برداشت صورتحال تھی۔ ایک کمزور مشرف کو عام انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا، کیونکہ ان کی ربڑ سٹیمپ اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی تھی۔ بالآخر نومبر 2007ء میں انہوں نے اپنی وردی اتار دی۔ انہیں امریکہ اور سعودی عرب کے بین الاقوامی دباؤ کے باعث بالترتیب بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو واپس وطن آنے کی اجازت دینا پڑی۔ دونوں رہنماؤں نے وکلا کی تحریک کی حمایت کی اور احتجاج کو مزید وسعت دی، جو اس وقت تک ان کی انتخابی مہم کے ساتھ بھی اوورلیپ ہو گیاتھا۔ بے نظیر بھٹو اپنی واپسی کے فوراً بعد ایک دہشت گردانہ حملے میں المناک طور پر ہلاک ہوگئیں اور برسوں بعد مشرف پر ان کے قتل کا الزام عائد کیا گیا۔ تاہم مشرف اس وقت تک اقتدار سے چمٹے رہنے میں کامیاب رہے، یہاں تک کہ بھٹو کی پارٹی نے 2008 ء کے موسم بہار میں مخلوط حکومت بنائی۔
وہ اس وقت تک اقتدار میں رہے، جب تک سیاسی جماعتوں نے فوج کے ساتھ ملکر سال 2008ء کے اگست میں انہیں مواخذے کی دھمکی دی اور استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ تاہم پھر انہیں گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ ان کی وردی انہیں باہر کرنا چاہتی تھی لیکن جھکانا نہیں چاہتی تھی۔ فوج نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی حفاظت کیلئے وہ سب کچھ کیا، جو اسے کرنے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے عہدہ چھوڑنے کے فوراً بعد پاکستان چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ خود پسندی سے لبریز اور مال و دولت کے حامل پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ پارٹی ایک بے کار منصوبہ تھا، جس نے مشرف کے سابق ساتھیوں اور سیاسی نوکروں کو بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کیا۔ انہیں خود ایک عدالت نے الیکشن لڑنے سے روک دیا تھا۔ تاہم 2013ء کے انتخابات میں ان کے دشمن نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آگئے۔ بالآخر 2014ء میں مشرف پر سنگین غداری اور آئین کو پامال کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی اور ان کے مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی گئی۔ ایک کمانڈو ہونے کے اپنے ماضی کی بہادری کے بالکل برعکس مشرف ایک میدانی چوہے کی طرح مقدمے سے بھاگ گئے۔ وہ بیماری کا بہانہ بنا کر فوج کے ہسپتال میں چھپے رہے۔ فوج نے اپنے سابق سربراہ کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمے کی سماعت کو روک دیا اور آخر کار اسے ملک سے فرار ہونے میں مدد دی۔ مشرف نے خود تسلیم کیا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انہیں جانے میں مدد کی تھی۔ تاہم مرحوم جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو غیر حاضری میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی۔ مشرف نے اپنے آخری سال متحدہ عرب امارات میں گزارے پہلے اپنے اقتدار کے دنوں کی شیخی بگھارتے رہے اور پھر ایک حقیقی بیماری سے نبردآزما ہو گئے، جس کے نتیجے میں وہ ہفتے کے آخر میں دم توڑ گئے۔
مشرف کی وراثت آئینی حکم کی خلاف ورزی ہے، بلوچستان میں موت اور تباہی کا کھیل ہے، طالبانائزیشن کی وہ فصل ہے، جس کے گرداب میں ملک آج بھی پھنسا ہے اور جھوٹ اور فریب سے بھرا کیریئر ہے۔ میڈیا پر ان کی لاش پاکستان بھیجے جانے کی خبریں ہیں، کراچی میں ان کے تیسرے بڑے اور آخری سفرکی ذلت آمیز داستان رقم ہو رہی ہے۔ ایک سزا یافتہ آمر کے طور پر جو نہ تو لبرل تھا اور نہ ہی اعتدال پسند۔