لاہور (جدوجہد رپورٹ) حکومت پاکستان کی جانب سے درآمدات پر شدیددباؤ ڈالے جانے کے بعدملکی درآمدات تقریباً 50 ارب ڈالر تک ہونے کا امکان ہے، جو 2022ء میں 81 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھیں۔ تاہم دوسری طرف برآمدات بھی 2022ء کے 32 ارب ڈالر سے کم ہو کر 25 ارب ڈالر ہونے کی توقع ہے۔ یوں درآمدات میں کمی کے نتیجے میں برآمدات میں بھی کمی ہونے کی توقع ہے۔
حکومت نے منصوبہ بندی کی ہے کہ ان اقدامات کے بعد 25 ارب ڈالر کے متوقع تجارتی خسارے کو بیرون ملک محنت کشوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر کے ذریعے سے پورا کیا جائے گا۔ ترسیلات زر بھی گزشتہ سال 31 ارب ڈالر سے کم ہو کر رواں سال 26 ارب ڈالر کی حد تک رہنے کی توقع ہے۔
یوں تجارتی خسارے کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کر بھی لی گئی تو قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
ملکی درآمدات پر ایک نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ درآمد ہونے والی اشیا میں تیل اور گیس پہلے نمبر پر 34 فیصد ہیں۔ اس کے بعد درآمدات میں زرعی کیمیکل 16 فیصد، ٹیکسٹائل سے متعلق درآمدات 8 فیصد، مشینری 8 فیصد، اسٹیل اور ایلومینیم 7 فیصد، خوردنی تیل 7 فیصد، گاڑیاں 3 فیصد، گندم 2 فیصد، چائے 1 فیصد، ٹیلی کام 1 فیصدحصہ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف ملکی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات 61 فیصد، چاول 7 فیصد، کھیلوں اور جراحی کا سامان 5 فیصد، چمڑے اورجوتے 4 فیصد، فارما اور کیمیکل 5 فیصد، جبکہ سیمنٹ کا حصہ 1 فیصد ہے۔
اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی منظوری کے باوجود جلد ہی پاکستان ایک مرتبہ پھر ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو گا۔ ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں فوری طور پر توانائی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے تمام تر معمولات زندگی درہم برہم ہو سکتے ہیں اور ملکی میں قحط اور قلت جیسی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔