حارث قدیر
پاکستان میں قومی شماریات بیورو کے زیر اہتمام 7 ویں مردم شماری یکم مارچ سے جاری ہے اوریہ بلا تعطل 30 مارچ تک جاری رہے گی۔ پاکستانی تاریخ میں یہ پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہو رہی ہے، جس کے تحت شہری جس جگہ پراس وقت رہائش پذیر ہیں، اس جگہ کی ’میپ لوکیشن‘ کے مطابق ان کو شمار کیا جائے گا۔
مردم شماری کسی بھی ملک میں منصوبہ بندی اور ترقی کے اہداف مقرر کرنے کیلئے اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق صوبوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی کا تناسب، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت مالیاتی حصہ اور معیار زندگی کے مطابق پسماندگی کا خصوصی کوٹہ فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی تناسب کی بنیاد پر ہی تعلیم سمیت دیگر شعبہ جات کا کوٹہ بھی مقرر ہوتا ہے۔ روزگار کے ذرائع سمیت ترقی کے دیگر اہداف کیلئے بھی مرد شماری کے ہی اعداد و شمار کا سہارا لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام متنازعہ خطہ جموں کشمیر کے دونوں حصوں ’پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر‘ اور ’گلگت بلتستان‘ میں بھی مردم شماری کے اعداد و شمار جمع کئے جا رہے ہیں۔ تاہم ان دونوں خطوں کے اعداد و شمار قومی شماریات بیورو کی جانب سے کبھی بھی پبلک نہیں کئے گئے ہیں۔ رواں مردم شماری کے اعداد و شمار بھی ان خطوں کے باسیوں کو فراہم نہیں کئے جائیں گے۔ بعد ازاں ان دونوں خطوں میں منصوبہ بندی اور ترقی کی وزارتوں کے تحت مردم شماری کے محدود اعداد و شمار کو شماریات بک کے ذریعے دیگر اعداد و شمار اورجائزوں کے ساتھ شائع کیا جائے گا۔
مردم شماری پر اعتراضات
پاکستان کے مختلف علاقوں کی طرح پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی مردم شماری پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ مردم شماری کے بائیکاٹ کی مہم بھی جاری ہے اور ساتھ ہی دو طرح کے مطالبات رکھے جا رہے ہیں۔ اس خطے کی حکمران اشرافیہ کے نمائندے اور کچھ قوم پرست اور الحاق نواز جماعتوں کی طرف سے جموں کشمیر کی شناخت اور زبانوں کو مردم شماری کا حصہ نہ بنانے، 6 ماہ تک ریاست جموں کشمیر سے باہر رہنے والے افراد کو اس خطے میں شمار نہ کئے جانے اور 6 ماہ سے اس خطے میں رہنے والے غیر ریاستی افراد کو اس خطے کی آبادی میں شمار کئے جانے پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے مطالبات کو پاکستان کے قومی شماریات بیورو کی جانب سے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا ہے کہ مردم شماری کے تمام طریقے اور اصول ’مشترکہ مفادات کونسل‘ میں طے کئے جا چکے ہیں۔ اس مشترکہ مفادات کونسل میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور وزیر اعظم پاکستان موجود ہوتے ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی مشترکہ مفادات کونسل میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
ایک قوم پرست جماعت اور کچھ رائے رکھنے والے افراد اس مردم شماری کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ یہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے اور قومی شماریات بیوروکے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا۔ اس لئے قومی شماریات بیورو یہاں مردم شماری کرنے کا مجاز ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس ادارہ کو کسی قسم کا کوئی ڈیٹا فراہم نہ کیاجائے۔
بائیکاٹ کی حد تک تو مطالبات واضح ہیں۔ تاہم اس خطے میں آبادی کی مردم شماری اور معاشی مردم شماری کے انعقاد اور ترقی کی منصوبہ بندی کیلئے متبادل پروگرام کا فقدان موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیکاٹ مہم نہ صرف یہ کہ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکی، بلکہ محض چند سو سے بھی کم افراد کی جانب سے ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کیا جا سکا ہے۔ یوں ابہام کی وجہ سے یہ احتجاج ابھی تک ایک مذاق بن کر رہ چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو حکمران اشرافیہ کے نمائندوں اور قوم پرست اور الحاق نواز جماعتوں کی بڑی اکثریت کی جانب سے ایک جیسا موقف اپنانا ہے۔
اگر پاکستان کی حکومت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی شناخت کا خانہ اور زبانوں کی شمولیت کا مطالبہ پورا کر لیتی ہے تو یہ بائیکاٹ ختم کر کے مردم شماری کا حصہ بننے پر بظاہر کسی کو اعتراض باقی نہیں رہے گا۔
مسائل کیا ہیں؟
پاکستان کے قومی شماریات بیورو نے اس سے قبل 6 مرتبہ مردم شماری کی ہے۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے کسی بھی مردم شماری کے نتائج بیورو کی جانب سے پبلک نہیں کئے گئے ہیں۔ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ اس وجہ سے اس کے نتائج شائع نہیں کئے جا سکتے۔ رواں مردم شماری کے نتائج بھی شائع نہیں کئے جائیں گے۔‘
تاہم موجودہ مردم شماری کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ ’جو شخص جہاں 6 ماہ سے رہائش پذیر ہے، اس کو اسی علاقے کی آبادی میں شمارکیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص مردم شماری سے ایک روز قبل بھی کسی جگہ منتقل ہوا اور اس نے مستقبل میں لمبے عرصہ تک اسی جگہ رہنے کا عزم ظاہر کیا تو بھی اسے نئی جگہ کی آبادی میں ہی شمار کیا جائے گا۔‘
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی آبادی کی بہت بڑی تعداد روزگار، کاروبار اور رہائش کیلئے پاکستان کے مختلف شہروں اور پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں زیر تعلیم ہے۔ یوں یہ آبادی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی آبادی کے طورپر شمار نہیں کی جائے گی۔ اگر ان کی قومیتی شناخت کو بھی فارم میں شامل نہیں رکھا جائے گا تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا کہ کل آبادی کتنی ہے۔
تاہم اس متعلق شماریات بیورو کے افسر کا کہنا ہے کہ ’مردم شماری کا ڈیٹا استصواب رائے کیلئے استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہ ڈیٹا اقتصادی اور ترقیاتی منصوبہ بندی سمیت دیگر داخلی فیصلہ سازی کیلئے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ڈیٹا میں جو طالبعلم، مزدور اور کاروباری افراد پاکستان کے مختلف صوبوں سے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں آباد ہیں، انہیں اسی خطے کی آبادی میں شمار کیا جائے گا۔ شناختی کارڈ کی قید نہ ہونے کے باعث افغان شہریوں کو بھی اسی خطے کی آبادی میں ہی شمار کیا جائے گا۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’جو آبادی بیرون ملک ہے، ان میں سے صرف انہی لوگوں کو اس ڈیٹا میں شمار کیا جائے گا، جن کے خاندان یہاں آباد ہیں۔ تاہم جو پورے خاندان بیرون ملک مقیم ہیں، انہیں اس ڈیٹا میں شمار نہیں کیا جائے گا۔‘
بیرون ملک موجود افراد کے اعداد و شمار کا کیا ہو گا؟
ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ ’اس ڈیٹا سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے کتنے افراد بیرون ملک روزگار کیلئے اکیلے یا خاندانوں سمیت منتقل ہو چکے ہیں۔ نہ ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سالانہ کتنا زرمبادلہ ارسال کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا وزارت داخلہ کے پاس ہوتا ہے۔ وہی اس ڈیٹا کو مرتب کرتے ہیں۔‘
تاہم یہ واضح رہے کہ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار، جو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی شماریات بک میں بھی شائع کئے جاتے ہیں، ان کے مطابق صرف یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران اس خطے سے کتنے لوگ بسلسلہ روزگار بیرون ملک منتقل ہوئے۔ کوئی سروے ایسا موجود نہیں ہے، جس سے یہ تخمینہ لگایا جا سکے کہ کتنی افرادی قوت اس خطہ سے بیرون ملک برآمد کی گئی ہے۔ یہ تخمینہ بھی موجود نہیں ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے سالانہ 30 ارب ڈالر کے زرمبادلہ میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے محنت کشوں اور کاروباری افراد کا حصہ کتنا ہوتا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 5 سالوں کے دوران سالانہ اوسط 35 ہزار افراد بسلسلہ روزگار بیرون ملک منتقل ہوئے۔ یوں بیرون ملک روزگار کیلئے منتقلی اس خطہ کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ایک محتاط اندازے کے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 12 سے 15 لاکھ نفوس بیرون ملک ہیں اورکم از کم غیر ملکی زرمبادلہ کا ایک تہائی حصہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے محنت کشوں کی جانب سے ارسال کیا جاتاہے۔ تاہم اس کا درست تخمینہ اعداد و شمار کو جمع کرنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔
متازعہ علاقوں میں پاکستان کی قومی مردم شماری کی اہمیت
صرف ایک یہ المیہ نہیں ہے کہ پاکستان کی قومی مردم شماری کے اعداد و شمار کے ساتھ اس کے زیر انتظام نو آبادیاتی علاقوں کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے ان کے اعداد و شمار کو شائع نہیں کیا جائے گا۔ بنیادی المیہ یہ ہے کہ مردم شماری سمیت اقتصادی ترقی کے اہداف طے کرنے والی مشترکہ مفادات کونسل میں ان خطوں کی نمائندگی ہی شامل نہیں ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے قومی شماریات بیورو کی جغرافیائی تقسیم میں وفاقی علاقے (اسلام آباد) کے دو ریجنوں کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ چاروں صوبوں میں شماریات بیورو موجودہیں، جبکہ ان دو خطوں میں شماریات کے بیورو کا وجود بھی نہیں ہے۔ پاکستان کا قومی شماریات بیورو جو اعداد و شمار مہیا کرتا ہے، ان دو خطے کے منصوبہ بندی و ترقیات کے محکمہ جات ان اعداد و شمار کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
مردم شماری کے نتائج کے مطابق قومی مالیاتی کمیشن کے تحت مالیاتی حصص مختص کئے جاتے ہیں۔ تاہم ان دونوں خطوں کی قومی مالیاتی کمیشن میں بھی نمائندگی موجود نہیں ہے۔ یوں قومی مالیاتی کمیشن میں چاروں صوبوں کی آبادی، وسائل، محصولات کے حجم اور ترقی و پسماندگی کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ میں حصہ متعین کیا جاتا ہے۔ تاہم جموں کشمیر و گلگت بلتستان کیلئے وفاق کے زیر انتظام علاقوں کے طور پر ایک مخصوص حصہ مقرر کر رکھا گیا ہے، جس کے مطابق بھی بجٹ فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان کے مجموعی محصولات میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا حصہ 3.68 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم 55 سے 75 ارب روپے کے درمیان رقم بجٹ میں مختص کی جاتی ہے، جو پوری فراہم بھی نہیں کی جاتی۔ دوسری طرف قومی محصولات کے ہدف سے 3.68 فیصد کا تخمینہ لگایا جائے تو 300 ارب روپے سے زائد رقم بنتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال گلگت بلتستان کی بھی ہے۔
مردم شماری کی تیسری بنیادی اہمیت قومی اسمبلی میں نمائندگی کے تناسب کیلئے ہوتی ہے۔ تاہم جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی کا حق بھی متنازعہ یا پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں ہے۔
معیار زندگی اور وسائل کا تخمینہ بھی اس خطے کے لوگوں کا اس وقت تک نہیں لگایا جا سکتا، جب تک بیرون ملک مقیم محنت کشوں اور کاروباری افراد کا ڈیٹا الگ سے شمار نہ کیا جائے اور ان کے ترسیلات زرکے اعداد و شمار جمع نہ کئے جائیں۔ اس مردم شماری میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے سب سے اہم روزگار کے ذریعے کو ہی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
پاکستان کی قومی مردم شماری کے تحت نہ تو اس متنازعہ خطے کی آبادی کا درست تخمینہ لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس آبادی کے معیار زندگی اور وسائل کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ نہ ہی اس کے تحت پاکستان کے قومی وسائل میں اس خطے کا حصہ مقرر کیا جا سکتا ہے، نہ ہی اس خطے کے محصولات کا تخمینہ لگا کر اس خطے کو متناسب شیئر فراہم کرنے کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔
یوں یہ قومی مردم شماری پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں کیلئے غیر اہم ہو کر رہ جاتی ہے۔ تاہم حکمران ریاست کو اس کے تحت اعداد و شمار کے ہیر پھیر میں کافی مدد میسر آتی ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد تمام شہریوں کا ڈیٹا ان کی رہائش کی ’پن لوکیشن‘ کے ساتھ حاصل ہو جائے گا، جس کے بعد بالخصوص متنازعہ علاقوں اور قومی محرومی کا شکار خطوں میں ریاست کی بالادستی اور کنٹرول مزید سخت گیر ہو جائے گا۔
متبادل کیا ہے؟
متبادل موقف دیئے بغیر پاکستان کی قومی مردم شماری کو مسترد کرنے پر شہریوں کو تیار کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ تاحال متبادل کے حوالے سے کوئی سنجیدہ بحث بھی نہیں کی جا سکی ہے۔ انقلابیوں کے پروگرام اور حکمران اشرافیہ کے پروگرام میں اگر کوئی فرق باقی نہ بچے تو پھر عوام کو حکمران اشرافیہ کی طاقت کی جانب راغب کرنے اور سامراجی ریاستوں کے مقاصد و مفادات کیلئے استعمال ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔
چند بنیادی نکات ایسے ہیں، جن پر فوری طور پر عملدرآمد کے بغیر متنازعہ علاقوں کے باسیوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کا راستہ متعین کرنے ممکن نہیں ہے۔
٭ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں شماریات بیوروز کا قیام عمل میں لایا جا کر دونوں خطوں میں الگ الگ ڈیجیٹل مردم شماری کرتے ہوئے ان خطوں کی مقامی آبادی، ان خطوں میں مقیم غیر ریاستی آبادی اوربیرون ریاست موجود مقامی آبادی کا مکمل ڈیٹا جمع کیا جا سکتا ہے۔
٭ ان خطوں کے وسائل کاتخمینہ اور اعداد و شمار بھی از سر نو جمع کرتے ہوئے ڈیجیٹل مردم شماری میں بیرون ریاست موجود شہریوں کے ترسیلات زر کے اعداد و شمار بھی جمع کئے جا سکتے ہیں۔
٭ مقامی بینک کو مرکزی ریاستی بینک کا درجہ دیتے ہوئے تمام ترسیلات زر براۂ راست ریاستی بینک میں جمع کرنے سے افرادی قوت کی برآمدات کا تخمینہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی مقامی ریاستی بینک کاقیام عمل میں لایا جانا چاہیے اور تمام نجی اور پاکستانی بینکوں کو ان مرکزی بینکوں کے ساتھ شیڈول اور ریگولیٹ کرتے ہوئے اس خطے میں مقامی سطح پر روزگار پیدا کرنے اور سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
٭ ان خطوں میں ٹیلی کام اور دیگر سروسز فراہم کرنے والی تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مقامی سطح پر لائسنسنگ کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کو ٹیکس جمع کرنے میں بااختیار بنایا جانا چاہیے۔ ہر طرح کے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ محصولات جمع کرنے کے اختیارات بھی مقامی حکومتوں کو فراہم کئے جانے چاہئیں۔ صنعت کاری، سرمایہ کاری اور تجارت کے اختیارات بھی مقامی حکومتوں کو دیئے جانے چاہئیں۔ اگر قومی مالیاتی کمیشن، قومی اسمبلی اور نمائندگی کی ہر جگہ پر متنازعہ حیثیت کی وجہ سے اگر موجودگی ممکن نہیں ہے، تو پھر یہ خطے اپنے وسائل کے بارے میں آزادانہ فیصلہ سازی تو کر سکیں۔
٭ اس خطے میں پیدا ہونے والی بجلی کی پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ترسیل دیگر صوبوں کی طرز پر نہیں کی جانی چاہئے۔ تمام پیدا ہونے والی بجلی ریاستی سطح پر قائم گرڈ میں جانی چاہیے اور وہاں سے اس خطے کی ضرورت کے مطابق بجلی کو محفوظ رکھتے ہوئے دیگربجلی کی پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ترسیل بھی اسی بنیاد پر کی جانی چاہیے، جس طرح پاکستان کے آئینی اور جغرافیائی حصے سے باہر دیگر ملکوں اور ریاستوں کی طرف سے کی جا سکتی ہے۔ یوں اس خطے میں بجلی کی فروخت سے بھاری سرمایہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ مقامی آبادیوں کو سستی اور ایک حد تک مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
٭ تمام وسائل کو قومی منصوبہ بندی کے تحت استعمال میں لاتے ہوئے مقامی سطح پر بنیادی صنعتی انفراسٹرکچر کے قیام، نقل و حمل کے انفراسٹرکچر کی جدید بنیادیں رکھنے اور جدید ترین صحت و تعلیم کی مفت فراہمی کے ذریعے سے جدید تکنیکی صلاحیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یوں ریاستی منصوبہ بندی کے ذریعے سے اس خطے کے لوگوں کو معاشی تنگ دستی، بیرزگاری اور دیگر محرومیوں سے نجات دلانے کی بنیادیں رکھی جا سکتی ہیں۔
٭ مقامی سطح پر محض بااختیار حکومتوں کے مطالبات کی بجائے حکومت سازی کے اختیارات مکمل طور پر مقامی آبادیوں کے سپرد کئے جانے کیلئے جدوجہد کو استوار کیا جانا چاہیے۔ حکمران اشرافیہ، سامراجی لینٹ افسران اور نظام حکومت کو کنٹرول کرنے والے ہر سامراجی عنصر کی بے دخلی اور اقتدار کیلئے محنت کشوں اور نوجوانوں کی آزادانہ، جمہوری فیصلہ سازی کے حق کیلئے لڑا جاناچاہیے۔
٭ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر و لداخ پر مشتمل اس متنازعہ خطے کی آبادی اور وسائل کا شمار کرنے کیلئے ان خطوں کی آزادانہ ڈیجیٹل مردم شماری 1947ء سے قبل اس خطے میں آباؤ اجداد کی رہائش کے ثبوت کے ساتھ مرتب کرتے ہوئے اس خطے کی مقامی آبادی کے درست اعدادو شمار کو جمع کیا جانا ضروری ہے۔ تاکہ کم از کم یہ بات واضح ہو سکے کہ 75 سال سے کتنے نفوس کو متنازعہ آبادی کے طور پر شمار کیا جا رہا ہے۔
٭ اس متنازعہ خطے کی تمام اکائیوں میں بسنے والی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل محنت کشوں کے مابین اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی بنیادیں رکھنے کیلئے حکمت عملی اپناتے ہوئے قومی، لسانی اور ثقافتی شناخت اور آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک فیڈریشن کے قیام کیلئے جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس جدوجہد کی فتح مندی کیلئے بھارت اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ تاہم عبوری پروگرام کے ذریعے درست سمت میں جدوجہد کو آگے بڑھانے کا عمل ان نتائج کے حصول کو قریب سے قریب تر کرتا جائے گا۔