ہیلن لاکنر
2022ء کے وسط میں یوکرین میں جنگ نے ڈرامائی طور پر دنیا بھر میں انسانی بحران کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ اگرچہ یوکرائنی اور روسی گندم کو بحیرۂ اسود کے ذریعے سفر کرنے سے روکنے والی ناکہ بندی میں نرمی ہو سکتی ہے، لیکن عالمی طلب اور بھارت اور دیگر جگہوں پر فصل کی ناکافی پیداوار یہ بتاتی ہے کہ قیمتیں زیادہ رہیں گی اور مستقبل قریب کے لیے دستیابی محدود رہے گی۔ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ کے لوگوں کو پہلے سے ہی درپیش بے شمار مسائل کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔
گزشتہ صدی کے اواخر میں 23 سال تک جزیرہ نما عرب میں ظاہری طور پر ایک سوشلسٹ ریاست تھی۔ درحقیقت پوری عرب دنیا میں یہ واحد ریاست تھی۔ یہ کیسے ہوا؟ اور تجربہ کیوں ختم ہوا؟ پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن (PDRY) میں رہنے والے 20 لاکھ یمنیوں کے لیے یہ کیسا نظام تھا؟
کئی وجوہات کی بنا پر آج ’PDRY‘ کے بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے۔ 1990ء میں متحد ہو کر پورے یمن پر قبضہ کرنے والی حکومت کی طرف سے ’PDRY‘ کی تاریخ کو چھپانے کی دانستہ کوشش کی گئی اور 1994ء کی مختصر خانہ جنگی کے بعد ’PDRY‘ حکمرانی کے تمام نشانات کو ختم کر دیا تھا۔ مزید برآں، اس خطے کے یمنی باشندوں کی اکثریت جو آج زندہ ہے، اس حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئی۔ وسیع تر تناظر میں بین الاقوامی عالمی نظریات میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں، جنہوں نے سوشلسٹ تجربات کے مثبت پہلوؤں کو ہر جگہ دبا دیا ہے، انہیں شیطانی بنا دیا ہے اور کسی بھی حوالہ کو ان کے انتہائی منفی پہلوؤں پر مرکوز کر دیا ہے۔
یہ مضمون ’PDRY‘ کی تاریخ کے اہم واقعات اور اس سے درپیش مسائل کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ بین الاقوامی سیاق و سباق نے بنیادی طور پر اس کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ اندرونی جدوجہد کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہم میں داخلی سیاست اور ’PDRY‘ کی معاشی اور سماجی پالیسیوں پر توجہ دینے سے قبل اس تناظر کی اہم خصوصیات کے مختصر خلاصے کے ساتھ آغاز کریں گے۔
بین الاقوامی سیاق و سباق
1960ء کی دہائی میں دنیا ایک بہت ہی مختلف جگہ تھی، جسے سرد جنگ نے ایک سوشلسٹ مشرق اور بڑے پیمانے پر فلاحی سرمایہ دار مغرب کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ سوشلسٹ مشرق کو عام طور پر کمیونسٹ کہا جاتا تھا اور اس کی قیادت دو حریف طاقتوں یو ایس ایس آر اور عوامی جمہوریہ چین کے پاس تھی، جبکہ فلاحی سرمایہ دار مغرب کی قیادت امریکہ اورمغربی یورپ کی ریاستوں کے پاس تھی۔
دو اہم مسائل مشرق وسطیٰ کی سیاست پر حاوی رہے: ایک طرف فلسطین کا سوال تھا اور دوسری طرف ”عرب سوشلزم“ کی مسابقتی شکلوں کے درمیان رقابت تھی۔ جمال عبدالناصر کے مصر سے شام اور عراق کی حریف ’باتھ اسٹ‘حکومتیں ڈھیلے ڈھالے طریقے سے یو ایس ایس آر کے ساتھ منسلک تھیں، اور دوسری طرف بادشاہتیں اور دوسری حکومتیں (جیسے لبنان کی) مغرب کے ساتھ مضبوطی سے منسلک تھیں۔ قوم پرستی اور سیکولر مسائل خطے کی سیاسی گفتگو پر حاوی رہے۔
ایشیا میں پہلے مرحلے میں اسی نوعیت کی تبدیلیوں کے بعد 1960ء کی دہائی بھی افریقہ میں زیادہ تر سابق برطانوی اور فرانسیسی کالونیوں کے لیے باضابطہ آزادی کی دہائی تھی۔ انگولا اور موزمبیق کی پرتگالی کالونیوں میں اب بھی اینٹی کلونیل جدوجہد جاری تھی۔ الجزائر میں 6 سال کی وحشیانہ جنگ کے بعد 1962ء میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد مغربی تسلط کے خلاف سب سے نمایاں لڑائی ویت نام میں تھی۔ یہ لڑائی 1975ء میں سوشلسٹ شمال کی فتح اور سائیگون میں امریکی سفارت خانے کی چھت سے امریکہ کے آخری رسوا کن انخلا کے ساتھ ختم ہوئی۔
دریں اثنا 1959ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد فیڈل کاسترو کیوبا میں سوشلسٹ نظام قائم کر رہے تھے۔ اس نے ایسا امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی واضح کوششوں کے پیش نظر کیا۔ 1962ء کے کیوبا کے میزائل بحران کے دوران سوویت یونین کی جانب سے کیوبا میں میزائل نصب کرنے کے بعد دنیا جوہری جنگ سے بال بال بچ گئی۔
شمالی یمن کے نام سے مقبول ہونے والے خطہ میں جمہوریہ فوج کے افسران نے 1962ء میں امامت کی حکومت کو معزول کر دیا تھا اور اسکا نام یمن عرب ریبپلک (YAR) رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد 7 سالہ خانہ جنگی ہوئی۔ بادشاہت کو بحال کرنے کے خواہش مند امام کے حامیوں کو سعودی بادشاہت اور برطانیہ کی حمایت حاصل تھی، جب کہ ناصر کے مصر نے انتظامی اور عسکری طور پر جمہوریہ حکومت کی حمایت کی۔ ان سالوں کے دوران یمن میں 70 ہزار تک فوجی تعینات کیے گئے۔
مصری اسرائیل کے خلاف جون 1967ء کی جنگ میں اپنی شکست کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے، لیکن ’YAR‘ قائم رہا۔ 1970ء تک ایک سمجھوتہ طے پا گیا، جس نے ایک رسمی جمہوریہ کو برقرار رکھا لیکن جمہوریہ کے اندر بائیں بازو کے عناصر اور بادشاہی کیمپ میں امام کے قریب ترین عناصر کو کنارے کر دیا۔
کالونائزیشن اور ڈی کالونائزیشن
برطانیہ نے 1839ء میں عدن پر قبضہ کر لیا۔ 1869ء میں نہر سویز کے کھلنے کے بعدصدی کے آخر تک برطانوی حکام نے اسے اپنے اہم شاہی قبضے، ہندوستان کے راستے پر ایک بڑی بندرگاہ اور اسٹیجنگ پوسٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ ایک طرف صنعا کی امامت اور سلطنت عثمانیہ اور دوسری طرف فرانس کے حریف دعوؤں سے بچنے کے لیے برطانیہ نے عدن کے اندرونی علاقوں میں مائیکرو اسٹیٹس اور اداروں کی ایک وسیع رینج کے ساتھ پروٹیکٹوریٹ معاہدوں کا ایک سلسلہ قائم کیا۔
20 ویں صدی کے وسط تک عدن دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک بن گیا تھا، جہاں ایک بڑی مزدور قوت کام کرنے کے بہتر حالات کا مطالبہ کر رہی تھی اور خطے کی اینٹی کلونیل تحریکوں سے تیزی سے متاثر تھی۔ 1956ء کے سویز بحران کے بعد ناصری نظریہ قاہرہ کے ”وائس آف دی عرب“ ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے پھیل گیا۔ اس صورتحال نے عدن کے محنت کشوں کو اپنے سیاسی مطالبات کو بڑھانے کی ترغیب دی۔
عدن کی آبادی اور اس کی لیبر فورس بنیادی طور پرپروٹیکٹوریٹ اور اس وقت کی امامت کے ارد گرد کے علاقوں سے آنے والے دیہی مہاجرین پر مشتمل تھی۔ برطانیہ نے بڑھتی ہوئی قوم پرستی پر قابو پانے کے لیے بہت سے تدبیریں کیں، جس سے عدن پر اس کے کنٹرول کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کا اختتام 1963ء میں فیڈریشن آف ساؤتھ عربیہ کے قیام پر ہوا، جس نے کئی اندرونی ریاستوں اور عدن کو ایک بے چین اتحاد میں اکٹھا کیا،جو بمشکل 5 سال تک جاری رہا۔
1950ء کی دہائی کے دوران پروٹیکٹوریٹس اور عدن کے چند آدمیوں نے بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی،جہاں انہوں نے عرب قوم پرستوں کی تحریک (MAN) میں شمولیت اختیار کی۔ یہی وہ تنظیم تھی جس سے عرب دنیا میں بائیں بازو کی آزادی کی زیادہ تر تحریکیں ابھریں، جن میں سب سے نمایاں طور پر فلسطین پیپلز فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (PFLP) اور ڈیموکریٹک فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (DFLP) اور اس کے ساتھ ساتھ کویت میں تحریکیں اور پیپلز فرنٹ فار دی لبریشن آف دی آکوپائیڈ عربین گلف (PFLOAG) شامل ہیں۔ ’MAN‘ میں شامل ہونے والے ملک کے تمام حصوں سے یمنیوں نے تحریک کے اندر اور اس کے آس پاس ہونے والے واقعات پر تبادلہ خیال اور مشاہدہ کرنے میں حصہ لیا۔
1950ء کی دہائی کے آخر میں ’MAN‘ کے اندر طبقاتی جدوجہد پر توجہ مرکوز کرنے والے اور خطے کی کمیونسٹ پارٹیوں کے قریب سمجھے جانے والے بائیں بازو کے دھڑے اور زیادہ قوم پرستانہ نقطہ نظر کے حامل دائیں بازو کے دھڑے کے درمیان تناؤ پیدا ہوا۔ یہ بالآخر 1964ء میں تحریک میں تقسیم کا باعث بنا۔ 1962ء میں یمنیوں نے دیگر مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر نیشنل لبریشن فرنٹ فار دی لبریشن آف ساؤتھ یمن اوراس کے بعد ’NLF‘ کی تشکیل کی۔ 1963ء میں برطانیہ اور اس کی فیڈریشن آف ساؤتھ عربیا کے خلاف مسلح جدوجہد کی مہم شروع کر دی۔
اگلے سالوں میں ’NLF‘ کی ناصرائٹ فرنٹ فار دی لبریشن آف آکوپائیڈ ساؤتھ یمن (FLOSY) کے ساتھ دشمنی عرب دنیا میں ان دو رجحانات کے درمیان سب سے زیادہ نمایاں اور فعال فوجی تصادم کی صورت میں سامنے آئی۔ دونوں تنظیموں کے درمیان مسلح تصادم عدن پر مرکوز تھا، جہاں ’FLOSY‘ کی حقیقی موجودگی تھی۔ تاہم 1967ء کے وسط تک ’NLF‘ نے اندرونی علاقوں کی اکثریت پر قبضہ کر لیا تھا اور اسی سال اگست میں اس نے عدن میں ’FLOSY‘ کو مکمل شکست دی۔
ان پیش رفتوں کی وجہ سے برطانیہ نے عدن سے نکلنے کے لیے ’NLF‘ کے ساتھ جلد بازی میں بات چیت کی۔ یہ ایک ایسی تنظیم تھی جس کے بارے میں انگریز بہت کم جانتے تھے، سوائے اس حقیقت کے کہ یہ ناصر کے خلاف تھی۔ اس وقت برطانوی حکومت کے اہلکار ناصر کو شیطان کے اوتار کے قریب ترین چیز سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اقتدار کسی ایسے شخص کو سونپنے کو ترجیح دی جس کا تعلق ناصریت سے نہ ہو۔
’NLF‘ کا اقتدار
’NLF‘ نے اس ملک کا نام بدل کر’PDRY‘ رکھ لیا اور 1970ء میں حکومت قائم کی۔ اس ریاست کے وجود کے 23 سالوں میں این ایل ایف اور اسکی جانشین تنظیم یمنی سوشلسٹ پارٹی (YSP) نے حکومت کی۔ یہ مشرق وسطیٰ کی واحد ریاست تھی جو سرد جنگ میں سوشلسٹ بلاک کے ساتھ منسلک تھی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ، اگرچہ زیادہ تر دھڑے بندیوں کے اختلافات فوجی محاذ آرائی پر منتج ہوئے، لیکن قیادت سیاسی تھی اور اس کے اختلافات بھی سیاسی تھے، جن پر فوج نے فیصلہ سازی کے عمل میں مداخلت کرنے کی بجائے دوسرے بہت سے ممالک کی طرح ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں کردار ادا کیا۔
یہ تجربہ نصف صدی بعد یاد کرنے کے لیے اہم ہے، کیونکہ یہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے سبق فراہم کرتا ہے،جنہوں نے 2011ء سے مختلف اوقات میں مشرق وسطیٰ میں ایک بہتر، زیادہ منصفانہ اور زیادہ انصاف پسند دنیا کے لیے احتجاج کیا ہے۔ 21 ویں صدی میں یہاں کوئی سوشلسٹ بلاک نہیں ہے اور واضح طور پر سوشلسٹ نظریہ کو بڑے پیمانے پر ایک شیطانی عمل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ’PDRY‘ کا تجربہ مثبت اور منفی دونوں عناصر فراہم کرتا ہے، جو آج ہر اس شخص کے لیے اہم ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا کی امید رکھتا ہے جو چند لوگوں کی بجائے اکثریتی لوگوں کے مفادات میں حکومت کرے۔
آزادی حاصل کرنے سے پہلے ’NLF‘ نے ’YAR‘ میں تین کانگریسیں منعقد کیں۔ صرف 1965ء میں تاعز میں منعقدہ ہونے والی پہلی کانگریس میں ایک پالیسی بیان کے طور پر نیشنل چارٹر پیش کیا۔ اس نے اس دور کے ریڈیکل ازم کو جنم دیا، ’NLF‘ کو استعمار اور سامراج کے خلاف ایک انقلابی تحریک کے طور پر بیان کیا، اور یمنی اتحاد پر زور دیا۔
آزادی سے پہلے اور بعد کے پورے عرصے میں یمنی اتحاد ’NLF/YSP‘ کے لیے ایک بنیادی پالیسی تھی۔ حالانکہ اس کے دھڑوں نے اس طریقہ کار پر بحث کی، جس کے ذریعے اسے حاصل کیا جانا چاہیے اور اسے کیا شکل اختیار کرنی چاہیے۔ کچھ رہنما (اکثر وہ لوگ جو ’YAR‘ کے علاقے میں پیدا ہوئے) نے اتحاد کے حصول کے لیے بشمول فوجی مداخلت کے استعمال کے زیادہ فعال حکمت عملی کی حمایت کی۔ دوسروں نے اسے حاصل کرنے کیلئے مذاکرات اور ایک ڈھیلے، کم مرکزی شکل کے اتحاد کی حمایت کی۔
اپنے ابتدائی دنوں سے ’NLF‘ کے پروگرام نے عدن شہر اور اندرونی علاقوں کے درمیان’’ترقی کے گہرے خلا کو دور کرنے اور سماجی انصاف کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ایک نئی اور صحت مند بنیاد پر قومی معیشت کی تعمیر پر زور دیا اور پرائمری پروڈکٹس اور ذرائع پیداوار پر مقبول کنٹرول کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا گیا۔“ جس میں نجی شعبہ ”اہم کردار ادا کر سکتا ہے…بشرطیکہ یہ استحصال اور اجارہ داری سے گریز کرے اور خود کو قانون کے ذریعہ مختص کردہ علاقوں تک محدود رکھے۔“
یہ تجاویز نمایاں طور پر 2011ء میں یمنی انقلابیوں کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز سے ملتی جلتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر، جیسے مرکزی منصوبہ بندی اور ”غیر ملکی استحصالی سرمایہ داری اور استعماری کمپنیوں“ سے آزادی کی وکالت، اس وقت کے مشرقی بلاک کے تصورات کی زیادہ یاد دلاتی ہیں۔
گروہی لڑائیاں
نومبر 1967ء میں آزادی کے بعد منعقد ہونے والی 1968ء کی زنجبار کانگریس نے اہم نظریاتی تجاویز پیش کیں۔ اس نے ’NLF‘ کے اندر پہلی بڑی اندرونی ہلچل کو نشان زد کیا، جسے بائیں بازو کے رجحان نے لینڈ سلائیڈ اندازمیں جیتا تھا، جس میں لینن کے الفاظ میں ”ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر“ اور پیٹی بورژوازی پر حملہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دائیں اور بائیں بازو کے دھڑوں کے درمیان جدوجہد ایک سال تک جاری رہی اور اس میں بغاوت کی کوششیں، گرفتاریاں اور سیاسی اختلافات پر بات چیت کے لیے تیار نہ ہونے کے دیگر اشارے شامل تھے۔ یہ 1969ء کے ”22 جون کے اصلاحی اقدام“ پر اختتام پذیر ہوا، جس نے دائیں بازو کو ختم کر دیا اور ایک پانچ رکنی صدارتی کونسل تشکیل دی، جس میں اگلے سالوں میں دشمنی جاری رہے گی۔
1971ء تک صدارتی کونسل کو تین رکنی یا سہہ رخی میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جو 1978ء تک انچارج رہی اور اس میں تین اہم دھڑے شامل تھے۔ سلمین کے نام سے مشہور صدر سالم روبایا علی سب سے زیادہ بائیں بازو کے عنصر کی نمائندگی کرتے تھے۔ سلمین کو اکثر ماؤ نواز کے طور پر بیان کیا جاتا تھا کیونکہ وہ براۂ راست عوامی شمولیت کی حمایت کرتے تھے اور بیوروکریٹک اداروں بشمول ایک پارٹی کے اندر ایسے اداروں پرمعترض تھے۔
انہوں نے ’PDRY‘ کے سب سے زیادہ انقلابی اقدامات شروع کیے۔ خاص طور پر 1972ء کے ”7 دن“، جب عدن میں مظاہرین نے ریاست کے لیے مالی مجبوری کے وقت اپنی تنخواہوں میں کمی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ یہ واقعہ بدنام رہا، کسانوں اور ماہی گیروں کی بغاوتوں کے ذریعے زرعی اصلاحات کے قانون کے نفاذ نے دیہی علاقوں میں مختلف سماجی طبقات کے درمیان تعلقات پر گہرا اثر ڈالا۔
سلمین کی سیاست، جس میں عام شہریوں کی براۂ راست شمولیت پر توجہ مرکوز تھی، کے برعکس سیکرٹری جنرل عبدالفتاح اسماعیل کی پالیسیاں ادارہ جاتی تھیں۔ انہوں نے واضح طور پر سوویت اور مشرقی یورپی ماڈلز کی طرف سے پیش کردہ ہدایات اور رہنمائی کی پیروی کی، جو فیصلہ سازی کرنے والی قیادت کے ساتھ ایک درجہ بندی کے پارٹی ڈھانچے پر مبنی تھی اور اس میں مقبول اقدامات کے لیے بہت کم گنجائش باقی تھی۔
1972ء کی ’NLF‘ کی 5 ویں کانگریس نے دو دیگر سیاسی گروپوں، مقامی کمیونسٹ پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک یونین (PDU) اور باتھ اسٹ گروپنگ پیپلز وینگارڈ پارٹی (PVP) کوضم کرنے کے بعد اس تحریک کا نام بدل کر نیشنل فرنٹ پولیٹیکل آرگنائزیشن رکھ دیا۔ اس کانگریس نے مرکزی کمیٹی اور پولیٹیکل بیورو کے ساتھ ایک مرکزی سیاسی جماعت کی جال بھی قائم کی۔ پیٹی بورژوازی پر حملوں کو ہٹانے کے علاوہ کچھ نظریاتی تبدیلیاں ہوئیں، جس نے اس بات پر پردہ ڈالا کہ سالمین کے زیادہ مقبول ”ماؤسٹ“ دھڑے اور عبدالفتاح اسماعیل کے زیادہ افسر شاہی، مشرقی یورپی طرز کے ویژن کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخ اندرونی کشمکش کیا تھی۔
1975ء میں دو کانگریسوں نے محض اس جدوجہد کو جاری رکھا اور دو دیگر تنظیموں کے مزید انضمام کے ساتھ سلمین کی پوزیشن بتدریج کمزور ہوتی گئی۔ انہوں نے پیٹی بورژوازی کا حوالہ ایک مثبت قوت کے طور پر شامل کر لیا۔ یہ ایک ایسا قدم تھا، جس کی حوصلہ افزائی سوویت یونین کی طرف سے تیسری دنیا میں اپنی دوست حکومتوں کیلئے دی گئی نصیحت سے کی گئی تھی۔ اس وقت تک عالمی کمیونزم کی قیادت کیلئے سینو سوویت کشمکش اور چینی ثقافتی انقلاب اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ یو ایس ایس آر اور عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے بین الاقوامی سطح پر اپنے مثبت اسرار کو کھو دیا تھا، کیونکہ ان کی بہت سی منفی خصوصیات مشہور ہو گئی تھیں۔
اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے سالمین کی آخری کوششوں میں سے ایک اکتوبر 1977ء میں ’YAR‘ کے وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کرنے والے والے صدر ابراہیم الحمدی کا دورہ تھا۔ دونوں رہنماؤں سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ دونوں ریاستوں کے اتحاد کے لیے ایک معاہدے تک پہنچیں گے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو پورے ملک میں بہت مقبول ہوسکتا تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ الحمدی کو سفر کے موقع پر ’YAR‘ کے دارالحکومت صنعا میں قتل کر دیا گیا۔
سالمین کے خلاف جدو جہد جون 1978ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ صنعا میں ’YAR‘ کے قلیل المدت صدر احمد الغاشمی کے مبینہ طور پر سالمین کے ایک ایلچی کے ہاتھوں قتل کے بعدان کے حریفوں نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے پھانسی دی۔ اس صورتحال نے اسی سال اکتوبر میں یمنی سوشلسٹ پارٹی (YSP) کے قیام کا راستہ کھول دیا۔
سالمین کی شکست کے بعد باقی رہ جانے والے دونوں رہنماؤں کے درمیان سیاسی جنگ چھڑ گئی۔ کسی واضح نظریاتی پوزیشن کے بغیردہائی کے آغاز سے وزیر اعظم رہنے والے علی ناصر محمدنے عبدالفتاح اسماعیل کو ہٹانے کے لیے کام کیا۔ 1980ء میں مؤخر الذکر ملک کی سربراہی میں صرف دو سال رہنے کے بعد ماسکو میں جلاوطنی کے لیے روانہ ہو گئے اور علی ناصر تمام عہدوں صدر، ’YSP‘ کے سیکرٹری جنرل اور وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔
اس سے ’PDRY‘ کے اوپری حصے میں دھڑے بندی ختم نہیں ہوئی۔ علی ناصر محمد نے 1981ء کے اوائل میں اپنے باقی ماندہ حریف محمد صالح مطیع کو کامیابی کے ساتھ ختم کر دیا۔ تاہم ’NLF‘ کے باقی رہ جانے والے کچھ رہنما آخر کار اسماعیل اور ان کے اتحادیوں کو جلاوطنی سے واپس لانے میں کامیاب ہو گئے اور 1985ء میں علی ناصر محمد کو وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا۔
خانہ جنگی
دیوار پر لکھی تحریر کو دیکھ کر علی ناصر نے 13 جنوری 1986ء کو قبل از وقت بغاوت کی کوشش کی، جس کے دوران ان کے محافظوں نے پولیٹیکل بیورو کے اکثریتی ارکان کو قتل کر دیا۔ یہ سب سے پرتشدد باہمی کشمکش کا باعث بنا، جس میں اگلے ہفتوں میں تقریباً 5 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ عدن اور اس کے آس پاس کے کچھ علاقوں کی تباہی اور علی ناصر اور ان کے تقریباً 60 ہزار حامیوں، بشمول اہم فوجی یونٹس کو جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان واقعات کے فاتح ’YSP‘ کے رمپ تھے، لیکن پارٹی اب ایک کمزور قیادت تھی اور گہری غیر مقبولیت کا شکار تھی۔ بڑے پیمانے پر آبادی نے اس کشمکش کو دیکھا کہ یہ کیا تھا، یعنی عوام اور ان کی فلاح و بہبود کی قیمت پر اور بغیر کسی بامعنی پالیسی کے اختلاف کی بنیاد کے یہ محض عہدوں کی لڑائی تھی۔
اس وقت ’PDRY‘ پراپنی کتاب شائع کرنے کے بعد مجھے عربی ایڈیشن کے لیے ان واقعات پر اپ ڈیٹ تیار کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور میں نے ایک مہینہ دونوں اطراف کے رہنماؤں سے ان کے اختلافات کے بارے میں انٹرویو کرنے میں گزارے۔ یہ انٹرویوز خارجہ پالیسی کے مسائل، معیشت میں کوآپریٹوز کے کردار، سماجی پالیسیوں میں اختلافات پر مرکوز تھے۔ صفحات پر مشتمل نوٹس جمع کرنے کے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئی کہ ہزاروں جانوں کا ضیاع قیادت کے عہدوں کے لیے اقتدار کی جدوجہد سے زیادہ نہیں تھا۔
’NLF/YSP‘ کے اندر اندرونی دھڑے بندی کا یہ مختصر جائزہ غیرمعمولی سطح کے عدم استحکام اور اس کی قیادت کی سیاسی اختلاف رائے کو جمہوری اور تعمیری انداز میں حل کرنے کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی مارکسسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں کے اندر تنازعات نے ’PDRY‘ کی باہمی کشمکش میں حصہ لیا۔ اس کی اپنی اندرونی دھڑے بندی اور بعض اوقات نظریاتی اختلافات اگر زیادہ متعلقہ نہ ہوتے تو یکساں تھے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب کچھ ایسے ماحول میں ہو رہا تھا،جہاں ریاست مخالف پڑوسیوں کی طرف سے مسلسل حملوں کی زد میں تھی۔ ’PDRY‘ اور ’YAR‘ کے درمیان 1972ء اور 1979ء میں دو کھلی جنگیں بھی ہوئیں، جس میں تیل سے مالامال جزیرہ نما عرب ریاستیں اور مغرب دونوں کی حکومت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کیلئے منظم مداخلت شامل تھی۔ دوسری طرف حکومت نے انتہائی محدود قدرتی وسائل اور انتہائی محدود مالیات کے ساتھ کام کرنے کے باوجود سماجی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے اپنے شہریوں کی زندگیوں میں کچھ بڑی بہتری لائی تھی۔
کامیابیاں
جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ’PDRY‘ میں سیاست میں براۂ راست شمولیت کسی کی ذاتی لمبی عمر کے لیے سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس ریاست کے شہریوں نے محض اپنی ذاتی زندگیوں اور سماجی اور اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کی اور انہوں نے ان حالات زندگی کو حاصل کیا، جن کا زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔ ایک بنیادی تنخواہ نے ایک گھرانے کو مناسب معیار پر رہنے، بچوں کو تعلیم فراہم کرنے اور اچھی طبی خدمات سے مستفید ہونے کے قابل بنایا۔
اس وقت ’PDRY‘ میں رہنے والے لوگ اکثر اس کی تعریف نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ اپنے حالات زندگی کا موازنہ تیل کی دولت سے مالا مال پڑوسی ریاستوں سے کرتے تھے۔ 1973ء کے بعد وہ ریاستیں اپنے شہریوں کو انتہائی مہنگی اور اعلیٰ معیار کی سماجی خدمات تک مفت رسائی فراہم کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ سب ان کی سیاسی تعمیل، رہنماؤں کی مطلق العنانیت اور فحش دولت کی قبولیت کی قیمت پر انہیں میسر آیا۔
انگریزوں نے ’PDRY‘ کو خاص طور پر مشکل معاشی میراث کے ساتھ چھوڑا۔ ملک کے دو اہم وسائل عدن کی بندرگاہ اور برطانوی اڈہ اور انتظامیہ تھے۔ مؤخر الذکر واضح طور پر برطانوی روانگی کے ساتھ بند ہو گیا، جبکہ عدن کی بندرگاہ نے جون 1967ء کی جنگ کے بعد نہر سویز کی بندش کے ساتھ مؤثر طریقے سے کام کرنا بند کردیا۔ برطانیہ نے روانگی سے قبل اپنے مذاکرات میں 12 ملین پاؤنڈ کے ایک چھوٹے امدادی پیکیج کا وعدہ کیا تھا لیکن اس عزم کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔
اندرونی معیشت فنکارانہ ماہی گیری اور بنیادی زراعت سے کچھ زیادہ پر مشتمل تھی۔ صرف برطانوی ڈیزائن کردہ اور برطانوی مالی اعانت سے ابیان اور توبان آبپاشی کی اسکیموں نے نقد فصلیں پیدا کیں، خاص طور پر برآمد کے لیے کپاس اور عدن بندرگاہ سے گزرنے والے بحری جہازوں کے لیے سبزیاں۔ ساحلی حدراموت میں تمباکو کی کاشت بھی ہوتی تھی۔ مزید برآں آزادی کے چند مہینوں کے اندر ملک نے اپنے سرمایہ دار تاجر اور صنعتی طبقے کو کھو دیا، جو انگریزوں کے ساتھ ہی ملک چھوڑ گئے یا اپنے اثاثوں کی مجوزہ نیشنلائزیشن کے خوف میں مبتلا تھے۔
غیر ملکی امداد
اس کے سوشلسٹ رجحان کو دیکھتے ہوئے نئی ریاست کو اس کے امیر خلیجی پڑوسیوں سے دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1980ء کی دہائی میں صرف کویت نے امداد فراہم کی۔ مغربی حکومتیں سرد جنگ میں سوویت یونین کے ساتھ منسلک ریاست کی حمایت کے لیے تیار نہ تھیں۔ اپنی طرف سے سوویت یونین نے حکومت کو ملنے والی کل امداد کا تقریباً ایک تہائی حصہ فراہم کیا۔ اگرچہ یہ اہم تھا لیکن یہ ملک کی چھوٹی آبادی اور بڑی ضروریات کے پیش نظر ’NLF/YSP‘ انتظامیہ کی امید سے کم تھا۔
سوویت یونین کی جانب سے مزید مدد فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ تھی کہ ’PDRY‘ مکمل طور پر سوویت طرز کے نظام کی بجائے صرف ”سوشلسٹ اورئینٹڈ“ تھی۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ماسکو کی تیسری دنیا کے اتحادیوں کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ اپنی مدد کے ذرائع کو متنوع بنائیں اور مزید ہارڈ کرنسی کمائیں۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں (IFIs) بشمول ورلڈ بینک اور کچھ عرب فنڈز نے بھی مشرقی یورپی امداد کے کردار کو متوازن کرتے ہوئے معمولی مدد فراہم کی۔ چین کی امداد بنیادی ڈھانچے اور صنعت میں نمایاں تھی، خاص طور پر منصورہ اسپننگ اور ویونگ فیکٹری، جس میں سینکڑوں خواتین کام کرتی تھیں۔ ان دنوں چینی ریاست آج کی صورتحال کے برعکس تجارتی منافع کی بجائے سوشلسٹ یکجہتی کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے لیے اپنی حمایت کا جواز پیش کرتی تھی۔
’PDRY‘ کو کیوبا کی حمایت طبی خدمات کے شعبے پر مرکوز تھی۔ ہوانا کی امداد نے عدن کا میڈیکل اسکول قائم کیا، جس نے 1980ء کی دہائی میں ملک کو قومی اور مقامی طور پر تربیت یافتہ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی اچھی فراہمی کے قابل بنایا۔
اقتصادی پالیسی کا ارتقا
’NLF/YSP‘ کی طرف سے نافذ کردہ معاشی پالیسیاں سوشلسٹ دائرے کے نمونوں میں اچھی طرح فٹ بیٹھتی ہیں۔ ’PDRY‘ کے وجود کی دو دہائیوں میں ان کا ارتقا بین الاقوامی سوشلسٹ حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ اندرونی یمنی مشکلات اور تصورات میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے ریاست کی قیادت کے اندر سیاسی جدوجہد کو بھی متوازی کیا۔
1969ء کی تبدیلی کے بعد ’NLF‘ نے چھوٹے، بڑے، پیداواری اور تجارتی کاروباری اداروں کی بھاری اکثریت کو نیشنلائز کرتے ہوئے اپنی انتہائی ریڈیکل اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کیا۔ صرف ’PDRY‘ کی تمام کمپنیوں میں سب سے بڑی عدن ریفائنری اس وقت تک برٹش پیٹرولیم کے کنٹرول میں رہی جب تک کہ اسے مکمل طور پر گرا کر 1977ء میں حکومت کے حوالے نہیں کر دیا گیا۔
محدود قدرتی وسائل نے ریاست کی معاشی ترقی کو روک دیا۔ یہ 1990ء میں اتحاد کے فوراً بعد تھا کہ اہم تیل کے وسائل دریافت ہوئے، اگرچہ اب بھی معمولی تھے۔ ’YSP‘ حکومت نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے تیل کی برآمدات سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔
معاشی پالیسیاں بتدریج ریاستی شعبے کی ترقی پر ابتدائی زور سے کوآپریٹو اور جوائنٹ پرائیویٹ پبلک انٹرپرائزز کے لیے زیادہ کردار کی طرف منتقل ہو گئیں۔ حکومت نے بالآخر یمنی تارکین وطن اور دیگر افراد سے اہم سرمایہ کاری حاصل کرنے کی امید میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی۔ 1980ء کی دہائی کے آخر تک ملک میں بہت سی صنعتیں تھیں، جن میں زیادہ تر عدن اور حدراموت میں المکلا کے آس پاس تھی، جو ضروری اشیا، پلاسٹک، بیٹریاں، سگریٹ اور ماچس، ٹماٹر کا پیسٹ، دودھ کی مصنوعات، اور مچھلی کے ڈبے وغیرہ تیار کرتی تھیں۔
پورے صنعتی شعبے میں ریاست کے فلاحی مزدور قوانین کا وسیع پیمانے پر اطلاق کیا گیا۔ ایسے قوانین تھے، جو خواتین کے کام کو ان کی حفاظت اور رات کی شفٹوں یا خطرناک پیشوں سے بچنے کے لیے منظم کرتے تھے۔ قوانین نے تنخواہیں بھی عائد کیں جس سے کارکنوں کو مناسب معیار زندگی برقرار رکھنے کے قابل بنایا گیا۔ ٹریڈ یونینوں نے مذاکرات کرنے والی تنظیم سے زیادہ ریاستی تنظیم کا کردار ادا کیا۔
دیہی ترقی
دیہی علاقوں کی بہت سے منتشر اور دور دراز بستیوں میں آبادی کی اکثریت رہتی تھی۔ یہ دیہی علاقے 1970ء کی زرعی اصلاحات کے قانون کا مرکز تھے۔ سب سے بنیادی خصوصیت اس کے نفاذ کا طریقہ کار تھا۔ بڑے زمینداروں سے لے کر چھوٹے کسانوں اور کرایہ دار کسانوں کو زمین مختص کرنے کے بجائے، ’NLF‘ نے کرایہ داروں اور حصہ داروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ زبردستی زمینیں خود لے لیں اور زمینداروں کو نکال دیں۔
یمن میں ایک قسم کا منسوب یا وراثتی سماجی ڈھانچہ ہے، جو ہندوستان میں ذات پات کے نظام سے کچھ مماثلت رکھتا ہے۔ سادا اس درجہ بندی میں سب سے اوپر کھڑے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو پیغمبر کی اولاد کہتے ہیں اور دوسری جگہوں پر ہاشمی یا اشرف کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے نیچے پورے ملک میں قبائلیوں کی اکثریت ہے اور کچھ پست درجے کے گروہ ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو زمین کاشت کرتے ہیں لیکن انہیں اس کی ملکیت کی ”اجازت“ نہیں ہے۔ ان گروہوں کہ حدراماوت کے علاقے میں فلاحین (ایک اصطلاح جیسے عرب ملکوں میں کاشتکاروں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
چینی ثقافتی انقلاب کے بارے میں یمنی تصورات نے ان انقلابی ”مقبول بغاوتوں“ کو متاثر کیا۔ اس تجربے کا مقصد حصص کاشت کرنے والوں اور کرایہ داروں کو نفسیاتی طور پر آزاد کرنا تھا، جنہوں نے کئی دہائیوں، یہاں تک کہ سادا کے اعلیٰ سماجی طبقے میں پیدا ہونے والے زمینداروں سے صدیوں کے آمرانہ تسلط کا سامنا کیا تھا، جو خود کو کم درجے کی کاشت کرنے والے گروپ سے برتر سمجھتے تھے۔ ’PDRY‘ کے لیڈروں کا ارادہ تھا کہ اس طرح ایک زیادہ مساوی معاشرہ تشکیل دیا جائے۔
”جاگیردار“ زمینداروں کی بے دخلی تلخی اور انتقام کی خواہش کا باعث بنی۔ زیادہ تر نے سعودی عرب اور ’YAR‘ کی طرف ہجرت کی۔ وہ 1990ء میں اتحاد کے بعد واپس آنے کے لیے، ’PDRY‘ کے لیڈروں سے بدلہ لینے کے لیے واپس آنے والے تھے، جنہوں نے انہیں ان کے مراعات اور جائیدادوں سے محروم کر دیا تھا۔
ریاست نے تین قسم کے کوآپریٹیو بنائے، جن کا مقصد وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی مکمل اجتماعیت کی طرف پیشرفت کرنا تھا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اوروہ آہستہ آہستہ ایک معیاری ماڈل پر سروس اور مارکیٹنگ کے ادارے بن گئے، جیسا کہ علی ناصر محمد کاعملی نقطہ نظر 1980ء کی دہائی میں غالب رہا۔
دوسری جگہوں پر ’PDRY‘ نے مشرقی یورپی ماڈل کے بعد ملک کے سابقہ حکمرانوں کی بڑی زمینوں اور نئی دوبارہ حاصل کی گئی زمینوں پر ریاستی فارمز قائم کیے۔ ان فارموں پر کام کرنے والوں کو آمدنی کے حصص کی بجائے تنخواہیں دی جاتی تھیں اور کاشت کاری کے عمل کو بنیادی طور پر میکانائز کیا جاتا تھا۔ حکومت نے چھوٹے پیمانے پر کاریگر ماہی گیروں کو کوآپریٹیو میں بھی گروپ کیا، جس میں مارکیٹنگ کو اجتماعی بنایا گیا اور اس کے بجائے غیر موثر طریقے سے چلایا گیا۔
بیلنس شیٹ
’PDRY‘ کی معاشی حکمت عملیوں کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات اور تاثرات سے قطع نظر درج ذیل نکات اہم ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ کہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آبادی کی اکثریت نے اپنی اور اپنے جوہری خاندانوں کو برقرار رکھنے کے لیے کافی آمدنی حاصل کی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی، جس نے مشکل معروضی معاشی حالات کا سامنا کیا۔
دوسرایہ کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقتصادی پیداوار کو قومیانے کے عمل سے کچھ حد تک نقصان پہنچا، خاص طور پر زراعت اور ماہی گیری میں۔ کم بیوروکریٹک نقطہ نظر، چھوٹے ہولڈرز کے لیے زیادہ اقدامات کی اجازت دیتا ہے اور دنیا بھر میں کوآپریٹیو کی طرف سے پیش کردہ خدمات کی فراہمی، بہتر پیداوار اور تقسیم کو یقینی بناتا۔
ایک اور عنصر بہت اہم ہے، خاص طور پر ’YAR‘ اور اس سے آگے کی صورتحال کے مقابلے میں ’PDRY‘ میں بدعنوانی موجود نہیں تھی۔ حکومت نے کرپشن کے کسی بھی معاملے میں سخت سزائیں عائد کیں۔ شہری رشوت دیے بغیر وہ خدمات حاصل کرنے کی توقع کر سکتے تھے جن کے وہ حقدار تھے اور عام لوگوں اور قیادت کے درمیان معیار زندگی میں فرق بہت کم تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’NLF/YSP‘ کی سب سے بڑی کامیابی اس کی سماجی پالیسیاں تھیں۔ حکومت کو درپیش بے پناہ بیرونی اور داخلی مشکلات کے باوجود، اس نے اپنی آبادی کو سماجی خدمات کا معیار اور مقدار فراہم کی،جو متاثر کن اور درحقیقت اس کی مالی صلاحیت سے بہت زیادہ تھیں۔ ایک نئی نسل اب ماضی کی ان حاصلات کو یاد کرتی ہے۔
تعلیم، صحت، رہائش
تعلیم پر بھرپور توجہ دی گئی۔ ریاست نے 8 سال کی لازمی تعلیم کے ساتھ پورے ملک میں اسکول بنائے اور ان میں عملہ رکھا۔ عدن یونیورسٹی 1975ء میں کھولی گئی اور جلد ہی اس کی شاخیں بیشتر گورنریٹس کے دارالحکومتوں میں قائم ہوئیں، تمام مضامین میں اساتذہ کی تربیت کے لیے تعلیمی کالجوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔
مصر کی جانب سے 1978ء میں اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ’PDRY‘ نے سیاسی جلا وطنوں کے علاوہ مصری اساتذہ کو نکال دیا۔ سیکنڈری اسکول کے فارغ التحصیل افراد نے ان کی جگہ لے لی، جنہیں ملک بھر کے اسکولوں میں دو سالہ قومی خدمات پر بھیجا گیا۔ 1980ء کی دہائی کے آخر تک کسی کو غیر ملکی اساتذہ صرف اعلیٰ تعلیمی سطح پر ہی مل سکتے تھے اور نوجوان مردوخواتین کی اکثریت تعلیم سے وابستہ تھی۔
اس کا ملک کے مستقبل پر خاصا اثر پڑا ہے۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل تک ملک بھر میں پیشہ ورانہ اور انتظامی عہدوں پر پائی جانے والی خواتین کی اکثریت ’PDRY‘ میں تعلیم یافتہ تھی۔ 60 فیصد ناخواندگی کی شرح سے شروع کرتے ہوئے حکومت نے خواندگی کی مہموں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس کا اختتام 1980ء میں ہوا، جب نوجوانوں کو گھر پر ان کے خاندانوں کے باقی ناخواندہ افراد کو بنیادی تعلیم دینے کی ذمہ داری سونپی گئی، جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
صحت کے شعبے کو انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سٹڈیز اور بعد میں عدن یونیورسٹی میڈیکل سکول کے قیام سے کافی فائدہ ہوا، جس نے 1980ء کی دہائی کے وسط میں مقامی ڈاکٹروں کی تیاری شروع کی۔ پورے ملک میں صحت کی پوسٹیں، چھوٹے طبی مراکز، کلینک اور ہسپتال بنائے گئے اور عملہ رکھا گیا، جن میں چھوٹے طبقے کے معاونین یا نرسیں تھیں۔ ادویات اور خدمات مفت تھیں اور بہت سے دوسرے ممالک کی نسبت اعلیٰ معیار کی تھیں۔
1972ء کے ہاؤسنگ قانون نے اس بات کو یقینی بنایا کہ قصبوں میں مالک قبضہ کرنے والوں کے پاس صرف وہی جائیدادیں ہیں جن میں وہ رہتے تھے۔ حکومت نے دیگر گھروں کو نیشنلائز کرلیا اور نئی تعمیرات کے ساتھ رہائشیوں کو یہ گھر بھی کرائے پر دے دیئے گئے۔ دیہی علاقوں میں لوگ اپنے گھروں میں رہتے تھے۔
خواتین کے حقوق اور قبائلیت کے خلاف جدوجہد
’PDRY‘ کی ایک اہم تبدیلی کی سماجی پالیسی 1974ء کا عائلی قانون تھا۔ تیونس اور عراق میں رائج قوانین سے مماثل قوانین کے تحت حکومت نے خواتین کو عرب مسلم دنیا میں کہیں سے بھی زیادہ حقوق دیے۔ اگرچہ دوسری بیویاں رکھنامکمل طور پر ممنوع نہیں تھا، لیکن جن حالات میں یہ ہو سکتا تھا وہ بہت محدود تھیں۔
قانون نے عورتوں اور مردوں کو گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی دیکھ بھال میں یکساں ذمہ داری دی۔ اس نے عورتوں کو طلاق مانگنے کے مساوی حقوق بھی دیے۔ اگرچہ قانون سازی دیرینہ عادات کو تبدیل کرنے کے لیے کافی نہیں تھی، لیکن عائلی قانون نے خواتین کو بااختیار بنایا، جیسا کہ تعلیم اور ملازمت میں ان کی شمولیت کی بڑھتی ہوئی سطح کو بھی یقینی بنایا۔ خواتین کو اگر بدسلوکی یا جبری شادیوں کا سامنا کرنا پڑتا، یا طلاق حاصل کرنا ہوتی تو وہ خواتین کی یونین سے مدد کے لیے کال کر سکتی تھیں۔
اگر خواتین نے اس پالیسی کو سراہا تو ’PDRY‘ کے دشمنوں نے خاص طور پر اس سے نفرت کی۔ انہوں نے اس پر الحاد اور اسلام مخالف ہونے کا الزام لگایا۔ اتحاد کے بعد قدامت پسند ’YAR‘ خاندانی قانون نے تیزی سے اسے ختم کر دیا۔ آج یہ ’PDRY‘ کی خصوصیات میں سے ایک ہے، جسے بہت سے نوجوان اور خواتین دوبارہ زندہ دیکھنا چاہیں گے۔
ایک اور اہم سماجی پالیسی کے تحت نسلی اور خاندانی اصل کی بنیاد پر وفاداری کو کم کرنے کی کوشش کی گئی، جسے عام طور پر قبائلیت کہا جاتا ہے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر ایک عالمگیر مفاہمت اور تمام قبائلی تنازعات اور جھگڑوں کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس نے اسے مضبوطی سے نافذ کیا، کبھی کبھار قبائلی تنازعات کو روکنے کے لیے مسلح افواج بھی بھیجی گئیں۔
پالیسی کی ایک خصوصیت خاندانی یا قبائلی ناموں کے استعمال کو ختم کرنا تھی، تاکہ لوگ اپنے پہلے ناموں اور اپنے باپ اور دادا کے ناموں سے جانے جائیں۔ دوسری اہم خصوصیت اگورنریٹس کے نام کی بجائے نمبر دینا تھا۔ ریاست نے 1980ء کی دہائی کے وسط میں اس طرز عمل کو تبدیل کر دیا، لیکن گورنریٹس کو جغرافیائی یا تاریخی نام دیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی سرحدیں قبائلی وفاداریوں کے ساتھ موافق نہ ہوں۔ آج یہ میراث یمن میں سیاسی مسائل اور وفاداریوں پر بحث کرتے وقت غلط فہمی اور الجھن کا باعث بنتی ہے۔
اسباق اور وراثت
’PDRY‘ کی مدت کے دوران ’NLR/YSP‘ کی طرف سے نافذ کردہ پالیسیوں کا یہ مختصر تجزیہ کچھ مسائل کا خاکہ پیش کرتا ہے، جن کا اسے سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ختم ہونے کے 30 سال سے زیادہ بعد ”جنوبی مسئلہ“ کے طور پر مشہور یمن میں ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ موجودہ جنوبی علیحدگی پسند تحریک نے ’PDRY‘ پرچم کو اپنا لیا ہے۔ تاہم یہ سوشلسٹ رجحان رکھنے کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا اور اس علاقے کی آبادی کی اکثریت اتنی کم عمر ہے کہ وہ ’PDRY‘ کو بچوں کے طور پر بھی نہیں جانتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حکومت کی نوعیت اور حقیقی طرز عمل سے ناواقفیت اس کے ریکارڈ کے لوگوں کے تصورات کو رنگ دیتی ہے۔ 1990ء میں جمہوریہ یمن کے قیام کے بعد نظام تعلیم نے منظم طریقے سے سوشلسٹ دور کے بارے میں معلومات اور تجزیہ کو دبا دیا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس کی کامیابیوں اور اس کی ناکامیوں کو اس کے حامیوں اور مخالفین کی خرافات اور (کم و بیش مسخ شدہ) یادوں پر چھوڑ دیا جائے۔
ہم ’PDRY‘ کے تجربے سے کچھ اسباق حاصل کر سکتے ہیں، جو یمن، وسیع عرب دنیا اور دیگر جگہوں پر زیادہ مساوات پر مبنی معاشروں کی تلاش میں نوجوان نسلوں کی مدد کریں۔ سب سے پہلے آبادی کی اکثریت کے لیے سماجی انصاف اور گڈ گورننس کے لیے پرعزم تحریک کے اندر پالیسی اختلافات کو جمہوری طریقے سے اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ ’PDPRY‘ کی قاتلانہ باہمی کشمکش نے اسے اپنے بہت سے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے سامنے کمزور کر دیا۔ اس نے بہت زیادہ حمایت کھو دی، جو اسے کچھ سماجی گروہوں سے حاصل ہو سکتی تھی، جو جلا وطنی اور فعال مخالفت میں ختم ہو گئے۔
’PDRY‘ کے اندر بہت سی حریف پالیسیاں اور کشمکش دنیا بھر کے مختلف سوشلسٹ تجربات سے درآمد شدہ تصورات پر منحصر تھی۔ جن ریاستوں سے یہ رجحانات متاثر ہوئے، ان کے پاس ایسی ثقافتیں یا تاریخیں نہیں تھیں، جو ’PDRY‘ کے سماجی، معاشی اور ثقافتی ڈھانچے سے ملتے جلتے ہوں۔ ان کے طریقہ کار اور حکمرانی کے طریقہ کار کو ماڈل کے طور پر استعمال کرنا ایک غلطی تھی اور ان ماڈلز کا اطلاق بڑی حد تک ناکام ثابت ہوا۔ جیسا کہ ریاستی فارموں، چھوٹے کاروباری اداروں کی نیشنلائزیشن، یا ماضی کے سماجی ڈھانچے کی جاگیردارانہ ڈھانچے کے طور پر وضاحت۔
اگر ’PDRY‘ نے مارکسی تجزیاتی اصولوں پر مبنی ایک زیادہ نفیس طریقہ استعمال کیا ہوتا، تو یہ ’YSP‘ کو اپنی کچھ انتظامی غلطیوں سے بچنے کے قابل بناتا اور ریاست کے انتہائی مشکل حالات اور محدود قدرتی وسائل کی عطا کے باوجود زیادہ معاشی کامیابی حاصل کرتا۔ کیا لیڈروں میں ایسا کرنے کی خود اعتمادی نہیں تھی؟ کیا وہ سوویت اور مشرقی یورپی رہنماؤں کے دباؤ میں تھے؟ کیا وہ حقیقی طور پر یقین رکھتے تھے کہ یمن کا سماجی ڈھانچہ اس جاگیرداری سے مماثلت رکھتا تھا جو پہلے صدیوں میں یورپ میں پایا جا سکتا تھا؟
1968-69ء اور 1978ء کی جدوجہد کی ایک واضح نظریاتی بنیاد تھی اور ’PDRY‘ کے شہریوں کے لیے مساوی ترقی لانے کے لیے درکار پالیسیوں کے بہت مختلف تصورات کی نمائندگی کرتی تھی۔ تاہم 1986ء میں ایسا نہیں تھا۔
علی ناصر نے کوئی الگ، قابل شناخت نظریاتی پوزیشن کا اظہار نہیں کیا تھا اور اسے عام طور پر ایک ”عملیت پسند“ کے طور پر بیان کیا گیا تھا، جو نہ تو یو ایس ایس آر کے ساتھ منسلک تھا اور نہ ہی زیادہ مقبولیت پسند یا ”ماؤسٹ“ ویژن کے ساتھ تھا۔ ان کا بنیادی مقصد اقتدار کو برقرار رکھنا تھا۔ 1986ء کی جدوجہد نے ’PDRY‘ کو مکمل طور پر بے ترتیبی میں ڈال دیا، جس میں ہم آہنگی اور مضبوط قیادت کا فقدان تھا، جس باعث عوام کے درمیان بھی غیر مقبول ہو گئی تھی۔
یمن کا ماضی اور مستقبل
آج نوجوان لوگ اپنے والدین اور یہاں تک کہ دادا دادی کی (ناقابل اعتماد اور متعصب) یادوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ لوگ اب ’PDRY‘ کو یا تو بہت مثبت یا انتہائی منفی انداز میں سمجھتے ہیں، یہ ان کے پیشگی تصورات پر منحصر ہے۔ اس دور کی سیاست پر زیادہ بحث نہیں ہوتی، حالانکہ جنوبی علیحدگی پسند تحریک کے متعدد باہمی دشمن دھڑوں میں سے کچھ ’PDRY‘ رجحانات کی براہ راست اولاد ہیں۔ درحقیقت کچھ میں وہی لوگ شامل ہیں جو پہلے کے کچھ تنازعات میں مصروف تھے، خاص طور پر 1986ء کے تنازعات میں۔
یقینی طور پر جنوبی علیحدگی پسندی کے موجودہ حامیوں میں سے کچھ اس سطح پر سماجی خدمات کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں جو ’PDRY‘ نے فراہم کی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ متحد ہونے کے بعد فراہمی کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری نجی شعبے کے طریقوں سے تبدیل ہو جائیں۔ بدعنوانی کے بغیر اور مکمل روزگار کے ساتھ مفت طبی اور تعلیم کی خدمات فراہم کرنے والی ریاست کی بحالی یقینی طور پر یمنیوں کے درمیان ایک وسیع تر خواہش ہے، چاہے وہ سابق ’PDRY‘ کے علاقے میں رہتے ہوں یا ملک کے دیگر حصوں میں رہائش پذیر ہوں۔
تاہم ایک ایسے دور میں ان خوابوں کے پورا ہونے کا امکان نہیں ہے، جہاں نیو لبرل ازم کا غلبہ ہے، سیاسی اور مالی دونوں طرح کی بدعنوانی پوری کرۂ ارض میں اس قدر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اگر یمنیوں کو جبری ماحولیاتی مہاجر نہیں بننا ہے تو سماجی انصاف اور مساوات کے متلاشی افراد کو مزید ماحولیاتی بگاڑ کے خلاف اور خاص طور پر پانی کے بہتر انتظام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
جنوبی یمن کے علیحدگی پسند رہنماؤں کی موجودہ نسل نے ان فوری مسائل میں سے کسی کے لیے کوئی تشویش ظاہر نہیں کی ہے۔ نہ ہی انہوں نے ایک ایسی پالیسی تیار کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، جو اس کی آبادی کو مساوات اور انصاف کے ساتھ رہنے کے قابل بنائے۔ ایک ایسی جمہوریت میں جو سب کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق فراہم کرے۔
(ہیلن لاکنر ’یمن ان کرائسس: دی روڈ ٹو وار‘ (2019ء) اور ’یمن: غربت اور تنازعہ‘ (2022ء) کی مصنفہ ہیں۔ انہوں نے دیہی ترقی میں کام کیا اور 15 سال تک یمن کی تین ریاستوں میں مقیم رہی ہیں؛ بشکریہ:جیکوبن، ترجمہ: حارث قدیر)