خبریں/تبصرے

’تارکین وطن کے قاتلوں کو سزا دی جائے‘: یونان میں ہزاروں افراد سراپا احتجاج

لاہور(جدوجہد رپورٹ) جمعرات کو یونان بھر کے شہروں میں ہزاروں افراد نے یورپی یونین کی مائیگریشن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاجی مظاہرین تارکین وطن کو بچانے کیلئے اقدامات نہ کرنے پر یونانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ مسافروں نے بار بار امداد لینے سے انکار کیا اور اٹلی جانے پر اصرار کر رہے تھے۔

تاہم بحیرہ روم میں مصیبت میں پھنسے تارکین وطن کیلئے ایک ہاٹ لائن نے کہا کہ انہیں اسی ٹائم فریم کے دوران بحری جہاز سے بار بار مشکلات کی کالیں موصول ہوئیں۔

یونان کی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت سائریزا کے رہنما الیکسس سپراس نے کہا کہ ’یہ واقعہ واضح طور پر یورپی یونین کی تارکین کی نقل مکانی کی ایک منظم پالیسی کو فروغ دینے میں ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، جو انسانی زندگی کو اولین ترجیح دیتی ہو۔‘

احتجاجی مظاہروں میں زیادہ تر بائیں بازو کے کارکنان شامل تھے۔ مظاہرین مطالبہ کر رہے تے کہ ’تارکین وطن کے قاتلو ں کو سزا دی جائے۔‘ مظاہرین کے بینروں پر ’تارکین وطن کے قاتل‘ کے الفاظ لکھے گئے تھے۔

’اردو نیوز‘ کے مطابق ایتھنز میں نکالی گئی ایک ریلی میں شامل مظاہرین پولیس کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین ’پوری دنیا پولیس سے نفرت کرتی ہے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل لیبیا سے اٹلی جانے کی کوشش کرنے والا تارکین وطن کا ایک جہاز یونان کے ساحل کے قریب گہرے پانی میں ڈوب گیا تھا۔ مذکورہ جہاز میں سوار104افراد کو زندہ نکال لیا گیا ہے۔ 78افراد کی لاشیں بھی سمندر سے نکال لی گئی ہیں۔ تاہم اطلاعات کے مطابق جہاز میں 750کے قریب تارکین وطن بچو ں سمیت سوار تھے۔ زندہ نکالے جانے والے افراد کے علاوہ لاپتہ افراد کی تلاش کا سلسلہ اب روک دیا گیا ہے اور انہیں مردہ قرار دیا جاچکا ہے۔

یاد رہے کہ اس جہاز میں اطلاعات کے مطابق 300کے لگ بھگ پاکستانی اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے شہری بھی سوار تھے۔ زندہ بچ جانے والوں میں 10پاکستانی اور 2جموں کشمیر کے علاقے کوٹلی کے رہائشی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کوٹلی کے ایک ہی گاؤں کے 21نوجوان اس جہاز میں سوار تھے۔ مجموعی طور پر 100کے لگ بھگ نوجوان پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے اس جہاز میں سوار ہونے کی اطلاع ہے۔ ان نوجوانوں میں سے تاحال 2کے زندہ بچنے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم ابھی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts