خبریں/تبصرے

3 ڈچ بادشاہوں نے افریقہ اور ایشیا سے 545 ملین یورو کی دولت لوٹی

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ہالینڈ کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ 3 ڈچ بادشاہوں نے نوآبادیاتی قبضوں کے ذریعے 545 ملین یورو سے زائد کی دولت لوٹی ہے۔

’گارڈین‘ کے مطابق مورخین نے بادشاہ ولیم سوئم (انگلینڈ، آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کا بادشاہ)، ولیم چہارم اور ولیم پنجم کیلئے نوآبادیاتی منافعوں کی حیران کن قیمت کا حساب لگایا ہے۔ یہ رپورٹ ہالینڈ کی طرف سے غلامی پر وسیع پیمانے پر معافی مانگنے سے قبل ڈچ پارلیمنٹ کی درخواست پر شائع کی گئی ہے۔

یہ تحقیق غلامی اور نوآبادیاتی تجارت کے ڈچ ہاؤس آف اورنج کی مالیاتی قدر کا اندازہ لگانے والی پہلی تحقیق ہے۔ تحقیق کے مطابق ڈچ نوآبادیاتی دور میں کم از کم 6 لاکھ افریقہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا، جبکہ ایشیا کے 6 لاکھ 60 ہزار سے 10 لاکھ کے درمیان لوگوں کو ظلم و جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا استحصال کیا گیا اور ان کی آزادی اور ان کے نام پر ڈاکہ ڈالا گیا۔
یہ ایک میراث ہے، جس کیلئے ولیم الیگزینڈر سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ایمسٹرڈیم کے اوسٹر پارک میں یکم جولائی کو ’زنجیریں توڑنے‘ کے تہوار کے موقع پر ڈچ غلامی کا دور ختم ہونے کے 150 سال بعد ایک رسمی معافی نامہ پیش کرینگے۔

رپورٹ کے مطابق 545 ملین یورو کے مساوی یا اس سے زیادہ رقم وہ تھی جو حکمرانوں کے نام سے ریاست اور فوج کے سربراہوں نے لی۔ 1675ء اور 1770ء کے درمیان ولیم سوئم نے ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنے منافع کے حصے میں 10 لاکھ 94 ہزار 998 گلڈر بنائے، جو آج کے 196 ملین یورو کے برابر ہیں۔

دی ہیگ میں میونسپل آرکائیوز کے ایک محقق ریمنڈ شوٹز نے گزشتہ سال جیراڈ وان ویریڈن برچ کے ایک نجی آرکائیو میں ڈچ اسٹاداؤڈرز کے بارے میں اعداد و شمار دریافت کئے، جو ریجنٹ مقرر کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی میں یہ اہم ترین شخصیت بظاہر ’پوکرکارڈز‘ جیسے رازوں کو ذخیرہ اور دستاویزی شکل دے رہی تھی۔

شوٹز نے کہا کہ ’اسے فخر کرنے کی چیز کے طور پر دیکھا گیا۔ کچھ معاملات میں وہ دکھاوے کیلئے غلام بنائے ہوئے لوگوں کو ہالینڈ لے گئے۔ یہ ایک طرح کی نمایاں سرمایہ کاری اور کھپت تھی، جو یہ ظاہر کرتی تھی کہ آپ اہم ہیں۔ ان دنوں ہر کوئی شرمندہ ہے اور یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس وقت اسے کیسے دیکھا گیا، لیکن اصل چیز پیسہ کمانا تھا۔‘

شوٹز نے کہا کہ یہ ابھی تک نہیں معلوم کہ ہالینڈ کے حکمرانوں نے 1621ء اور یکم جولائی 1863ء کو غلامی کے خاتمے تک غلامی سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ ڈچ بادشاہ نے تین سالہ آزاد مطالعہ شروع کیا ہے۔

گزشتہ سال برطانیہ کے بادشاہ چارلس، جو اس وقت پرنس آف ویلز تھے، نے برطانوی غلاموں کی تجارت کی وجہ سے ہونے والے مصائب کے بارے میں اپنے ذاتی گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ 2021ء میں جرمنی نے نمیبیا میں نوآبادیاتی دور کی نسل کشی کے اعتراف میں 1 ارب یورو کی پیش کی تھی۔ گزشتہ سال دسمبر میں ڈچ وزیراعظم مارک روٹے نے حکومت کے کردار اور نسلوں کو پہنچنے والے ’خوفناک مصائب‘ کیلئے معافی مانگی اور آگاہی کے اقدامات کیلئے 200 ملین یورو کے فنڈ کا اعلان کیا، لیکن کوئی معاوضہ یا نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف دی ڈچ سلیوری پاسٹ اینڈ لیگیسیکے صدر لنڈانوئٹمیر کے مطابق ’2019ء میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ ڈچ جی ڈی پی کا 5 فیصد 1770ء میں غلامی سے آیا ہے۔‘

اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ کی ترقی کے پیچھے افریقہ، ایشیاء، لاطینی امریکہ اور دیگر خطوں میں کی گئی نوآبادیاتی لوٹ مار اور مسلط کی گئی غلامی کے نتیجے میں کی جانے والی لوٹ کا کتنا بڑا کردار ہے۔

ان جرائم میں شامل بادشاہوں اور حکمرانوں کی معافیوں اور آگاہی مہم کے نتیجے میں ان تکالیف اور دکھوں کا مداوا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ان جرائم پر معافی مانگنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف انہی سابقہ نوآبادیوں کے محنت کش تارکین وطن کو یورپ میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے سخت گیر پالیسیاں نافذ کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں یورپی ساحل پر ہلاک ہونے والے سینکڑوں تارکین وطن انہی خطوں سے تھے، جہاں یورپی نوآبادیاتی حکمرانی کے نتیجے میں اتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی گئی ہے۔ تاہم ان سینکڑوں تارکین وطن کو انہی حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب یہ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں کہ یونانی حکام نے جان بوجھ کر ان تارکین وطن کو سمندر میں غرق ہونے دیا۔

آج ضرورت نوآبادیاتی جرائم پر معافی مانگنے سے کہیں زیادہ آگے بڑھ گئی ہے۔ انہی بادشاہوں کی نسلیں آج بھی علامتی بادشاہوں کے طو رپرمختلف ملکوں میں مراعات سے مستفید ہو رہی ہیں۔ شاہ چارلس سے لیکر ڈچ شاہ تک ان جرائم میں ملوث اور حصہ دار رہے ہیں۔ آج بھی اقلیت کے مفادات کا محافظ یہ سرمایہ دارانہ نظام غلامی اور جبر کی ان علامات کو شاہی مراعات سے مستفید کر رہا ہے، جبکہ انہی کی لوٹ مار کا شکار ہونے والوں کی نسلیں بہتر روزگار کی امید لئے سمندروں میں غرق ہو رہی ہیں۔

سابقہ نوآبادیاتی خطوں کے محنت کشوں کے خون پر پلنے والی اس سرمایہ دارانہ مغربی ترقی سے مستفید ہونا ان محنت کشوں کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا ان مغربی سرمایہ دار حکمرانوں کا ہے۔ اس لئے نہ صرف یورپی سرحدیں سابقہ نوآبادیاتی خطوں کے محنت کشوں کیلئے کھولی جائیں، بلکہ انہیں بغیر کسی ویزے کے تیز ترین سفری سہولتوں کا استعمال کرتے ہوئے یورپ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ نوآبادیاتی لوٹ سے حاصل ہونے والی ترقی اور منافعوں سے سابقہ نوآبادیاتی خطوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے روزگار پیدا کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ ان خطوں کے محنت کشوں کو اپنے آبائی علاقوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچایا جا سکے۔

تاہم یہ حکمران ان خطوں کے محنت کشوں کو حق دینا تو درکنار اس لوٹی ہوئی دولت سے یورپی محنت کشوں اور نوجوانوں کو بھی بہتر زندگی دینے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر کے محنت کشوں کو طبقاتی نظام کے اس صدیوں کے جبر کے انتقام کیلئے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts