کرشن چندر
کہتے ہیں وٹامن زندگی کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا انگریز کیلئے ہندوستان۔ پہلے پہل وٹامن صرف دو قسم کا ہوتا تھا۔ وٹامن الف اور وٹامن ب، لیکن اب تو وٹامن نے سارے حروف تہجی اپنا لئے ہیں۔ اگر وٹامن کی تخلیق کو بروقت روکا نہ گیا تو عین ممکن ہے کہ ان کیلئے ایک نئے حروف تہجی کی تشکیل کرنا پڑے۔
دنیا میں مجھے جن چیزوں سے نفرت ہے، ان میں وٹامن بھی شامل ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ ان سب چیزوں میں وٹامن شامل ہیں۔ مثلاً کریلے! کیسے کڑوے، کسیلے ہوتے ہیں۔ شکل دیکھئے کیسی بے ہنگم، میلا سبز رنگ، سڑا ہوا جسم، جس پر ہزاروں بدنما دانے،جیسے کریلے کو کوڑھ یا چیچک ہو گئی ہو۔ ٹماٹر بھی وٹامن کا سالا بنا پھرتا ہے۔ ایسا چار سو بیس اور دھوکے باز پھل آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔ شکل و صورت بھولی بھالی، ایک معصوم بچے کی طرح سرخ و سپید، دور سے بالکل کشمیری سیب یا آلوبخارا معلوم ہوتا ہے، لیکن سونگھئے تو ایسی بدبو آتی ہے، جیسے آدمی سات دن سے نہایا نہ ہو۔ ٹماٹر نہ سیب کی طرح میٹھا، نہ آلو بخارے کی طرح ترش ہوتا ہے، بلکہ اس میں ایک عجیب نمکین بکساسارس ہوتا ہے، جس میں زرد زرد دانے کیڑوں کی طرح کہلاتے پھرتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔ خدا جانے لوگ ٹماٹر کیسے کھاتے ہیں؟
اور پھر کدو میں بھی وٹامن ہوتا ہے۔ کدو کو دیکھ کر میرے ذہن میں ہمیشہ بنئے کے پیٹ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ بڑھا ہوا، پھولا ہوا پیٹ، سود در سود سرمایہ داری، استعماریت، جنگ، یہ تمام کڑیاں،جنہوں نے بنی نو انسان کے گرد ایک فولادی جال بن رکھا ہے، میرے ذہن کے دھندلکوں میں چمکنے لگتی ہیں اور میں ان کی تخلیق کی تمام تر ذمہ داری کدو پر رکھتا ہوں۔ اول تو یہ بنیئے کے پیٹ کی طرح اس قدر بدصورت ہوتا ہے کہ اسے خریدنے کو جی نہیں چاہتا، اور پھر یہ اس قدر طویل و عریض ہوتا ہے کہ نہ سبزی کی ٹوکری میں آسکتا ہے، نہ جھولے میں ڈالا جا سکتا ہے، نہ ہی سائیکل کے آگے لٹکایا جا سکتا ہے۔ اب اس کیلئے ایک چھکڑا لیجئے، اسے تانگے کی سواری کرائیے، لیکن وہاں بھی ہر لحظہ اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اب ان تمام صعوبتوں کے بعد گھر جا کر اس کے ٹکڑے کیجئے تو اندر سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ باہر دیکھنے میں جتنا موٹا ہوتا ہے، اندر سے اتنا ہی خالی ہوتا ہے۔ صرف چند سکڑے ہوئے، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے بیج کناروں پر لگے ہوتے ہیں اور بس۔ کھائیے کدو۔ اور کیجئے تعریف اس خدا کی۔۔۔۔
کدو کا ذائقہ؟۔۔۔ذرا یہ سالن چکھئے۔۔۔نہ نمکین نہ شیریں، بلکہ یوں کہیے کہ شیریں بھی ہے اور نمکین بھی ہے۔ مجھے ایسی اشیاء اور ایسے افراد مطلق پسند نہیں آتے، جویہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ انہیں زندگی میں کیا کرنا ہے۔ وہ شیریں بننا چاہتے ہیں یا فرہاد۔۔۔ میرا مطلب تھا یا نمکین؟ وہ فسطائیت پسند کرتے ہیں یا جمہوریت، آزادی کی تحریک کے حامی ہیں یا اس کے مخالف؟ لیکن بعض افراد عمر بھر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ان کی یہ دورخی، دو رنگی تذبذب کی پالیسی ہمارے تمدن میں سوشل ڈیموکریٹ فلسفہ پیدا کرتی ہے، ہمارے سماج میں سوشل ڈیموکریٹ جماعتیں تعمیر کرتی ہے۔ کدو ترکاریوں میں سوشل ڈیموکریٹ ہے، بلکہ یو ں کہیے کہ ہر سوشل ڈیموکریٹ کدو ہوتا ہے۔ پیٹ بڑھا ہوا، دماغ خالی اور روح رجعت پسند!
بینگن! زبان پر بارخدا یا یہ کس کا نام آیا؟ بینگن کی تعریف میں ہندی شاعروں نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں۔ اس کا سانولا سلونا شام رنگ، اسکی ملاحت، اسکی ملائمت، اس کی موہنی۔سبزی ترکاریوں میں اس کی وہی حیثیت ہے جو چار ذاتوں میں برہمن یا سید کی ہوتی ہے۔
میں بینگن کے خلاف نہیں،اگر کچھ اور کھانے کو نہ ملے تو میں اسے کھا لیتا ہوں، بھوکا نہیں رہتا۔ باغیچے میں بینگنوں کو چھوٹے چھوٹے پودوں سے لٹکے ہوئے دیکھ کر مجھے ہمیشہ خدا کی رحمت کا احساس ہوتا ہے، لیکن معاف کیجئے مجھے اس کا رنگ پسند نہیں ہے۔ بہت کم بینگن سانولے سلونے ہوتے ہیں۔ اکثر جامنی، بلکہ کالے رنگ کے ہوتے ہیں، اور اس کی لمبوتری شکل تو بالکل کسی مدقوق مریض کے چہرے کی طرح، اور ڈنڈے پر اس قدر کانٹے ہوتے ہیں کہ ملائمت کا نام تک نہیں ہوتا۔ شکل تو خیر لمبوتری تھی لیکن ڈنڈی بھی اتنی لمبی ہے کہ دور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے چوہے کو پھانسی پر لٹکا رکھا ہے۔ بیج اس قدر بدذائقہ ہوتے ہیں کہ نہ کھائے جا سکتے ہیں نہ اگلے جا سکتے ہیں، لیکن اس پر بھی یہ دعویٰ ہے کہ میں وٹامن سے بھرپور ہوں۔ کبھی کبھی یہی سوچ کر جی چاہتا ہے کہ وٹامن کہیں اکیلا مل جائے تو اسے کچا ہی چبا ڈالوں، لیکن افسوس یہی ہے کہ وٹامن کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ وہ کسی نہ کسی چیز میں شامل رہتا ہے۔
بھنڈی کو بھی آپ جانتے ہونگے۔ ہر دوسرے تیسرے روز میز پر دھری ہوتی ہے۔ روکھے سوکھے ٹکڑے جیسے کسی بدکا آنت کے قتلے اور اگر بھنڈی سالم پکائی جائے تو اس کی چپچپاہٹ سے متلی ہونے لگتی ہے اور اگر گوشت میں ڈال کر کھائی جائے تو سارے شوربے کو لیس دار بنا دیتی ہے۔ لوگ اسے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں اور حکیم لوگ اکثر بے اولاد مریضوں کو بھنڈی کھانے کی ترغیب دیتے ہیں، تاکہ ہندوستان میں وہ جو چالیس کروڑ چوہے بستے ہیں، ان میں چند اور مریل چوہوں کا اضافہ ہو جائے۔ دراصل بھنڈی کھانے کی نہیں گوند کی طرح چپکانے کی چیز تھی۔ مناسب تو یہی تھا کہ بھنڈی کے لیس سے گوند دانیاں بھری جاتیں اور ہندوستان میں ایک نئی صنعت کا آغاز ہوتا، لیکن لوگ ہیں کہ وٹامن اور کثرتِ اولاد کے شوق میں برابر بھنڈی کھائے جا رہے ہیں، اور نہیں جانتے کہ ہندوستان کی غلامی اور صنعتی پستی کی کیا وجہ ہے؟
جتنی نفرت مجھے ترکاریوں سے ہے، اتنی محبت مجھے پھلوں سے ہے۔ پھلوں میں سیب، انگور، انار، ناشپاتی اور نارنگی بہت پسند ہیں۔ مدتوں میں یہی جان کر پھل کھاتا رہا کہ ان میں وٹامن شامل نہیں، لیکن ایک دن ڈاکٹر نے مجھے یہ منحوس خبر سنائی کہ پھلوں میں بھی وٹامن ہوتا ہے۔ لیجئے وٹامن نہ ہوئے جان کے لوگو ہو گئے۔ رب عظیم کی طرح جہاں جائیے جو کھائیے موجود ہیں۔
اتفاق سے میں اس وقت سیب کھا رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا۔ ’صاحب براہِ کرم یہ بتا دیجئے کہ وٹامن سیب کے کس حصے میں ہوتے ہیں۔ وہ حصہ کاٹ کر پھینک دوں گا۔“
ڈاکٹر صاحب نے نہایت متین لہجہ میں کہا، ”سیب کے چھلکے میں، سیب کو چھیل کر نہیں چھلکوں سمیت کھانا چاہیے۔“
پہلے تو میں یہ سمجھا کہ مذاق کر رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بالکل سچ کہہ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وٹامن کھانے کی چیز ہے، اس کا جزو ضروری ہے، لیکن یہ اکثر ایسی جگہوں پر پایا جاتا ہے، جو کھائی نہ جا سکیں۔ مثلاً وٹامن سیب کے گودے میں نہیں، سیب کے چھلکے میں ہوتا ہے۔ ناشپاتی کے خول میں ہوتا ہے۔ سنگترہ کے ریشوں میں، آم کے روئیں میں، غرض کہ پھل کے اس حصہ میں ہوتا ہے، جو عموماً بد ذائقہ، کرخت اور برا ہوتا ہے۔ وٹامن کی پستی کی دلیل اس سے برھ کر اور کیا ہو سکتی ہے۔
جدید تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ وٹامن نہ صرف پھلوں اور ترکاریوں میں بلکہ غلہ اور دالوں میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن وہاں بھی ایسی ہی جگہ پر ہوتا ہے۔ یہ چاول میں نہیں چاول کے خول میں رہتا ہے، بادام کی بجائے اگر بادام کے چھلکے خرید لئے جائیں تو زیادہ وٹامن حاصل ہوتا ہے۔ وٹامن گیہوں کے مغز میں نہیں، گیہوں کے چھلکے میں پایا جاتا ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر لوگ اصرار کرتے ہیں کہ روٹی پکاتے وقت گیہوں کے آٹے سے بھوسی الگ نہیں کرنا چاہیے، لیکن میں تو اب خوب چھان پھٹک کر گیہوں تیار کراتا ہوں اور پوری احتیاط کرتا ہوں کہ کہیں گیہوں کے ساتھ گھن نہ پس جائے۔۔۔ میرا مطلب ہے وٹامن نہ پس جائے!
چنانچہ اب میں اپنے مہمانوں کی، جو اکثر وٹامن کے عاشق ہوتے ہیں، بڑی آؤ بھگت کرتا ہوں۔ سبزی ترکاری کے علاوہ انہیں پھل بھی کھلاتا ہوں۔ خود سیب کا گودا کھاتا ہوں، انہیں چھلکے کھانے کو دیتا ہوں، خود چاول کھاتا ہوں، ان کیلئے دھان کے خول ابال کر رکھتا ہوں۔ خود میدے کے نرم نرم پراٹھے کھاتا ہوں، ان کیلئے پھوسی کی روٹی میز پر رکھتا ہوں۔
آپ کو بھی وٹامن سے محبت ہوگی! کبھی غریب خانے پر تشریف لائیے۔ انشاء اللہ ایسے ایسے وٹامن کھلاؤں گا کہ طبیعت ہمیشہ کیلئے سیر ہو جائیں گے۔ پتہ ہے۔ 27تلک روڈ۔ پونا نمبر2۔