خبریں/تبصرے

فلپائن حکومت اور کمیونسٹ باغیوں کے مابین مذاکرات کے امکانات غیر یقینی کا شکار

لاہور(جدوجہد رپورٹ) دنیا کی سب سے طویل عرصے سے جاری کمیونسٹ مسلح بغاوت کو ختم کرنے کی کوشش میں رواں ماہ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے کے باوجود فلپائنی فوج اور کمیونسٹ باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق صدر فرڈینینڈمارکوس جونیئر نے نومبر میں باغیوں کے سیاسی ونگ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے ایک معاہدے کا اعلان کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کیا تھا۔ ان کے پیشرو روڈریگوڈوٹرٹے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد امن مذاکرات کو ختم کر دیا تھا۔

ناروے کی حکومت کی طرف سے مہینوں کی خفیہ بات چیت کے بعد اوسلو میں دستخط کئے گئے معاہدے میں دونوں فریقوں نے تنازعہ کے مرکز میں گہری ہوتی ہوئی سماجی، سیاسی اور اقتصادی مشکلات کا تسلیم کیا اور اصلاحات کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا۔
تاہم اس کے بعد سے متضاد بیانات، عوامی جھگڑے اور فوج اور نیو پیپلز آرمی کے درمیان مسلسل مسلح تصادم کی وجہ سے معاہدے کی امیدیں داغدار ہو گئی ہیں۔

بائیں بازو کے گروپوں کا الزام ہے کہ فوجی آپریٹس اور خاص طور پر حکومت کی متنازعہ کمیونسٹ مخالف ٹاسک فورس کے اندر بہت سے لوگ نیو پیپلزآرمی کی قوتوں کا مکمل صفایا کر کے مسلح تصادم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

فلپائن کی کمیونسٹ پارٹی نے گزشتہ سال کے آخر میں کہا گیا کہ اس کی توجہ وسیع اور شدید گوریلا جنگ اور نیوپیپلزآرمی کی قوتوں کی تعمیرنو پر مرکوز رہی ہے۔ قومی سلامی کونسل کے ترجمان جوناتھن ملایا کا کہنا تھا کہ فلپائن کی حکومت اس بیان سے بہت پریشان اور مایوس ہے۔

تاہم فوج نے نیو پیپلزآرمی کے خلاف مسلح کارروائیاں بھی جاری رکھی ہیں۔ جنوبی جزیرے منڈاناؤ پر دسمبر کے فضائی حملے میں 9مبینہ باغی ہلاک ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ فلپائن حکومت اور نیو پیپلزآرمی (این پی اے) 50سال سے زائد عرصہ سے ایک تنازہ میں موجود ہیں، جس میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ تصادم1980کی دہائی میں مارکوس کے والد آمر فرڈینینڈ مارکوس سینئر کے مارشل لاء کے دور میں عروج پر تھا۔

کئی سالوں سے امن کے مذاکرات کے بار بار اعلانات ہوتے رہے لیکن مذاکرات نہیں ہو سکے۔

فلپائن متنازعہ جنوبی بحیرہ چین میں چینی بحری جہازوں کے ساتھ تنازعات کی ایک سریز کی وجہ سے امریکہ کے قریب ہو گیا ہے، جس میں 2016میں بین الاقوامی ٹربیونل کے فیصلے کے باوجود بیجنگ کی طرف سے تقریباً مکمل دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

1980کی دہائی سے فلپائن میں زرعی اراضی کی اصلاحات کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے دیہی کسان بے سہارا اور بے زمین ہو گئے ہیں۔ سپین اور امریکہ کے نوآبادیاتی دور سے گزرنے والی زمین پر اب اولیگارک خاندانوں کا کنٹرول ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف فلپائن کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’یہ اہم ہے کہ مارکوس این ڈی ایف کو دہشت گرد قرار دینے کے پہلے اعلانات منسوخ کر دیں۔ تاہم مارکس کے حکام نے بار بار ان اقدامات کے خلاف مزاحمت کا اظہار کیا ہے۔‘

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ این پی اے کوئی فعال محاذ نہیں ہے۔ 1500سے بھی کم این پی اے باغی باقی ہیں۔ تاہم سی پی پی اور این پی اے کا کہنا ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہے۔

سی پی پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فی الحال کوئی بھی فریق مشترکہ جنگ بندی کا خواہاں نہیں ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts