لاہور(پ ر)پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے گندم سکینڈل میں ملوث تمام بیوروکریٹس، امپورٹرز اور نگران حکومت کے سابق وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستانی تاریخ کے اس بڑے زرعی سکینڈل میں پنجاب کے کسانوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔ ملک بھر میں گندم کی سرکاری خریداری فوری شروع کی جائے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے ان مطالبات کی حمایت کے لئے پاکستان بھر کی کسان تنظیموں کے متحدہ احتجاج کی کال کے لئے 9 مئی کو لاہور میں اجلاس طلب کر لیا گیا، جس میں اس معاملہ کا جائزہ لے کر فوری طور پر متحدہ تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رہنماؤں میاں اشرف، علی کھوسو، طارق محمود، ذولفقار اعوان اور دیگر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ پاکستان میں اب تک اگست 2023 سے مارچ 2024 باہر سے 34 لاکھ ٹن گندم غیر ضروری طور پر امپورٹ کی گئی۔ اس امپورٹ پر 330 ارب روپے ضائع کئے گئے۔ انہوں نے اس بات کا شدید نوٹس لیا کہ امپورٹ ہونے والی گندم میں سے 13 لاکھ ٹن میں کیڑے پڑے ہوئے تھے۔ مضر صحت گندم امپورٹ کرنے والوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔
کسان رہنماؤں نے کہا کہ 6 ملکوں سے یہ گندم 70 جہازوں میں اس وقت امپورٹ کی گئی،جب سب کو معلوم تھا کہ اس سیزن میں پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں گندم پہلے سے زیادہ ایکڑز میں لگائی گئی ہے۔ مجموعی طور پر اس گندم کی امپورٹ پر ایک ارب 10 کروڑ روپے اس وقت خرچ ہوئے جب پاکستان میں فارن ریزروز انتہائی کم رہ گئے تھے۔ ضرورت نہ ہونے کے باوجود گندم اس لئے امپورٹ کی گئی کہ پاکستان میں گندم کا سرکاری ریٹ عالمی ریٹس سے زیادہ تھا۔
کسان رہنماؤں نے کہا کہ گندم سکینڈل کی حقیقی تحقیق کے لئے فوری طور پر ایک کمیشن قائم کیا جائے اور کسان رہنماؤں اور حقیقی نمائندوں کو اس کا ممبر نامزد کیا جائے۔
کسان رہنماؤں نے کہا کہ عبوری حکومت کو کلیدی معاشی فیصلے کرنے کی تجویز موجودہ مسلم لیگی حکومت نے اپنے 16 ماہ کے اقتدار کے دوران دی تھی۔ جس کی ہم نے بھرپور مخالفت کی تھی۔ گندم سکینڈل کے بعد یہ طے کر لینا چاہیے کہ آئندہ کبھی بھی کسی عبوری حکومت کو کلیدی معاشی فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔