صادق حسین
گلگت بلتستان میں 100 کنال پر مشتمل 20 گیسٹ ہاؤس اور 4199 کنال پر محیط سرکاری نرسریز گرین ٹورازم پرائیوٹ کمپنی کو لیز پر دے دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں باضابطہ معاہدہ بھی منظر عام پر آگیا ہے۔
معاہدے کے مطابق شیڈول ون کی لسٹ بی میں شامل جنگلات کی زمین،جہاں کوئی عمارت موجود نہیں،وہ کل 4199 کنال پر مشتمل ہے۔اس دستاویر میں موجود سرکاری تخمینہ کے مطابق اس زمین کی سرکاری مالیت 11 ارب سے زائد بنتی ہے۔ محکمہ جنگلات سے کئے گئے معاہدے کے مطابق جٹیال گلگت میں 512 کنال زمین جہاں کوئی تعمیرات نہیں،زمین کا کرایہ فی کنال 3000 ماہانہ ہوگا۔ ضلع غذر پھنڈر میں 736 کنال زمین، جہاں 267 روپے فی کنال ماہانہ کرایہ ہوگا۔
ضلع غذر گاہکوچ میں 1400 کنال زمین،بلڈنگ کوئی نہیں؛ 667 روپے فی کنال ماہانہ کرایہ، ضلع ہنزہ میں بوریت جھیل کیساتھ 1 کنال زمین 3330 روپے فی کنال ماہانہ کرایہ، ضلع دیامر بونر داس میں 413 کنال زمیں 333 روپے فی کنال ماہانہ کرایہ،ضلع استور کے خوبصورت ترین علاقہ راما میں 192 کنال زمین، کرایہ 663 روپے فی کنال ماہانہ،ضلع سکردو میں ہوتو کے مقام پر 450 کنال ماہانہ کرایہ 1333 روپے فی کنال،ضلع گھانچے میں اولڈنگ کے مقام پر زمین 55 کنال کرایہ 4300 روپے فی کنال ماہانہ کرایہ۔ضلع گھانچے سیلنگ کے۔مقام۔پر 8 کنال زمین، کرایہ 333 روپے فی کنال ماہانہ،ضلع دیامر رونائی کے مقام 432 کنال زمین،کرایہ 333 روپے فی کنال ماہانہ کرایہ شامل ہے۔
گرین ٹورازم کمپنی کس کی ملکیت ہے؟
ایس آئی ایف سی کا قیام جون2023ء میں عمل میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کو ون ونڈو سہولیات فراہم کرنا تھا۔ کونسل کے 5ویں اجلاس منعقدہ4ستمبر2023میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہاسپیٹیلٹی سے متعلق منصوبوں کی نشاندہی کی جائے گی۔ پاکستان کے سابق نگران وفاقی وزیر سیاحت بیرسٹر شاہ جمال کاکا خیل کے مطابق گرین ٹورازم کمپنی کی مالک فوج ہے اور یہ ایس آئی ایف سی کی زیر سرپرستی کام کرے گی۔ یہ کمپنی رواں سال 26جنوری کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں رجسٹرڈ کروائی گئی ہے۔
اس کا حوالہ سابق نگران وزیر شاہ جمال نے ڈان نیوز کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں موجود ہے۔
اس کمپنی کے صدر دفتر‘رومی ہاؤس، اولڈ ایئرپورٹ روڈ راولپنڈی’کے علاوہ اور کوئی تفصیل، ویب سائٹ وغیرہ ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔ تاہم پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے زیر اہتمام پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں چلنے والے 84ریزارٹس اور سیاحتی مقامات لیز پر اس کمپنی کے حوالے کئے جانے کا فیصلہ نگران حکومت میں ہی کر لیا گیا تھا۔
سیاحتی مقامات اور انفراسٹرکچر کو لیز پرلینے کیلئے نشاندہی پہلے ہی کر دی گئی تھی، جبکہ کمپنی بعد میں قائم کی گئی۔
گلگت بلتستان حکومت کیساتھ کئے گئے معاہدے کے اہم نکات
معاہدہ کے مطابق یہ سیاحتی مراکز 30سال کیلئے کمپنی کو لیز پر دیئے جائیں گے، جبکہ 10سال تک لیز میں توسیع بھی کی جا سکے گی۔ تاہم رعایتی مدت 2 سال ہوگی۔
کمپنی ایس آئی ایف سی کے زیر سایہ کام کرتے ہوئے سیاحت کے انفراسٹرکچر کو ترقی دے گی۔ معاہدے کے مطابق اس ادارے کے ذریعے حاصل آمدنی کا 35 فیصد حصہ گلگت بلتستان حکومت کو جائے گا،جو کہ 20فیصد سالانہ زمین اور بلڈنگز کے کرایہ کے علاوہ ہے۔ مزید برآں ایک ٹورازم مینجمنٹ فنڈ بھی قائم کیا جائیگا،جس میں ادارہ کل منافع کا 20 فیصد فنڈ منتقل کرے گا۔ معاہدے کے شق نمبر7.1.1کے مطابق اس فنڈ کے استعمال کیلئے حکومت اور ادارے کے تین تین نمائندوں پر مشتمل ایک جوائنٹ مینجمنٹ بورڈ بنایا گیا۔ تمام معاملات کے فیصلے سادہ اکثریتی ووٹ سے ہونگے۔ ووٹ برابر ہونے کی صورت میں
معاہدے کی شق نمبر 7.1.2 کے مطابق معاملہ دو رکنی کمیٹی چیف سیکرٹری اور جی ایچ کیو کے نمائندہ ممبر کے پاس جائے گااور یہ فیصلہ حتمی ہوگا۔
پارٹیز معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ(انفرادی یا فرم) کا تقرر بطور پراجیکٹ آڈیٹر کریں گی، تاکہ اکاؤنٹس بحال کئے جا سکیں اور سالانہ آڈٹ کروایا جا سکے۔
گرین ٹورازم کو حق حاصل ہوگا کہ وہ پراجیکٹ کو تحویل میں لے، ڈیزان کرے، چلائے اور اس کی ترویج کرے۔
سیاحتی اراضی اور جنگلات کی اراضی کے معاہدے الگ الگ ہوئے ہیں،تاکہ سیاحتی مراکز کی حوالگی میں تاخیر سے بچا جا سکے۔
یہ معاہدہ گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر حکومت کے ساتھ ابھی تک طے پایا جانا ہے۔ تاہم ان زمینوں کو جموں کشمیر میں مروجہ لیزنگ اور ٹورازم رولز/ایکٹ کے تحت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے معاہدہ کرنے کیلئے دوسرے ذرائع استعمال کرنے پر غور کیاجا رہا ہے۔
معاہدہ کے مطابق لیز پر حاصل کی گئی اراضی اور انفراسٹرکچر سے متعلقہ کمپنی کسی بھی نوع کے فیصلہ جات کرنے کی مجاز ہوگی۔ کمپنی کسی بھی نوع کی جی بی حکومت سے معاونت حاصل کر سکے گی۔
حکومت اجازت ناموں، منظوریوں، لائسنس اور این او سی وغیرہ کی صورت میں ہر طرح کا تعاون کرنے کی پابند ہوگی۔ کمپنی کے پاس پراجیکٹ سائٹس کے تمام تر اختیارات ہونگے۔
معاہدے کی شق 12.1.3. کے مطابق پراجیکٹ سائٹ پر موجود جنگلات، پتھر، چٹانوں، مٹی، ریت اور دیگر سازوسامان کی کٹائی اور مفت استعمال کی اجازت ہوگی۔
شق نمبر 12.1.3 کے تحت کمپنی صرف وہ تعمیراتی مٹیریل استعمال میں لا سکے گی جسکی کوئی آثار قدیمہ یا کمرشل اور منرل ویلیو نہ ہو مثلا پتھر، ریت باجری، مٹی وغیرہ جسے اپنے پراجیکٹ سائیٹ کے اندر اخراج اور استعمال میں لاسکتی ہے۔
معاہدے کی شق نمبر 24 کے تحت تمام مقامی قوانین کا اطلاق ہوگا۔ حتی کہ یہ ہوٹلز ڈائریکٹوریٹ آف ٹوارزم سروسز سے رجسٹرڈ ہونگے اور تمام قوانین کے تحت کام کریں گے۔ اس سلسلے میں شق نمبر 10.1.1، 10.1.2، 10.1.7اور 24میں صراحت کے ساتھ گرین ٹوارازم کمپنی کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مقامی قوانین کی پاسداری کریگی۔
اگر خدانخواستہ کمپنی کاروبار میں ناکام ہوکر ڈیفالٹ کرجاتی ہے،تو شق نمبر 16.3 کے مطابق گلگت بلتستان کی حکومت کو تمام نقصانات کا ازالہ کرنے کی پابند ہوگی۔ معاہدے کی شق نمبر 11.1.3 کے مطابق کمپنی تمام انفراسٹرکچر،رابطہ سڑکیں، بجلی، مواصلات کی سہولیات کو اپنے پراجیکٹ کیلئے اپنے خرچ پر مہیا کرنے کی پابند ہوگی۔
معاہدے کے مطابق پاکستان کا The Arbitration Act 1940 ہی یہاں لاگو ہوگا۔ لہٰذا ثالثی کے معاملات معاہدے کے 18.3 کے تحت اسی قانون کے تحت ہونگے۔ یعنی تمام تر قانونی و ثالثی حوالے سے معاہدے کے شق نمبر 18.4 کے تحت مقدمات راولپنڈی اور گلگت دونوں عدالتوں میں ہوسکتے ہیں۔
جی بی حکومت کا دعویٰ
جی بی حکومت کے مطابق معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کے 44 سرکاری خستہ حال گیسٹ ہاوسز کو جدید طرز پر تیار کیا جائے گا۔ معاہدے میں شامل گیسٹ ہاوسز کئی برس سے سرکاری خزانے پر بوجھ تھے،جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا تھا۔
ان گیسٹ ہاوسز کی تزین و آرائش سے علاقے میں سیاحت کے شعبے میں نہ صرف بہتری آئے گی بلکہ روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہونگے۔ اس منصوبے سے سیاحوں کا گلگت بلتستان کی جانب رجحان بڑھے گا۔
گرین ٹورازم کمپنی ابتدائی طور پر 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری کریگی۔ سالانہ منافع کا 20 فیصد گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے استعمال کیاجائیگا،جبکہ سالانہ آمدنی کا 35 فیصد گلگت بلتستان حکومت کو صوبے کی ترقی کے لیے دیاجائے۔
گلگت بلتستان میں 100 کنال پر مشتمل 20 گیسٹ ہاؤس اور 4199 کنال پر محیط سرکاری نرسریز پرائیوٹ کمپنی کو لیز پر دے دیا گیا ہے۔
نقصانات اور اس کا حل
اس عمل کے ذریعے سیاحتی مقامات پر مقامی آبادیوں کی رسائی ختم ہو جائے گی۔ زیادہ تر مقامات ایسے ہیں،جو مقامی آبادیاں چراگاہوں کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کیلئے مال مویشی اور سردیوں کی لکڑیوں کا انحصار انہی مقامات پر ہوتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ان مقامات پر شہریوں کو مویشی پالنے اور زندگی گزارنے میں مشکلات ہوں گی، بلکہ سیاحتی مقامات پرمقامی آبادیاں جو چھوٹے کاروبار کرتی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے پہلے سے موجود بیروزگاری کی بلند شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے شدید ترین ماحولیاتی تبدیلیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایکو سسٹم متاثر ہوگا اور خطے کی زمینی ہیت بھی تبدیل ہو جائے گی۔
اس خطہ میں سیاحت کے فروغ کیلئے مقامی شہریوں کے اشتراک سے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں، جن کی وجہ سے نہ ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مقامی سطح پر بیروزگاری کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
صادق حسین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ وہ صحافی ہیں اور لاہور میں ایک نجی ٹی وی سے منسلک ہیں۔