نقطہ نظر

’’پرانے کمیونسٹوں نے لینن کو سیکولر پیر بنا کر رکھ دیا‘‘

رضا نعیم

ترجمہ: ایف ایس

بشکریہ: دی وائر

28 جنوری کی سرد دوپہر بارش کے دوران میں نے لاہور میں اُس گھر کا رخ کیا جہاں نامور مصنف اور سیاسی کارکن طارق علی اپنے دورہ پاکستان کے دوران، لاہور بینالے 2020ءکے سلسلہ میں، نیشنل کالج آف آرٹس میں اہم خطاب کیلئے قیام پذیر تھے۔ موجودہ واقعات کے بارے میں ان کے نظریات ان کے مذکورہ کلیدی خطاب میں مل سکتے ہیں۔ اس انٹرویو میں طارق علی سے لینن کے بارے میں جو ان کے حالیہ کام کا موضوع ہے، کمیونسٹ تحریک کی کچھ دیگر بنیادی شخصیات، ادب اور ان کی آنے والی کتابوں بارے میں بات چیت کی گئی ہے۔ اس جامع گفتگو کا متن کچھ یوں ہے:

اسی شہر میں آج کی سہ پہر 27 سال قبل آپ اپنے والد جو ایک جفاکش کمیونسٹ، بااصول صحافی اور پُرجوش طاہرہ کے شوہر بھی تھے، مظہر علی خان سے محروم ہو گئے۔ آپ کے پاس اس دن کی یادیں کیا ہیں؟

طارق علی: میں لندن میں تھا۔ والدہ نے مجھے فون پر اطلاع دی۔ قدرتی طور پر میں بہت پریشان ہوا۔ اگلی صبح میں لاہور پہنچا۔ والد کو پہلے ہی دفن کیا جا چکا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تعزیت کے لئے آئی اور پاکستان اور والد صاحب کی زیرِادارت اخباروں کے ابتدائی دنوں کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات کو فوجی حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ یہاں معروف ناموں کا جھرمٹ تھا۔ ہفت روزہ لیل ونہار کی ادارت سبط حسن کرتے تھے۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز کی ادارت فیض احمد فیض کے ذمہ تھی، بعد میں میرے والد نے بھی کی اور روزنامہ امروز چراغ حسن حسرت کی زیرِادارت تھا جسے بعد میں احمد ندیم قاسمی نے سنبھالا۔

جس بات کو یہ مدیران اس وقت کہتے ہوئے شرماتے تھے، لیکن جس پر ہمیں آج فخر ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ لوگ کمیونسٹ تھے یا ان کے ہم خیال۔ انہوں نے پاکستانیوں کی ایک پوری نسل کو آگاہی دی۔ ان اخبارات کا بنیادی ہدف سامراج مخالفت تھی۔ اکتوبر 1958ءمیں جب پہلے مارشل لا کا اعلان کیا گیا تو امریکہ بہت خواہش مند تھا کہ پاکستان ٹائمز بند ہو۔ اس کے خلاف مقدمہ بھی تیار کیا گیا۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا جب وہ مظہر علی خان کو اخبار پرقبضے کے بارے میں بتانے آئے تھے۔ مظہر علی خان نے اپنا نام اخبار سے ہٹانے کا کہا اور استعفیٰ دے دیا۔ ٹائم میگزین نے پاکستان ٹائمز کو ایشیا کا سب سے بہتر ادارت شدہ اخبار قرار دیا تھا۔ یہ قبضہ آزادی صحافت پر ایک شیطانی حملہ اور المیہ تھا۔ ’ڈان‘ اور ’نوائے وقت‘ نے پروگریسو پیپرز کے اخبارات کو سرکاری تحویل میں لینے کی حمایت کی اور گھٹیا اداریے تحریر کئے۔ یہ پاکستانی سیاست میں ایک مخصوص دور کا اختتام تھا۔ دس سال بعد احتجاج کی ایک بہت بڑی لہر نے فوجی آمریت کا تختہ الٹ دیا۔

تب ہی ان یادوں کا سیلاب مجھے بہا کر لے گیا جب اس نسل کے لوگ جنازے میں آئے اور بیتے واقعات دہرائے۔ میرے والد با اصول انسان تھے اور احمقوں سے گریز کرتے تھے۔ مجھے فخر ہے کہ انہوں نے فوجی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پروگریسو پیپرز لمیٹڈ سے استعفیٰ دے دیا اور انہیں بقیہ زندگی کیلئے بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’ویو پوائنٹ‘ کا آغاز کیا اور ’ڈان‘ کے لئے کالم لکھا، لیکن اس میں پہلے جیسا بانکپن نہیں تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو صحتمند اور اپنی زندگی کے عروج پر تھے[اس جملے کو طارق علی نے اپنی فیس بک پر رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے سرکاری تحویل لئے جانے کے وقت مظہر علی خان بارے ایسا بولا تھا: مدیر]۔

لینن کی طرف آتے ہیں، جو آپ کے حالیہ کام کا موضوع ہے، آپ کے والد ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے، کیا وہ آپ کی کتاب میں پیش کردہ لینن کی تصویر سے اختلاف کرتے؟

طارق علی: مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور اختلاف کرتے۔ 1930ء کی دہائی سے تعلق رکھنے والی کمیونسٹوں کی نسل ماسکو کے ساتھ بہت وفادار تھی۔ انہوں نے لینن کو ایک سیکولر پیر کی حیثیت سے دیکھا جس نے کوئی غلط کام نہیں کیا، قریب قریب خدا کے روپ میں، انہوں نے لینن کی وہ شبیہہ قبول کر رکھی تھی جسے روسیوں نے اسٹالن اور خروشیف کے زیرِ اثر تراشا تھا۔ ان کے نزدیک لینن بحیثیت مفکر اور انسان دوسروں کی طرح غلطیاں کرنے والا اور معاملات رکھنے والا انسان نہیں تھا، انہیں یہی تعلیم دی گئی تھی۔

لینن کے تمام تحریری کام سے کسی قسم کا کوئی عقیدہ وضع نہیں ہوتا۔ انہوں نے مارکسی سیاسی نقطہ نظر کو ترقی دی اور بہتر بنایا۔ اپنے آخری برسوں میں جب فالج کے باعث وہ معذور ہو گئے تھے، انہوں نے مضامین لکھناشروع کردیئے جنہوں نے ان کے کچھ ساتھیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایک بار توکامریڈوں نے محض انہیں دھوکہ دینے کے لئے ”پراودا“ اخبار کا جعلی شمارہ شائع کرنے کا سوچا تاکہ ان کے ان مضامین کو چھاپا جا سکے (بالآخر پولٹ بیورو نے ان مضامین کو ویٹو کردیا)۔ ان کے ساتھی خوفزدہ ہوگئے کہ کہیں ان کے نظریات لوگوں کے اذہان میں جگہ نہ پا لیں۔ بہت کم دوسرے رہنماوں نے اس طرح اپنے نظریات کو چیلنج کیا ہے۔ روسی انارکزم اور مارکسزم کے علاوہ یورپی مزدور تحریک کے تجربات نے لینن کی ذہنی تشکیل کی تھی۔ وہ زارشاہی کے خاتمے کے لئے بہت پرعزم تھے۔ لینن کے بغیر روس کا اکتوبر انقلاب برپا نہ ہوتا۔ میں لینن پر ایک کتاب لکھنا چاہتا تھا تاکہ لوگ اس عہد میں واپس جائیں اور ان کی اصل تحریریں پڑھیں۔

آج کا دن بھی ایسا ہی بدترین دن ہے جب 80 سال قبل لینن کے ایک بہترین مسلمان ساتھی میر سلطان گالیف کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعہ ایک رجعت پسند ہونے کی وجہ سے ماسکو میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ مسلم ریاستوں میں سوشلزم کو مقبول بنانے کی لینن کی کوشش کیسی رہی؟ پھانسی کے باوجود کیا تاریخ گالیف کو ہمدردی سے یاد کرے گی؟

طارق علی: سوویت کمیونسٹ پارٹی کے اندر لینن کی آخری جدوجہد اقلیتوں کے حقِ خودارادیت کے دفاع کی جدوجہد تھی۔ اس کے جارجیائی کامریڈوں کے ہاتھوں جارجیائی بائیں بازو کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے لینن کو شدید غصہ دلایا اور انہوں نے اس کی سخت سرزنش کی۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کی کسی بھی آئینی جمہوریہ کو حق خودارادیت حاصل ہے۔ ایک بار لینن نے کہا: ”آپ کے خیال میں سوویت ترکستان فرانسیسی نوآبادی الجیریا سے کیوں مختلف ہے؟“ مکمل نہ سہی بہرحال یہ ریاستیں جدید جمہوریہ بن گئیں۔ یہاں کے مرد و خواتین تعلیم یافتہ ہیں۔ خواتین سمیت معاشرے کے نچلے طبقات تک سب ترقی کے عمل میں شامل ہیں۔ میں اکثر ترکستان کے پروفیسروں سے مختلف کانفرنسوں میں ملتا ہوں، وہ اسلام کی لاجواب اور ترقی پسند تشریحات کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے سوویت یونین سے تعلیم حاصل کی اور سوویت یونین نے انہیں آزادی دی۔ تاہم اس کا اطلاق دنیا کے تمام ممالک پر نہیں ہوتا۔ لینن خواتین کی مساوات کو سختی سے ماننے والے تھے اور ان خواتین سے نالاں تھے جو گھر کے کاموں تک ہی محدود رہیں۔ اگر ہم روسی انقلاب کے بعد کی اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت پر نگاہ ڈالیں تو ایسا لگتا ہے جیسے خواتین کا وجود ہی نہ ہو۔ کمیونسٹوں کی پرانی نسل نے لینن کو بڑے پیمانے پر اسٹالنسٹ نگاہوں سے دیکھا۔ منحرفین نے لینن کو انارکسٹ یا ٹراٹسکائسٹ آنکھوں سے دیکھا۔ میں چاہتا ہوں کہ قارئین لینن کو ان کی تحریروں کے ذریعہ دیکھیں۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ آپ کی کتاب میں حتمی خیالات میں سے ایک یہ ہے کہ لینن نے اپنے خیالات کے حنوط (Mumify) ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے بڑے پیش رو مارکس نے اپنی زندگی کے آخر میں یہ پیش گوئی کی تھی جب انہوں نے غصے میں کہا تھا: ”میں مارکسٹ نہیں ہوں“۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ”مارکسزم، لینن ازم“ حنوط شدگی ہی کی ایک قسم ہے اور ”ماوازم، ہاگساازم بھی اسی کا اضافہ ہیں؟

طارق علی: مارکس یقینی طور پر تاریخی مادیت پر یقین رکھتے تھے۔ آپ کسی ایسے ملک یا معاشرے کی تاریخ اس بنیاد پر نہیں لکھ سکتے کہ وہاں کے شاہی خاندان کی حکمرانی کیسی تھی۔ ہمیں معاشرتی اور معاشی قوتوں کو سمجھنا ہوگا جس نے ان حکمران طبقات کی تشکیل کی۔ جب مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ منشور میں لکھا کہ ” تاحال پوری دنیا کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے“، تو یہ تاریخی مادہ پرستی کا ایک ضابطہ تھا۔

معاشی دباو اور جبر کے علاوہ تاریخی مادیت کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں۔ کچھ تخفیف پسند بن گئے، مارکس، اینگلز اور لینن ایسے نہیں تھے۔ لینن نے ایک بار غصے میں کہا تھا کہ جب لوگ ان کا غلط حوالہ دیتے ہیں تو وہ کہتے کہ اگر وہ لوگ لینن اسٹ ہیں تو میں لیننسٹ نہیں ہوں۔ سیاسی تھیوری مستقل طور پر جاری و ساری رہتی ہے اور آپ آنے والے وقت تک نظریات کو مکمل طور پر منجمد نہیں کر سکتے۔ قومی اور عالمی سطح پر بدلتے حالات کے ساتھ یہ بھی بدلیں گے۔ بعد میں آنے والے کچھ گروہوں کو یہ کبھی سمجھ نہیں آیا۔

آپ ماضی کے کچھ دوسرے انقلابی رہنماوں سے لینن کا موازنہ کیسے کریں گے؟ ہیٹی انقلاب کے رہنما توساں لاورتور (Toussaint L’Ouverture) سے شروع کر کے روبسپئیر، ماو زے تنگ، ہوچی منہ، فیدل کاسترو اور خمینی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

طارق علی: بنیادی طور پر ماضی کے سبھی انقلابی حالات کی طاقت کی بدولت تھے۔ تاریخ نے بھی انہیں وہی بنا دیا جو وہ تھے۔ لینن تاریخ میں واحد رہنما تھے جنھوں نے انقلاب کی پیش گوئی کی اور بتایا کہ انقلاب کیسا ہونا چاہئے۔ انہوں نے جو پارٹی تشکیل دی اس کا کردار کیا ہونا چاہئے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ لینن نے انقلابی جدوجہد کو پہلے سے ترتیب دیا تھا۔ دوسرے رہنماﺅں کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے۔ توساں لاورتور ایک بہت بڑا لیڈر تھا لیکن وہ جو کرنا چاہتا تھا نہیں کر پاےا۔ یہی حال فرانس میں جیکوبن کا تھا۔ روس کے اکتوبر انقلاب میں دنیا اور سامراج کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نوآبادیات کے خاتمہ کیلئے فیصلہ کن عنصر تھا۔ چین، کیوبا اور ویتنام کے انقلابات اسی کا مظہر تھے۔

مجھے کیرالا سے تعلق رکھنے والے کمیونسٹ دامودرن کو ہوچی منہ کا دیا گیا جواب بہت پسند ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ہوچی منہ ویتنام میں انقلاب کیسے لے آئے، حالانکہ ہندوستانی کمیونسٹ یہ نہ کر سکے جبکہ ان کی پارٹی کی جسامت انڈو چینی کمیونسٹ پارٹی کے برابر تھی۔ ہوچی منہ نے کہا کہ” ہندوستان میں آپ کے پاس گاندھی تھے۔ یہاں میں ہوچی منہ اور گاندھی دونوں تھا۔ آپ کا ہندوستانی بورژوا سے مقابلہ تھا اور یہاں کمیونسٹ شروع سے ہی قومی جدوجہد کے ذمہ دار تھے“۔ چین اور ویتنام کے رہنماوں نے جاپانی اور فرانسیسی قبضوں کے خلاف لڑائی لڑی، جس نے انہیں وقار بخشا۔ دونوں انقلابات کی نظریاتی کامیابی روسی انقلاب کی مرہون منت ہے۔ چینی انقلاب روسی انقلاب سے زیادہ مضبوط تھا کیونکہ اس کے پیچھے 20 سال کی جدوجہد تھی۔ روسی انقلاب ایک مختصر اور تیزترین انقلاب تھا۔ ماو کی فوجیں ملک میں لانگ مارچ کرتی رہیں لہٰذا کسانوں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے مابین تعلقات روس سے بہت مختلف تھے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی نے کسانوں پر راج کیا جبکہ روس میں کسانوں کی اکثریت مخالف بنی رہی۔

کیاان انقلابی رہنماﺅں کے نظریات کو بھی حنوط کر دیا گیا؟

طارق علی: خمینی کے بارے میں آپ کے سوال کی طرف واپس آتے ہیں، ایرانی انقلاب ایک مختلف کردار کا حامل تھا۔ یہ انقلاب کے اندر ردِ انقلاب تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انقلابیوں نے ایرانی تودہ پارٹی اور فدائین کو کچل دیا۔ یہ امریکا اور بائیں بازو دونوں کے خلاف انقلاب تھا۔ یہ موخر الذکر سے انتہائی معاندانہ رہا، جو افسوسناک ہے۔ بہرحال ایرانی دانشور مسلم دنیا میں ثقافت اور سیاست دونوں لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ تھے، عرب دنیا کے اپنے ہم منصبوں سے بھی کہیں زیادہ، جنوبی ایشیا کو تو خیر آپ چھوڑ ہی دیں۔ فرانسیسی اور انگریزی انقلابات بورژوا انقلابات تھے۔ روسی انقلاب ہی واحد انقلاب تھا جس کی منزل سوشلسٹ انقلاب تھا۔ نکاراگوا انقلاب ایک سامراج مخالف انقلاب تھا، جو کیوبا کے انقلاب سے متاثر تھا۔ روسی انقلاب نے دنیا کے لئے جو کیا، کیوبا کے انقلاب نے لاطینی امریکہ کے لئے وہی کردار اداکیا۔ کچھ اچھے لوگوں نے نکاراگوا کی سوشلسٹ پارٹی سینڈینستا کو چھوڑ دیا۔ انقلابات میں یقیناً بہت سے المیے بھی ہیں۔ لینن حنوط شدگی کے مکمل مخالف تھے۔ ان کی بیوہ نے پولٹ بیورو سے التجا کی تھی کہ لینن کی لاش کو ممی نہ بنایا جائے۔ اپنی کتاب ”ریاست اور انقلاب“ میں لینن بتاتے ہیں کہ ’قائدین کیسے ممی بن سکتے ہیں‘۔ ماو اور ہوچی منہ کو ممی بنا دیا گیا۔ لینن کو بازنطینی یادگار بنا دیا گیا۔ یہ سب ضروری نہیں تھا مگر چونکہ قیادت کو عوامی حمایت حاصل نہ تھی لہٰذا یہ کرنا پڑا۔ اپنے آخری برسوں میں ماو نے ثقافتی انقلاب کے دوران شخصیت پرستی کو فروغ دیا۔ انہیں کچھ لڑائیاں نئی معاشی پالیسی کے لیے لڑنا پڑیں، جس نے سرمایہ داری کو مراعات فراہم کیں۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ ثقافتی انقلاب ناکام ہوچکا اور آپ کسی سے رضاکارانہ کام نہیں لے سکتے۔

لینن کو برصغیر کے ادب میں کس طرح دیکھا گیا؟ میرا مطلب ہے اردو، ہندی، پنجابی اوربنگالی وغیرہ میں؟

طارق علی: لینن نے 1930ء اور 1940ء کی دہائی میں انقلاب کے بارے بہت لکھا اور ان کی کتابوں کو ہر بڑی ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اقبال نے ایک نظم لکھی ’لینن کا خدا کے حضور‘ جس میں خدا لینن کو ایک انٹرویو کے لئے طلب کرتا ہے، لینن جنت میں جا کر اللہ کو بتاتا ہے کہ دنیا میں کیا پریشانی پیدا ہورہی ہے۔ اللہ اس کی دلیل سے متاثر ہوتا ہے اور اپنے فرشتوں کو نئی ہدایات دیتا ہے۔ میں اس نظم کوبچپن میں زبانی یاد کرتا تھا۔ یہ لینن پر ایک بہت ہی بنیادی اور اردو ادب کی مشہور نظم ہے جو ایک ایسے شاعر کی ہے جو خود کمیونسٹ نہیں، بلکہ ایک جدیدیت پسند مسلمان شاعر تھا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ نظم یہاں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔

اس سال لینن کی پیدائش کی 150 ویں سالگرہ بھی ہے۔ آپ نے بینالے 2020ءکے اپنے اہم خطاب میں دنیا کے مختلف حصوں میں احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے بارے میں بات کی۔ اکیسویں صدی میں آپ لینن کا کون سا حوالہ پیش کریں گے؟

طارق علی: میں نوجوانوں کو کوئی نصیحت نہیں کرنا چاہتا۔ میرے خیال میں انہیں خود لینن کو دریافت کرنا چاہئے۔ نوجوانوں کو یہ بتانا کہ کرنا کیا چاہیے انہیں متحرک کرنے کا بہتر طریقہ نہیں ہے۔ کیا اب انہیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے؟ لینن دور کے بعد سے ایک بڑا مسئلہ یہ رہا کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں ایک مذہب کی طرح کمیونزم کی تعلیم دی گئی۔ کمیونزم کے اپنے دیوتا، اولیا اور شہداہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں گرو شاگرد کی بڑی پختہ روایت ہے۔ آپ کو پڑھایا تو جاتا ہے مگر آپ سوال نہیں کرسکتے۔ اس طریقہ تعلیم میں قائد اور نظریے کے ساتھ مکمل اتفاق ضروری تھا۔ یہ مناسب طریقہ کار نہیں تھا۔

یہ سال مارکس کے عظیم کامریڈ فریڈرک اینگلز کی دو صد سالہ برسی کا بھی ہے۔ مارکسی افکار میں ان کی خدمات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ایک کارکن اور دانشور ان سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

طارق علی: اینگلز اپنی ذات میں دانشور اور مارکس کے شریک کار تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے سیکھا اور سکھایا۔ وہ کسی بھی طرح مارکس کے ماتحت ساتھی نہیں تھے۔ اینگلز نے ان موضوعات پر لکھا جن کے بارے میں مارکس نے نہیں لکھا۔ انہوں نے ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کی تشکیل“ میں طے شدہ اور جبری شادی کو جسم فروشی کی ایک شکل قرار دیا۔ وہ جرمنی میں مسلح جدوجہد اور کسانوں کی لڑائیوں سے متعلق بہت پرجوش تھے۔ انھیں فوجی جانکاری کی وجہ سے ” جنرل “ بھی کہا گیا۔ خیالات جب عوام کی ضروریات سے مربوط ہو جائیں تو اہم بن جاتے ہیں ورنہ مر جاتے ہیں۔ اینگلز کی سوانح حیات پر جو کتابیں میں نے پڑھی ہیں وہ کلاسیک ہیں۔ جدید کتب کو میں پسند نہیں کرتا، ان میں اینگلز کے طبقاتی پس منظر پر توجہ مرکوز رہتی ہے کہ وہ ایک صنعتکار تھے۔ اینگلز نجی زندگی میں مارکس سے کم روایتی تھے۔ مارکس اخلاقیات میں بہت وکٹورین تھا۔ اینگلز نے ان سے کہیں زیادہ کھلی اور تخلیقی زندگی بسر کی۔ وہ شادی پر یقین نہیں رکھتا تھا، نکاح کی حرمت تو دور کی بات ہے۔

لاہور بینالے میں اپنے کلیدی خطاب میں آپ نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ فلسطین عالمی ایجنڈے سے ختم ہوچکا ہے۔ آپ نے جمال عبدل ناصر کے متحدہ عرب جمہوریہ کے تصور کو فراموش کرنے کا بھی تذکرہ کیا۔ یادداشت اکثر ایسے معاملات میں مزاحمت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اس ستمبر میں ناصر کی موت اور اردن کے بدنام زمانہ بلیک ستمبر میں ہونے والے قتل عام کے 50 سال مکمل ہو جائیں گے۔ ناصر کی ہلاکت اور اس قتل عام نے مشرق ِوسطیٰ میں ترقی پسند قوتوں کے توازن کو کیسے متاثر کیا؟

طارق علی: یہ صرف ناصر کی موت نہیں تھی۔ یہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل سے شکست تھی جس نے عرب قوم پرستی کو ختم کردیا۔ یہ عرب قوم پرستی کے لئے ایک بہت بڑی شکست تھی۔ ایک بہت ہی مقبول، قابلِ احترام اور پیار کرنے والے انسان جمال عبدل ناصر کی موت ہوگئی، وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا اس میں ناکام رہا۔ یہ ایک وجود کے طور پر عرب دنیا کے خاتمے کا آغاز تھا۔ اب ہم فرقہ واریت، دھڑے بندی، ایک ملک کے بعد دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے امریکی مداخلت اور فلسطینیوں کی ملی بھگت سے فلسطینیوں ہی کا صفایا دیکھ رہے ہیں۔ میرے مرحوم دوست ایڈورڈسعید اوسلو معاہدے کو فلسطینی مفادات سے بغاوت قراد دیتے تھے۔ ان کی بات درست ثابت ہوئی۔ دو ریاستی حل مردہ ہو گیا۔ اسرائیلی ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کی اجازت دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر یک ریاستی حل کے لئے حالات پیدا کئے۔ بلیک ستمبر ایک بڑی شکست تھی اور اردن اس میں شامل تھا۔ جنرل ضیا الحق نے اردنی بادشاہت کی مدد کرنے کے لئے فوجی مہم جوئی کی۔ یہ فلسطینی قومی امنگوں کے لئے شدید دھچکا تھا، تاہم انہوں نے خود کو سنبھالا اور آگے بڑھتے رہے۔

پہلے فلسطینی انتفادہ نے اسرائیلی سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے کو قبول کر لیا۔ اسرائیلیوں نے فلسطینی قیادت کے ساتھ بات چیت کی، جس میں انتفادہ قیادت شامل نہیں تھی کیوں کہ وہ تیونس میں جلاوطن تھی۔ اسرائیلی سوچ میں نسل پرستی کا عنصر بہت مضبوط ہے۔ فلسطینی قیادت تعطل کا شکار ہے۔ اس نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے تمام انڈے اسرائیلی ٹوکری میں ڈال دیئے۔ یہ فلسطینیوں کے لئے تباہی کا باعث بناہے۔ انہیں اوسلو معاہدے کے سال بعد دنیا سے تعاون کی اپیل کرنی چاہئے تھی اور اپنی آزادی کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ وہ ہر روز قتل ہوتے ہیں، دنیا دیکھتی ہے اور کچھ نہیں کرتی۔ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جو کچھ کر رہا ہے، اس سے بھارت کی بالادستی قبول نہ کرنے والے کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر آزمانے کیلئے مودی حکومت کو بھی شہ مل رہی ہے۔

آج ان دونوں واقعات کو یاد رکھنا کیوں ضروری ہے جبکہ ان کی وجہ عرب اتحاد اور فلسطین کی آزادی کو نقصان پہنچا ؟

طارق علی: تاریخ اہم ہے اور یادداشت کو زندہ رکھنا چاہئے۔ اگر آپ ماضی کو بھول جاتے ہیں تو، آپ اچھے مستقبل کے لئے لڑ نہیں سکتے۔ یادداشت اور تاریخ دونوں اہم ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تقریباً ہر ملک میں تاریخ مسخ کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عرفان حبیب اور رومیلا تھاپر پر مودی کا حملہ سوچا سمجھا، منظم اور طے شدہ تھا۔ دائیں بازو کے ہندوﺅں کا تاریخی بیانیہ مضحکہ خیز ہے، اس لیے تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنے کی مزاحمت ہو رہی ہے جس کی مجھے خوشی ہے۔

آخر میں، براہ کرم ہمیں اپنے مستقبل کے کام کے بارے میں بتائیں؟

طارق علی: میں چرچل سے متعلق توہمات کا ازالہ کرنے کے لیے ایک کتاب لکھ رہا ہوں تاکہ ان کی شخصیت کا حقیقی تجزیہ کیا جا سکے۔ برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں چرچل کی شخصیت پرستی بے قابو ہو چکی ہے۔ موجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے حال ہی میں ایک بیسٹ سیلر کتاب ”چرچل فیکٹر“ لکھی ہے، جو بہرحال ایک احمقانہ کتاب نہیں ہے۔ اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔

Raza Naeem
+ posts

رضا نعیم سماجی سائنسدان، کتابوں کے نقاد، ایوارڈ یافتہ مترجم اور انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے صدر ہیں۔