قیصر عباس
بالی وڈ کی نئی فلم ’بلبل‘ انیسویں صدی کے بنگال کے پس منظر میں فلمائی گئی ایک ایسی داستان ہے جس میں عورت کے تین روپ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ پہلا روپ نوعمر دلہن اور دوسرا نوجوان دوشیزہ کے کردار ہیں جو سماجی رسموں کے پنجرے میں ایک بلبل کی طرح مردوں کے رحم وکرم پر زندہ ہیں لیکن تیسرے روپ میں وہ ایک بے بس پنچھی نہیں ہے بلکہ معاشرے سے اس پرکی گئی سفاکیوں کا انتقام ایک خوفناک انداز میں لیتی ہے۔
فلم کا آغاز ایک تقریب سے ہوتاہے جہاں ایک کمسن بچی بلبل کی شادی ایک عمر رسیدہ ٹھاکر سے ہورہی ہے لیکن معصوم بچی کو زندگی کے اس نئے موڑ کا کچھ اندازہ نہیں۔ باغوں میں درختوں پہ چڑھ کر آم توڑ تی ہوئی یہ بچی اپنے بھولپن میں یہی سمجھ رہی ہے کہ اس کی شادی ٹھاکر کے سب سے چھوٹے بھائی ستیہ سے ہورہی ہے جو اس کا ہم عمر ہے اور اس کا دوست بن گیا ہے۔ یہ بات تو اسے اپنے سسرال میں جاکر معلوم ہوتی ہے کہ اس کا شو ہر عمرمیں اس سے کہیں بڑا جاگیردار اندرانیل ہے اور وہ حیرانگی اور معصومیت سے سہاگ رات میں اپنے نئے شوہر سے پوچھتی ہے :
بلبل: وہ کہاں ہے جس سے میری شادی ہو ئی تھی؟
ؓبڑے ٹھاکر: وہ تو ہم ہیں!
بلبل : نہیں وہ تو میرے جیسا تھا، میرے ساتھ پالکی میں آیا تھا۔ اس کا نام ستیہ تھا۔
یہاں نوعمر لڑکی کی شادی ہمارے معاشرے میں بچیوں کے جنسی اور سماجی استحصال کا استعارہ بن کر فلم کی ایک طنزیہ مگر سنجیدہ تمہید بن گئی ہے۔ میکے اور پھر سسرال میں بلبل کا بچپن اس کی زندگی کا پہلا روپ ہے۔ فلم کے اس موڑ پر ہمار اتعارف ٹھاکراندرا نیل کے خاندان سے ہوتا ہے جس میں ٹھاکر کا ایک ہم شکل مگر پاگل جڑواں بھائی مہندرا اور اس کی بیوی بنو دینی(اداکارہ پیولی دم) ٹھاکر کی عظیم الشان حویلی میں رہ رہے ہیں۔ جڑواں بھائیوں کے دونوں کردار بالی وڈ کے جانے پہچانے اداکارراہول بوس نے بخوبی نبھائے ہیں۔ دیکھنے میں تو یہ ایک شاہانہ حویلی ہے مگر اس کے تمام باسی اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں کے ساتھ سماج کے چلتے پھرتے کرداروں کے ہمزاد سائے بن جا تے ہیں۔ یہیں سے بلبل کی زندگی کا دوسراروپ شروع ہوتاہے۔
بلبل اب حویلی کی بڑی بہو (اداکارہ تر پتی دِمری) بن گئی ہے مگر عمرمیں ستیہ کے علاوہ تمام کرداروں سے بہت چھوٹی ہے۔ بچپن کی حدوں کو پار کرکے وہ ایک نوخیزدوشیزہ کا روپ دھارلیتی ہے اور اس کا دیور ستیہ بھی ایک خوبرو نوجوان(اداکار اویناش تواری) بن کر سامنے آتاہے۔
دونوں کی بڑھتی ہوئی قربتیں حویلی کا ایک ایسا راز ہے جوابھی تک عام نہیں ہوا لیکن جب اس رومانس کی بھنک بڑے ٹھاکرکو ملتی ہے تووہ دونوں کو الگ کرنے کی خاطر ستیہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن بھجوانے کے انتظامات کرلیتے ہیں۔ ستیہ سے جدائی بلبل کے لئے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے اور وہ اپنا غم غلط کرنے کے لئے اس ادھوری کہانی کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرتی ہے جو اس نے ستیہ کے ساتھ مل کر لکھنا شروع تھی۔
ادھر بینودینی کوبھی دونوں کے عشق کا سراغ اس کہانی کی کتاب پڑھ کر ملتاہے جو اسے بڑے ٹھاکر کو بھی سناتی ہے۔ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے بڑے ٹھاکر ایک لرزادینے والے سین میں بلبل کو نہاتے ہوئے ٹب سے گھسیٹ کر باہر نکالتے ہیں اور لوہے کی سلاخ سے اس کے پیروں کو بری طرح لہو لہان کردیتے ہیں اور بلبل کی چیخیں پوری حویلی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ اس سفاکی کے بعد بلبل کے پیر پیچھے کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ اس طرح خود ٹھاکر ہی نادانستہ طورپر اسے بلبل سے چڑیل کے روپ میں بدلنے کا وسیلہ بن جاتے ہیں اور یہی بلبل کا تیسرا روپ ہے جو پوری فلم پر چھایا ہواہے۔
بلبل کے علاج کے لئے یہ کہہ کرڈاکٹر سودیپ بابو (اداکارپرمبرتا چٹھوپا د ھیائے)کو بلایا جاتا ہے کہ وہ سیڑھیوں سے گرگئی تھی مگر علاج کرتے کرتے وہ خود بھی بلبل کے سحر میں گرفتار ہوکر اس کے قریب ہوگیا ہے۔ اسی زخمی حالت میں جب بلبل زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہے اس پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑتی ہے جب وہ چھوٹے ٹھاکر کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے اور اس طرح دوشیزہ سے چڑیل کی جانب اس کانفسیاتی سفرمکمل ہوجاتا ہے۔ بینودینی جوحویلی کے حالات سے بخوبی واقف ہے بلبل کی تیمارداری کے دوران سر گوشی کے انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے :
”کیسا رونا دھونا، چپ رہنا۔ تھوڑا پاگل ہے، بس ٹھاکر ہے۔
چپ رہنا، تھوڑا پاگل ہے۔ گہنے ملیں گے، ریشم ملے گا۔ یہ سب ملے گا۔
تھوڑا پاگل ہے، اس سے نہیں تو اس کے بھائی سے سب ملے گا۔
بڑی حویلیوں کے بڑے راز ہوتے ہیں، چپ رہنا۔“
بینودینی، جو خود بھی دو بھائیوں کے درمیان جنسی طورپربٹی ہوئی ہے جن میں ایک پاگل اوردوسرا ظالم ہے، بلبل کو حویلی میں عورت کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے خاموشی کی تلقین کررہی ہے۔
دھیمے آہنگ میں بیان کئے گئے یہ نپے تلے الفاظ حویلی کی باسی دو سہمی ہوئی عورتوں کا المیہ بھی ہے اور اس گھٹے ہوئے ماحول کا آئینہ بھی جس میں وہ رہنے پر مجبور ہیں، جیسے کوئی راز کی بات حویلی کی دیواروں سے بھی چھپائی جارہی ہو۔ جب ڈاکٹر سودیپ بلبل سے پوچھتا ہے کہ اس کے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی کا ذمہ دار کون ہے تو بلبل اپنی جیٹھانی کی نصیحت پر عمل کرتی ہوئی کہتی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور جائے۔
اس واقعے کے بعد بڑے ٹھاکر یہ کہتے ہوئے حویلی چھوڑ جاتے ہیں کہ اب یہاں ان کے لئے کچھ نہیں رہ گیا۔ ادھرگاوں کے قریب جنگل میں ایک کے بعد ایک کئی لوگ خوفناک انداز میں مارے جاتے ہیں اور یہ افواہ پھیل جاتی ہے کہ جنگل میں ایک چڑیل کا بسیرا ہے اور وہ ان مردوں سے انتقا م لیتی ہے جو عورتوں سے بدسلوکی کرتے ہیں لیکن یہ داستان جنگل سے حویلی تک آجاتی ہے جب چھوٹے ٹھاکر بھی درگا پوجا کے دن اپنے بستر پر مردہ پائے جاتے ہیں۔ ان کی گردن پر خون آلودگہرے زخموں کے نشانات ملنے کے بعد یہ خبر گرم ہوجاتی ہے کہ وہ بھی چڑیل کا شکار ہو گئے ہیں۔
ستیہ اب اپنی تعلیم مکمل کرکے پانچ سال بعد لندن سے واپس آگیا ہے اور ایک پڑھا لکھا نوجوان ہوتے ہوئے اس سے انکاری ہے کہ گاﺅں میں ہونے والے تمام لوگوں کے قتل کی ذمہ دار کوئی چڑیل ہے۔ وہ جب بلبل سے کہتا ہے کہ یہ قتل کسی مرد نے کیاہے تو اس کا جواب ”کوئی عورت بھی تو ہو سکتی“ اسے حیرت میں ڈال دیتاہے۔
ستیہ اب سودیپ بابو اور بلبل کے فلرٹیشن سے اندر ہی اندرحسد کی آگ میں جل رہا ہے اور اسے شک ہے کہ تمام لوگوں کے قتل کے پیچھے دراصل ڈاکٹر سودیپ ہے جو جنگل کے قریب ہی رہتاہے۔ موقع ملتے ہی وہ ان دونوں کی قربت پر بلبل کوتنقیدکا نشانہ بناتا ہے اور مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے میکے چلی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس موڑ پر بلبل کا جواب ”تم سب مرد ایک ہی طرح کے ہو، ہے نا؟“مردوں کے لئے اس کی شدید نفرت کا اظہار ہے۔
کہانی کے کلائمکس میں ستیہ سودیپ پر بندوق تان کرکہتا ہے:
”پہلی بار جب تمہیں دیکھا تھا نا تب ہی گولی مارنے کامن کیا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کیوں۔ اب تمہارا فیصلہ کلکتے کی کچہری میں ہوگا۔“
ڈاکٹر اب ستیہ کا قیدی ہے اوردونوں بگھی میں اسی جنگل سے گزرتے ہیں جس میں مشہور ہے کی ایک چڑیل رہتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں اچانک بگھی رک جاتی ہے اور دونوں کوچوان کو مردہ حالت میں خون میں لت پت پاتے ہیں۔ خوف و ہراس کے اسی ماحول میں ستیہ کو جب ایک چڑیل کا سایہ نظر آتا ہے تو اسے بھی یقین ہوجاتا ہے کہ و ہی لوگوں کو ماررہی ہے اورسودیپ سے اقرار کرتا ہے کہ قتل کا ذمہ دار در اصل وہ نہیں چڑیل ہے۔ ستیہ چڑیل کا پیچھا کرتے ہوئے اس پر کئی فائر کرتا ہے۔ سودیپ اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے او ر ہاتھا پائی میں اس کی مشعل ہاتھ سے گرجاتی ہے اور پورا جنگل سرخ آگ کی لیپیٹ میں آجا تا ہے اور محسوس ہوتاہے کہ وہ تینوں بھی اس میں جل کر بھسم ہوچکے ہیں۔ لیکن جب منظر بدلتاہے اور حویلی کی چاردیواری میں ستیہ کی آواز سنائی دیتی ہے تو معلوم ہوتاہے کہ ستیہ زندہ ہے اوربڑے ٹھاکرسے مخاطب ہے :
”ہم سب کچھ چھوڑکر جارہے ہیں ا س ڈرسے کہ آپ جیسے نہ ہوجائیں۔ آپ جیسے توہوگئے ہیں۔ اب تو خون کا رشتہ ہے ہم سب کا۔ وہ خون جس سے ہم سب کے ہاتھ رنگے ہیں۔“ منظر میں ستیہ نظر نہیں آرہا، حویلی کی دیواروں سے اس کی آواز سنائی دے رہی ہے جےسے اس سنسان حویلی کے تمام باسی کہیں دور بس چکے ہیں اور اب صرف ویواریں ہی بولتی ہیں۔
لیکن فلم کے آخری حصے میں بڑے ٹھاکر حویلی میں واپس آجاتے ہیں۔ پھر ایک رات اپنی خواب گاہ میں سوتے ہوئے کچھ عجیب وغریب آوازیں انہیں جگادیتی ہیں اورجب وہ خوفزدہ ہوکر اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں توایک چڑیل انہیں اپنے سامنے نظر آتی ہے جو ان کی طرف بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ اب ان کی باری بھی آچکی ہے۔ یہیں فلم کا اختتام ہوتا ہے۔
کہانی میں لاشعوری طورپر نفسیاتی اور سماجی کہانیوں کے مشہورناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور کے ناول ’چھوکربالی‘ کا اثر بہت نمایاں ہے جو کردار نگاری، نفسیاتی پیچیدگیوں پر مبنی رشتوں، بنگالی ماحول اور ناموں کی مماثلت میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ناول کی طرح اس فلم میں بھی بنگال کا لگ بھگ ایک ہی عہد دکھا یا گیا ہے اور ناول کے کرداروں سے لئے گئے نام بنودینی اور مہندرا بھی اسی تاثر کو گہرا کررہے ہیں لیکن یہ مماثلت یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے آگے کی کہانی ہدائت کار اوراسکرپٹ رائٹرانوتا دت کی صلاحیتوں کا عکس ہے۔
فلم کی پوری کہانی ٹھاکر، جیٹھ، دیور، بڑی بہو، چھوٹی بہواور بھابی کے رشتوں کے گرد گھومتی ہے جہاں عورت کا ہر کردار ثانوی حیثیت رکھتاہے اور مرد کی زندگی کا ہر پہلو جاگیردارانہ نظام میں اس کی ناقابل تسخیر طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کہانی کے تینوں بھائی کسی نہ کسی انداز میں حویلی کی عورتوں پر کبھی ظلم وتشدد، کبھی جنسی زیادتی اور کبھی نفرت کی صورت میں عورت کے استحصال کے ذمہ دار ہیں لیکن کہانی کے آخری حصے میں یہ استحصال زدہ عورت نہ صرف اس پرزیادتی کرنے والے مردوں بلکہ گاوں کے دوسرے آدمیوں کو بھی خوفناک انجام سے ہمکنار کرتی ہے۔
انوتادت (Anvita Dutt)بالی وڈ کے لئے کو ئی نیا نام نہیں کہ وہ ایک عرصے سے اسکرپٹ رائٹر کے طورپر جانی جاتی ہیں لیکن بطور ہدایت کار’بلبل‘ ان کی پہلی فلم ہے جس کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس فلم میں ایک باصلاحیت سکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار کی حیثیت سے سماج میں عورت کے مقام کو ایک اچھوتے رنگ میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فلم کے بیشترمناظر میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی چھاپ پوری طرح نظر آتی ہے۔
سحر انگیز عکاسی فلم کے سنسنی خیزاور طلسماتی ماحول کو ایک خواب کی طرح ناظرین تک پہنچاکران کے ذہنوں میں محفوظ کردیتی ہے لیکن ایک لامتناہی طلسم میں ڈوبی ہوئی یہی فضا جب خوف کی علامت بنتی ہے تو ایک سرخ رنگ کی دھند کی صورت میں اسکرین پر پھیل کر ایک غیر معمولی کہانی کوغیر معمولی رنگ میں گھولتی ہوئی خوف کے تاثر کو مزید گہرا کردیتی ہے۔ فلم میں کئی جگہوں پر کیمرے کے نئے زاویے ہدائت کاری کے تخلیقی نقوش چھوڑ جاتے ہیں خصوصی طورپر وہ منظر جب بلبل ستیہ کے انتظار میں بار بارگھرسے باہرجھانکنے آتی ہے اورایک کے بعد ایک اس کے سائے دریچے میں کھڑی اس کی شبیہ میں مدغم ہوکرگزرتی ہوئی ساعتوں کا تاثر چھوڑجاتے ہیں۔
یوں تو سب اداکارفلم میں اپنے فن کی معراج پرہیں لیکن راہول باسو نے بھائیوں کے دوہرے کردار اور ترپتی دمری نے عورت کے مختلف روپ میں نسوانی کرب اور بے چارگی کو بڑی مہارت سے اجاگر کیاہے۔ بادی النظر میں’بلبل‘ کو ڈریکولا اور Horror فلموں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی طرح یہ ماحول صرف سماجی مسائل کو ناظرین تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور اصل پیغام معاشرے میں عورت کا مقام اورمرد کے ہاتھوں اس کا استحصال ہے۔
خوف اور سراسیمگی کے اسی ماحول میں کہانی کے تمام کرداروں کی زندگی جیتے جاگتے لوگوں کی طرح ان کی شخصیت کے تمام پہلووں کو بھرپور انداز میں اسکرین پر لے آئی ہے۔ یہ داستان تواٹھارویں صدی کے ماحول میں فلم بند کی گئی ہے لیکن نہ جانے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کھیل اب بھی ہمارے اردگرد ہی کھیلا جارہا ہے۔
یقین نہ آئے تو تہمینہ درانی کی سوانح ’مینڈا سائیں‘ اٹھا کر پڑھ لیجئے۔ فرق صرف اتناہے کہ بلبل اپنا انتقام چڑیل بن کر لیتی ہے اور سوانح نگا ر اپنی آپ بیتی تحریر کرکے۔
اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ بر ِصغیرکے اندھے سماج کی اصلی دیواروں میں قید بیشتر عورتیں اپنی آگ میں خود ہی دفن ہوجاتی ہیں یا طاقتور سماج کے سامنے سرِتسلیم خم کردیتی ہیں لیکن اس فلم کے پردے پر بلبل ظالم مردوں کو اپنی آگ میں نیست و نابود کرکے ڈریکولا یا چڑیل کا روپ دھارلیتی ہے۔ یہاں فلم کی ہدائت کار شاید یہ پیغام دینا ضروری سمجھتی ہے کہ آج کی جدید عورت اب مردوں کے استبداد اور جنسی زیادتیوں کو سہنے پر تیار نہیں ہے۔ اس طرح یہ فلم کوئی عام کہانی نہیں بلکہ بر صغیر کی معاشرتی گھٹن کا سنسنی خیز پرتو ہے جو سماجی رشتوں کے منفی رویوں اور صنفِ نازک کے ساتھ ناانصافیوں کوایک خوفناک کہانی کے ذریعے اپنے ناظر ین تک پہنچارہی ہے۔
’بلبل ‘ ایک ڈریکولافلم نہیں، فیمنسٹ(Feminist) فلم ہے جونوعمری میں بچیوں کی شادی، جنسی زیادتی، خانگی تشدد اور معاشرے میں عورت کی حیثیت کے مسائل اپنے کرداروں کی وساطت سے بیان کررہی ہے۔ صنفِ نازک کے گمبھیر مسائل کو اس فلم میں عورت کے تین کرداروں، نوعمردلہن، دوشیزہ اورچڑیل کے المیوں کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔