فاروق سلہریا
گذشتہ ہفتے تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ’فرار‘ ہونے کی خبر آخر کار پاکستانی میڈیا پر بھی اس طرح سے چلا دی گئی کہ خبر بھی چل جائے اور شور بھی نہ مچے۔ پاکستانی میڈیا سے قبل بھارتی میڈیا میں یہ خبر گردش کرتی رہی ہے جسے شائد اس لئے اہمیت نہیں دی گئی کہ بھارت کے مین اسٹریم میڈیا کی ساکھ، بالخصوص پاکستان کے حوالے سے، اتنی خراب ہے کہ اب ہندوستان کے لوگ بھی اُس پر اعتبار نہیں کرتے۔
جب بی بی سی اردو نے یہ خبر چلائی کہ فوج کے ترجمان نے اس ’فرار‘کی تردید یا تصدیق نہیں کی تو سوشل میڈیا پر افواہ سازی تیز ہوگئی۔ جب میڈیا کی ساکھ ختم ہو چکی ہو تو افواہ سازی تیز ہو جاتی ہے۔ غالباً صورتحال پر قابو پانے کے لئے پاکستانی میڈیا پر بھی خبر چلوا دی گئی۔ جیو گروپ نے تو احسان اللہ احسان کا یہ بیان بھی چلا دیا کہ وہ ترکی میں ہیں۔
ابھی پاکستان کے شہری احسان اللہ احسان کے ’فرار‘ بارے انگشت بدنداں تھے کہ دو دن قبل لال مسجد سے ویسی ہی خبریں آنا شروع ہو گئیں جیسی 2007ء میں سنائی دی تھیں۔ ان دونوں واقعات سے دو سبق ملتے ہیں۔
اول یہ کہ ریاست کا ایک طاقتور حصہ اب بھی مذہبی جنونی قوتوں کے ساتھ مضبوط رشتے میں بندھا ہوا ہے۔ احسان اللہ احسان کے’فرار‘ کو ہی لیجئے۔ اس شخص کی نام نہاد گرفتاری بھی اتنی ہی عجیب تھی جتنا اس کا ’فرار‘۔ دورانِ قید اس کے انٹرویو مین اسٹریم میڈیا پر کرائے گئے۔ اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلا۔ اسے کس جیل میں رکھا گیا، کچھ پتہ نہیں۔ اب اگر اسے اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے نے ’فرار‘کرایا ہے تو بھی یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ طالبان کی ریاست میں گہری گھس بیٹھ ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے متفقہ طور پرفرار کرایا ہے تو میڈیا سنسرشپ سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
لوگ حکومت سے جواب مانگتے رہیں گے۔ اسامہ بن لادن کے مسئلے کو بھی ایک نام نہاد کمیشن بنا کر دفنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ میڈیا پر سازشی تھیوریاں بھی پھیلائی گئی تھیں۔ پاکستان میں تو شائد لوگوں کو خاموش کروا لیا گیا مگر ریاست کی عالمی ساکھ ختم ہو کر رہ گئی۔ اب تو سعودی عرب بھی شائد پاکستان پر اعتبار نہ کرے۔ احسان اللہ احسان کا ’فرار‘ بھی اسی قسم کا ایک عالمی دھچکا ہے کیونکہ عالمی میڈیا کو خاموش کرایا جا سکتا ہے نہ دنیا کو سوچنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس واقعہ کا مطلب ہے، یا اسٹیبلشمنٹ ملی ہوئی تھی یا وہ اس قدر نالائق ہے کہ ایک خطرناک ہائی پروفائل قیدی حساس ترین قید خانے سے فرار ہوتے نہ دیکھ سکی۔
ویسے زیادہ امکان ہے کہ قیدی فرار نہیں ہوا، فرار کرایا گیا ہے۔ یہی ساز باز لال مسجد کے سلسلے میں نظر آتی ہے۔ تیرہ سال قبل جب لال مسجد ایک خونی آپریشن کی وجہ سے عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اور مولوی عبدالعزیز کا خاندان وِلن بنا کر پیش کیا جا رہا تھا، عین اس خونی ڈرامے کے بعد یہ مسجد ایک مرتبہ پھر اِسی خاندان کے حوالے کر دی گئی۔ جامعہ حفصہ بھی نئے سرے سے اور زیادہ بڑے پیمانے پر، از سرِ نوتعمیر کیا گیا۔ ذرا غور کیجئے جس شہر میں عام شہری ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف نعرہ بلند نہیں کر سکتے اور ان پر غداری کے مقدمے بن جاتے ہیں، وہاں لال مسجد والے ریاست کو چتاؤنی دے کر پھر سے بیٹھ گئے ہیں۔ کوئی عقل اور آنکھوں کا مشترکہ اندھا ہی ہو گا جسے اس سارے کھیل میں لال مسجد اور ریاست کا ازدواج نظر نہ آ رہا ہو۔
دوسرا سبق ریاست کی منافقت ہے۔ ذرا تصور کیجئے احسان اللہ احسان کے مین اسٹریم چینل پر انٹرویو کا بندوبست کیا گیا۔ غالباً جیل میں رکھنے کی بجائے اسے کسی سیف ہاؤس میں رکھا گیا۔ اس کے برعکس آصف زرداری کا انٹرویو یہ کہہ کر بند کروایا گیا کہ ایک ملزم کا انٹرویو نہیں چل سکتا۔
اگر حکمران طبقے کے زیرِ عتاب افراد کے مقابلے پر احسان اللہ احسان کو اس قدر آرام سے رکھا گیا تھا تو ان سیاسی قیدیوں سے موازنہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جن کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ گلگت بلتستان کابابا جان جیل میں اخبار بھی نہیں پڑھ سکتا۔ اوکاڑہ کے کسان رہنما بد ترین کالی کوٹھڑیوں میں بند ہیں اور ایک پشتون نوجوان کو اس لئے اٹھا لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی تھی۔
جس طرح سنسر شپ سے مسئلے حل نہیں ہوتے اسی طرح منافقت پر پردے ڈالنا ممکن نہیں ہوتا۔ بلوچ اورپشتون خطے کے لوگ احسان اللہ کے فرار اور لال مسجد کے واقعات کا موازنہ منظور پشتین کی گرفتاری اور اسلام آباد کے ان 23 سیاسی کارکنوں کی گرفتاری سے کریں گے جنہیں اس لئے غداری کے مقدمات میں پھنسا دیا گیا کہ وہ منظور پشتین کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لاہور میں بھی طلبہ سوچیں گے کہ پر امن ترین’طلبہ یکجہتی مارچ‘ کرنے پر غداری کے مقدمے تو بنا دئے جاتے ہیں مگر اے پی ایس میں قتل عام کی ذمہ داری لینے والا بچوں کا قاتل ’فرار‘۔ چہ معنی دارد؟
قارئین درست طور پر سوچ رہے ہوں گے کہ کیا اِسی ریاست نے دہشت گردی پر قابو نہیں پایا اور کیا بے شمار دہشت گردوں کو مارا نہیں گیا؟
درست مگر یہ ادھورا سچ ہے۔ بہت سے دہشت گرد مارے ضرور گئے مگر یہ وہ لوگ تھے جو ریاست کے قابو میں نہیں رہے تھے۔ ان معروضی بنیادوں کو ختم نہیں کیا گیا جو دہشت گردی کو جنم دیتی ہیں۔ دہشت گردی کی ایک اہم وجہ بنیادپرست اور مذہبی جنونی قوتوں کی سرکاری سر پرستی ہے۔ اس سرپرستی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مندرجہ بالا دو واقعات اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ خادم رضوری سے لیکر مسعود اظہر اور حافظ سعید تک، سب مزے میں ہیں۔ مدرسے اپنی جگہ موجود ہیں۔ لشکر اور جیش کام کر رہے ہیں۔ نفرت کے نصاب اسکول سے لے کر میڈیا تک، نظریات تشکیل دینے والے سب ادارے دن رات پڑھارہے ہیں۔ فرقہ واریت بڑھ رہی ہے۔ فرینکنسٹائن پالے جا رہے ہیں۔ پالے پوسے جانے والے فرینکنسٹائن ایک مرتبہ پھر حملہ آور ہوں گے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔