فاروق سلہریا
31 مئی 2018ء کی بات ہے۔ فیس بک پر سرگودھا کے کسی دوست نے یہ خبر شیئر کی کہ فاروق بندیال کو پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ مل گیا ہے۔
اس پوسٹ میں ایک تصویر بھی تھے: عمران خان فاروق بندیال سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ میں سالہا سال بعد یہ نام دوبارہ سن رہا تھا۔پہلی بار یہ نام کانوں میں سرگودھا میں جب گونجا جب میں نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔
شہ سرخیوں کی سمجھ تو بعد میں آئی لیکن ہر اخبار میں کئی دنوں،شائد مہینوں تک ’شبنم ڈکیتی کیس‘ کا ذکر رہا۔ تب اتنی ہی سمجھ آ سکی تھی کہ اداکارہ شبنم…جنہیں ملک کا بچہ بچہ جانتا تھا کیونکہ وہ ملک کی اہم ترین فلمسٹار تھیں…کے گھر ہونے والی ڈکیتی کا اہم مجرم فاروق بندیال سرگودہا سے تعلق رکھتا ہے۔
جوں جوں بڑے ہوتے گئے پتہ چلا کہ ڈکیتی کی اس واردات میں شبنم کے بیٹے اور شوہر، موسیقار روبن گھوش، کے سامنے فاروق بندیال نے انسانیت کو تار تار کیا۔
اس کیس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے عمران خان کو یہ ریپ کیس یاد نہ ہو؟ اس کے باوجود جنرل ضیا الحق کے منہ بولے بیٹے نے فاروق بندیال کو ٹکٹ جاری کر دیا۔
میں نے غصے میں ایک فیس بک پوسٹ لکھی۔ کسی وجہ سے وہ پوسٹ وائرل ہو گئی۔ ٹکٹ تومنسوخ ہو گئی مگر ٹکٹ دینے والا پارٹی رہنما اب ملک کا وزیر اعظم ہے اور وزیر عظم کا خیال ہے کہ ریپ روکنے کے لئے مجرموں کو نامرد بنا دیا جائے، انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے (ہم ایسی سزاوں کے خلاف ہیں ورنہ کہتے کہ خان صاحب اپنی پارٹی سے بسم اللہ کیجئے)۔
جہاں تک تعلق ہے لالی وڈ کی ٹاپ ہیروئن شبنم کا جس نے پاکستانی کلچر کو اتنا طاقتور بنایا، وہ اب بنگلہ دیش میں رہتی ہیں۔ کتنی ہی لازوال دھنوں کے خالق روبن گھوش بھی شبنم کے ہمراہ یہ ملک چھوڑ گئے۔
سنا ہے فاروق بندیال خوشاب کے ان داتا ہیں۔
آج صبح سینیٹر پرویز رشید کی ایک ٹویٹ نظر سے گزری۔ جس میں انہوں نے ’کیپٹن حماد‘ کا ذکر کیا تھا اور لوگوں کو بتایا تھا کہ کپتان صاحب اب کرنل بن چکے ہیں۔
کپتان صاحب کو چونکہ جنرل مشرف نے کلین چٹ دے دی تھی اس لئے کسی بھی قسم کا کمنٹ ان دنوں خطرے سے خالی نہیں۔ صرف اتنا یاد دلانا تھا کہ ڈاکٹر شازیہ کو بھی ملک چھوڑنا پڑا۔ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ غالباً لندن میں رہتی ہیں۔
نوے کی دہائی میں بھی ایک ریپ کیس ہوا تھا جس نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ساتھی سردار شوکت علی کی بیٹی وینا حیات کو، کہا جاتا ہے بے نظیر بھٹو سے دوستی کی پاداش میں، ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ بے نظیر نے خود اس ظلم کا الزام عرفان مروت پر لگایاجو اُن دنوں کراچی میں ڈی آئی جی تھے اور اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کے داماد۔
شائد قارئین کو یاد ہو کہ عرفان اللہ مروت کو تین سال پہلے’آصف علی زرداری: سب پر بھاری‘نے پیپلز پارٹی میں شامل کر لیا۔ یہ حرکت اتنی شرمناک تھی کہ مسٹر زرداری کی اپنی بیٹیوں نے بغاوت کر دی۔
رہی بات وینا حیات کی تو وہ بھی نوے کی دہائی میں ملک چھوڑ گئی تھیں۔
یہ ملک ریپ وکٹمز کے لئے نہیں ہے۔ یہ ملک بندیالوں، حمادوں، مروتوں اور…ان کے پارٹی لیڈروں کے لئے ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔