دنیا

مسٹر ’میں نہ مانوں‘ کی شکست میں امریکہ کی ایشائی اقلیتوں کا ہاتھ!

قیصر عباس

تازہ اطلاعات کے مطابق مسٹر ’میں نہ مانوں‘ نے آخر کار امریکی انتخابات میں اپنی شکست کو بالواسطہ طورپرتسلیم کر لیا ہے اگرچہ انہوں نے ابھی تک اپنے حریف کی کامیابی کا با ضابطہ اعتراف نہیں کیا۔

انتخابات کے بعد صدر نے کئی ریاستوں میں نتائج کو چیلنج کیا لیکن ان مقدمات میں اپنے خلاف ہونے والے متعدد عدالتی فیصلوں کے بعد صدر ٹرمپ اب اس حقیقت سے واقف ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ یہ انتخاب ہار گئے ہیں۔ انہوں نے منتخب صدر جو بائیڈن کو حساس اداروں کی جانب سے ملکی امورپر سکیورٹی کی بریفنگ اور اقتدار کی منتقلی کے لئے سرکاری اخراجات کی منظوری بھی دے دی ہے۔

ادھر جو بائیڈن نے اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے اعلان کا آغازکرتے ہوئے اپنے منشور اور پالیسیوں پر ماہرین اور سیاسی رفقا ئے کار سے مشورے بھی شروع کر لئے ہیں۔ ان تمام اقدامات سے جنوری میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نئے صدر کے حلف اٹھانے کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں۔

امریکی انتخابات میں عام طور پر اقلیتوں اور خواتین کی شمولیت کو اہم سمجھا جاتا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کو اس سال کے انتخابات میں جتنی اہمیت دی گئی اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق انتخابات میں جو بائیڈن کی جیت کاسہرا امریکہ کی اقلیتوں اور خواتین کے سر جاتا ہے جن میں ایشیا ئی امریکی بھی شامل ہیں۔

امریکہ میں ایشیائی شہری ملک کی آبادی کا چھ فیصد ہیں جن میں تقریباً پانچ فیصد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ ایشیا پسیفک ووٹرز کی امریکی تنظیم ’AAPI‘ کے اندازوں کے مطابق ان تارکین وطن کی تعداد د وسری تمام اقلیتوں کے مقابلے میں انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

تنظیم کے مطابق ایشیائی امریکیوں کی آبادی میں حالیہ برسوں میں زیا دہ تر اضافہ نویڈا، نارتھ کیرولائینا اور ایریزونا کی ریاستوں میں دیکھنے میں آیا ہے لیکن نیویارک، کیلیفورنیا اور ہوائی میں یہ اضافہ سب سے زیادہ رہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کیلیفورنیا میں ایشیائی شہریوں کی تعداد چودہ فیصد، نویڈا میں آٹھ فیصد، نیویارک، نیو جرسی اور واشنگٹن اسٹیٹ میں سات فیصد اور میری لینڈ میں پانچ فیصدہے۔

ایشائی امریکی ووٹرز نے حالیہ انتخابات میں اگر فیصلہ کن نہیں تو اہم کردار ضرور ادا کیاہے۔ اگرچہ ابھی تک کوئی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں لیکن اندازوں کے مطابق اس سال کے صدارتی انتخابات میں ایشیائی امریکی ووٹرز کا فیصلہ جو بائیڈن کے حق میں رہا۔ ان اندازوں کی تصدیق الیکشن سے پہلے کی جانے والی پیش گوئیوں میں بھی کی گئی تھی۔

’AAPI‘ اور دوسری تنظیموں کے الیکشن سے پہلے کئے گئے ایک سروے میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ تقریباً نصف سے زیادہ ایشیائی ووٹر جو بائیڈن کو ووٹ دیں گے۔ ان میں انڈیا کے تارکین کی اکژیت شامل تھی جب کہ چودہ فیصد کسی امیدوار کے حق میں نہیں تھے۔ سر وے میں یہی رجحان کانگریس کے دونوں ایوانوں کے انتخابات میں بھی نظر آنے کی امید ظاہر کی گئی تھی اگرچہ ویت نامی ووٹروں نے ریپبلکن امیدواروں کو ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔

انتخابات کے نتائج بھی ان اندازوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ این بی سی ٹی وی کے ایک ایگزٹ پول کے مطابق 63 فیصد ایشائی ووٹرز نے اس سال انتخابات میں جو بائیڈن کو ووٹ دئے اور 31 فیصد نے ٹرمپ کو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں ایشیائی ووٹرز کو اہمیت دی اور ان کے مسائل کو اپنے اشتہارات میں نمایا ں جگہ دی۔

ریپبلکن پارٹی کے مقابلے میں، جو تارکین وطن کے لئے غیر ہمدردانہ رویہ اپنائے ہوئے نظر آئی، ڈیموکریٹک پارٹی نے اس گروپ کے مسائل حل کرنے کے وعدے کئے۔ بائیڈ ن نے اپنی تقریروں میں مسلمانوں پر امیگریشن کی پابندیوں کی مخالفت کی اور ملک میں موجود غیر قانونی تارکین کے بچوں کو شہریت دینے کی حمائت جاری رکھی۔ مجموعی طورپر ان بنیادی پالیسیوں کی بنیاد پر ایشیائی ووٹروں کی اکثریت نے جو بائیڈن کو ووٹ دئے۔

ایشیائی امریکی، جو ملک میں اقتصادی طور پر خاصی مستحکم اقلیت تسلیم کئے جاتے ہیں، صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے خصارے میں رہے۔ کرونا وائرس اور اس سے متعلق امریکہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے ایشیائی ووٹرز ایک بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔ کیلیفورنیا کی یونیورسٹی ’UCLA‘ کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں تراسی فیصد ایشیائی نوجوانوں نے بے روزگاری الاؤنس کے لئے درخواستیں دی ہیں۔ نیویارک میں بھی یہ تارکین وطن بے روز گاری سے متاثر ہوئے ہیں۔

عملی طورپرصدر ٹرمپ نے شروع ہی سے اقلیتوں اور تارکین وطن کے خلاف اپنے بیانیوں سے انہیں ناراض کرنا شروع کردیاتھا۔ ایک طرف تو انہوں نے افریقی النسل امریکیوں کے پولیس کے ہاتھوں تشدد اور ہلاکتوں میں انتظامیہ کا ساتھ دیا اور دوسری طرف تارکین وطن کے خلاف انتظامی اور قانونی اقدامات کا آغاز کرکے ایشیائی اور لاطینی امریکی ووٹروں کو بھی ناراض کیا۔

اس سال کے انتخابات میں دونوں صدارتی امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ تھا جس میں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بہت کم ووٹوں سے بھی ممکن تھا۔ شاید اسی لئے دونوں جماعتوں نے افریقی النسل اور لاطینی امریکیوں کے علاوہ، جو ملک کی دو بڑی اقلیتیں شمار کی جاتی ہیں، مسلمانوں، ہندوؤں، ایشیائی ووٹروں اور ان شہریوں کے حقوق کی بات کی جن کا تذکرہ عام انتخابات میں بہت کم ہوتاہے۔

دیکھاگیا ہے کہ رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی بیشتر پالیسیوؤں میں عام لوگوں کے مفاد کے بجائے سرمایہ داروں اور اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کی جاتی ہے لیکن اس سال ڈیموکریٹک پارٹی کھل کر اقلیتوں اور پسے ہوئے طبقات کی حمایت کی اور یہی اس کی جیت کی سب سے اہم وجہ ہے۔

معاشرے کے ان طبقات کی نظر اب آئندہ چار سالوں کے دوران برسراقتدار پارٹی کی کارکردگی پر ہو گی تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے یہ صرف سیاسی وعدے ہیں یا جو بائیڈن ان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔