حارث قدیر
عصمت اللہ نیازی کہتے ہیں کہ بھاری تنخواہوں پر سیاسی بنیادوں پر آنے والے لوگ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی تباہی کا موجب ہیں۔
عصمت اللہ نیازی 30 سال سے زائد عرصہ پی ٹی وی کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ انہوں نے 1986ء میں بطور نیوز پروڈیوسر پی ٹی وی کے ساتھ اس سفر کا آغاز کیا تھا۔ 2013ء میں پی ٹی وی ورلڈ (انگریزی چینل) کی بنیاد ڈالنے والی ابتدائی ٹیم میں شامل رہے اور بطور کنٹرولر نیوز انگریزی زبان کے اس چینل میں خدمات سرانجام دیں۔ آپ آج کل مختلف نجی میڈیا اداروں کیلئے مضامین لکھ رہے ہیں۔
حال ہی میں نعیم بخاری کو پی ٹی وی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ میرٹ کی بات کرنے والی موجودہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر میرٹ کی خلاف ورزی کی اور پرانی حکومتوں کی اس روایت کو برقرار رکھا کہ سیاسی بنیادوں پر من پسند افراد کو پی ٹی وی پر مسلط کیا جو ایک پبلک براڈکاسٹنگ کا ادارہ ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز ’روزنامہ جدوجہد‘ نے عصمت اللہ نیازی کا ایک خصوصی انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا، کیا ان پچاس سالوں میں پی ٹی وی ایسے لوگ نہیں پیدا کر سکا جو اس کے معاملات سنبھال سکیں۔ کیوں اہم عہدوں پرباہر سے تقرریاں ہوتی ہیں؟
عصمت اللہ نیازی: اصل مسئلہ ہی باہر سے سیاسی بنیادوں اور بھاری تنخواہوں پر بھرتی ہونے والے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ 1998ء سے باقاعدہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ 1998ء تک کا دور پی ٹی وی کا گولڈن دور قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکومت نے سیاسی بنیادوں پر کارپوریٹ سیکٹر سے لوگوں کو اس بہانے سے لایا کہ پی ٹی وی کو ایک کارپوریٹ ادارہ بنایا جائے گا، درحقیقت یہ اقدام اپنے لوگوں کو نوازنے کیلئے کیا جا رہا تھا۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
انتظامی اور مالیاتی عہدوں پر کب سے سیاسی بھرتیوں کا آغاز ہوا؟
عصمت اللہ نیازی: پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں پرائیویٹ سیکٹر سے منیجنگ ڈائریکٹر کی تعیناتی پی ٹی وی میں کی گئی، جو کچھ عرصہ ہی کام کر سکے۔ اس کے بعد 1998ء میں یوسف بیگ مرزا کو ایم ڈی تعینات کیا گیا جو پانچ سال تک رہے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ وہ ریونیو بہتر کریں گے، پروڈکشن کو بہتر کریں گے اور دیگر اصلاحات کرتے ہوئے پی ٹی وی کو بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) کی طرز پر چلائیں گے۔ بی بی سی تو خیر کیا بنتا وہ پی ٹی وی بھی نہیں رہا۔
پہلے پی ٹی وی کا چیئرمین سیکرٹری اطلاعات ہوتا تھا۔ پہلی مرتبہ 1997ء میں سینیٹر پرویز رشید کو پی ٹی وی کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کو بطور چیئرمین و ایم ڈی اکٹھا چارج دیا گیا۔ انہیں صحافی بھی نہیں مانا جاتا، پیراشوٹر کہا جاتا ہے اور صحافتی حلقوں میں اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا لیکن انہوں نے پی ٹی وی میں کچھ بہتر کام بھی کئے۔ پھر نواز دور میں عطا الحق قاسمی اور پھر تیسری مرتبہ ارشد خان کی تقرری کی گئی جنہیں اب عدالت نے فارغ کیا۔ وہ نہ تو صحافی تھے اور نہ ہی ٹیلی ویژن کا کوئی تجربہ تھا وہ ایک ٹیلی کام پروفیشنل تھے۔ اب نعیم بخاری کی تقرری کی گئی ہے۔
چیئرمین کے اختیارات کیا ہوتے ہیں، تنخواہ کتنی ہوتی ہے اور نعیم بخاری کیا بہتری لا سکتے ہیں؟
عصمت اللہ نیازی: پی ٹی وی میں چیئرمین کا عہدہ اعزازی ہوتا ہے۔ چیئرمین کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی، نہ ہی انتظامی اور مالی اختیارات ہوتے ہیں۔ چیئرمین کو اعزازیہ ملتا ہے، کہ مراعات ہوتی ہیں، گاڑیاں اور سٹاف وغیرہ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ چیئرمین بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے، بجٹ بورڈ منظور کرتا ہے، تقرریوں کے فیصلہ جات بورڈ کرتا ہے اور قوانین میں تبدیلیاں بورڈ کرتا ہے۔
نعیم بخاری کو ایک روز قبل ہی بورڈ نے چیئرمین منتخب کیا ہے۔ ابھی تک انہوں نے مراعات وغیرہ تو نہیں لیں، نہ ہی گاڑی اور سٹاف لیا، مستقبل کے بار ے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ نعیم بخاری کا ایک پلس پوائنٹ بھی ہے کہ وہ پی ٹی وی کو جانتے ہیں، پی ٹی وی پر مختلف پروگرامات کی میزبانی کرتے رہے ہیں، کئی مقدمات میں بھی پی ٹی وی کی بطور وکیل پیروی کر چکے ہیں۔
بہر حال نعیم بخاری کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہی کی گئی ہے۔ 68 سال کا ایک آدمی اگر سیاسی بنیادوں پر باہر سے لیا جا سکتا ہے تو پی ٹی وی کے بے شمار ریٹائرڈ لوگ ہیں جن کا وسیع تجربہ ہے، انکے ذریعے سے پی ٹی وی کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی کے اندر موجود سٹاف کو بھی ان انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی وی کے پیشہ ور لوگوں نے ہی پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر کی بنیادیں ڈالی ہیں۔ اب پرائیویٹ سیکٹر میں نئے لوگ بھی تیار ہو گئے ہیں لیکن جو پی ٹی وی کے لوگ پرائیویٹ سیکٹر کو چلا سکتے ہیں وہ پی ٹی وی کو اور زیادہ بہتر بنیادوں پر چلا سکتے ہیں۔
پی ٹی وی خسارے میں کیوں ہے، آپکی نظر میں اس وقت کیا بڑی خرابیاں ہیں؟
عصمت اللہ نیازی: پی ٹی وی سمیت تمام ریاستی میڈیا ادارے چاہے کسی بھی ملک کے ہوں انکا کام منافع حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ دنیا کے بڑے بڑے ادارے حکومتی فنڈنگ پر چلائے جاتے ہیں۔ ان اداروں کا کام پارلیمان کی طرف سے بنائے گئے قومی بیانیہ اور ایجنڈا کو آگے لے جانا ہوتا ہے۔ حکومت کو مختلف سیکٹرز میں مسائل کی نشاندہی یہ ادارے کرتے ہیں، دنیا بھر میں اطلاعات کے مستند ذرائع ریاستی اداروں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
پی ٹی وی ہمیشہ خسارے میں بھی نہیں رہا، نوے کی دہائی میں پی ٹی وی زبردست منافع بخش ادارہ تھا۔ نوے کی دہائی میں ایک سال میں پانچ پانچ بونس بھی سٹاف کو دیئے گئے، ہر ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی ترجیح پی ٹی وی ہوتی تھی۔ پرائیویٹ سیکٹر سے بھاری تنخواہوں اور مراعات پر لائے جانے والے لوگوں نے پی ٹی وی کو تباہ کیا ہے۔ ان لوگوں کے پاس پبلک سیکٹر براڈ کاسٹ آرگنائزیشن چلانے کا تجربہ نہیں ہوتا، سیاسی بھرتیاں کرتے ہیں، اقربا پروری اور کرپشن میں مصروف رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک منافع بخش ادارہ نہ صرف بھاری خسارے میں چلا گیا بلکہ اسکی ادارتی پالیسی اور مواد کی تیاری کا تسلسل بھی تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔
آج بھی پی ٹی وی کی سالانہ آمدن 11 ارب روپے سالانہ کے لگ بھگ ہے لیکن پھر بھی یہ ادارہ خسارے کا شکار ہے۔ عوام سے پیسے وصول کر کے یکطرفہ مواد دکھایا جا رہا ہے۔ پی ٹی وی کے بہت بڑے اثاثے ہیں جن کی مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ ان اثاثوں کو سنبھالنے پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ ری براڈ کاسٹ سینٹر بنانے کا زمانہ اب نہیں رہا، پہلے سے بنے ہوئے سنٹرز خالی پڑے ہوئے ہیں۔
پی ٹی وی کے ملازمین کو فارغ کرنے اور چھانٹیوں کی حکومتی پالیسی خسارے کم کرنے کا باعث ہو گی؟
عصمت اللہ نیازی: پی ٹی وی میں تنخواہوں کے درمیان تفاوت کو دیکھ کر ہی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر باہر سے پی ٹی وی میں لایا جاتا ہے انکی تنخواہوں اور پی ٹی وی کے اپنے لوگوں کی تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
مثال کے طور پرپی ٹی وی میں سب سے زیادہ تنخواہیں ڈائریکٹرز کی ہوتی ہیں جو آج بھی زیادہ سے زیادہ تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت نے چھوٹے ملازمین کو فارغ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے تو دوسری طرف انتظامی عہدوں پربھاری تنخواہوں اور پیکیجز پر بھرتیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ تقرریاں 10 سے 22 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہوں اور مراعات پر کی جا رہی ہیں۔ ایم ڈیز کا ٹیکس بھی پی ٹی وی دیتا ہے، انکے تین تین ماہ کی نوکریوں کے بعد لاکھوں روپے انکریمنٹس بھی لگتے ہیں اور لاکھ، ڈیڑھ لاکھ پر کام کرنے والوں کو فارغ کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی وی کو بی بی سی بنانے کیلئے لائے جانے والے ان انتظامی عہدیداروں کی تنخواہیں کروڑوں میں بنتی ہیں جبکہ باقی سٹاف کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں۔
یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پالیسی پی ٹی وی کو خسارے سے باہر نکالنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے لوگوں کو ہی نئے طریقے سے بھرتی کرنے کیلئے اپنائی جاتی ہے۔ گزشتہ بیس سال کے دوران تعینات ہونے والے ایم ڈیز کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا رہا اور پی ٹی وی خسارے میں جاتا رہا۔ آج بھی کروڑوں روپے کے کرپشن کیسوں کی فائلیں دبی ہوئی ہیں، بے تحاشہ سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں لگائے گئے ایک بی اے پاس ایم ڈی نے ایک انتخابی حلقے کے نتائج کی خبر صرف اس وجہ سے نہیں چلانے دی کیونکہ وہاں سے ن لیگ کا امیدوار ہار گیا تھا۔
پی ٹی وی کو درپیش ان بے تحاشہ مسائل کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟
عصمت اللہ نیازی: پی ڈی وی کی آج بھی جتنی ڈپتھ ہے اتنی کسی نجی سیکٹر کے ادارے کے پاس نہیں ہے۔ سیٹلائٹ پر موجود ہے، زمینی نیٹ ورک بہت بڑا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی وی ملک کے طول و عرض میں پیغام پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایڈورٹائزرز کیلئے آج بھی پی ٹی وی سے اچھا کوئی میڈیم موجود نہیں ہے لیکن موجودہ طرز پر پی ٹی وی کو نہیں چلایا جا سکتا۔
سب سے پہلے عوام کی جیبوں سے نکلنے والے ماہانہ 35 روپے کو جسٹیفائی کرنا پڑے گا۔ بیلنس ادارتی پالیسی بنانی پڑے گی، کونٹینٹ مینجمنٹ میں اصلاحات کرنا ہونگی، بھاری مراعات اور تنخواہوں پر بھرتی کئے جانیوالے غیر تجربہ کار انتظامی عہدوں کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ ایچ آر میں عدم توازن کا خاتمہ کرنا ہو گا، یہ طے کرنا ہو گا کہ کتنے لوگوں کی ضرورت ہے۔
پی ٹی وی جب شروع ہوا تھا تب 6 پروڈیوسرز کیلئے ایک اکاؤنٹس اور ایک ایڈمنسٹریشن کا فرد تعینات کیا جاتا تھا۔ اب ایک پروڈیوسر کیلئے دس اکاؤنٹس اور دس ایڈمنسٹریشن کے افراد بھرتی ہیں۔ پی ٹی وی اکیڈمی، جو اب ختم ہو کر رہ گئی ہے اور ناپسندیدہ ترین لوگوں کو بطور سزا اکیڈمی بھیجا جاتا ہے، کو دوبارہ بحال کرنا ہو گا۔ پی ٹی وی اکیڈمی کو ایک فعال ادارہ بنایا جا سکتا ہے جو ڈگری کورس، ڈپلومہ کورس اور دیگر تربیتی پروگرامات چلا سکتا ہے۔
پارلیمانی کمیٹیاں فی الحال سیاسی بیانات دینے اور اپنی من پسند بھرتیاں کروانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کو ایم ڈی کی سلیکشن کرنی چاہیے اور ایم ڈی کو پارلیمانی کمیٹی کے سامنے جوابدہ بھی ہونا چاہیے۔ پارلیمان کے ماتحت ایک خود مختار اور متوازن ادارتی پالیسی کے ذریعے ہی پی ٹی وی کو چلایا جا سکتا ہے۔
ڈرامہ اور انٹرٹینمنٹ پروگرامات خریدنے پربے تحاشہ کرپشن ہوتی ہے، پروڈیوسرز کو اگر رکھا گیا ہے تو ان سے کام لیا جانا چاہیے، اپنے ڈرامے پروڈیوس کرنا ہونگے، سیٹیزنز جرنلزم کو فروغ دینے کیلئے شہروں میں موجود عمارتوں کو استعمال کر کے ریونیو کمایا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیشہ ور لوگوں کے ذریعے سے ہی یہ ادارہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسے بی بی سی بنانے والی کوشش ترک کر کے پی ٹی وی ہی بنا لیا جائے تو بہتر ہے۔