علی مدیح ہاشمی
ترجمہ: ایف ایس
”زیادہ طاقت ملنے کے بعد زیادہ ذمہ داری بھی اٹھانا پڑتی ہے“: انکل بین ”اسپائڈر مین“۔
مجھے حال ہی میں دوسرے شہر میڈیکل کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی۔ یہ میرے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں۔ غیر معمولی بات یہ تھی کہ کانفرنس کے لئے دعوت نامہ ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کی طرف سے تھا۔ ایک چمک دار بروشر کے ساتھ جس میں کمپنی کی کئی دوائیوں کا اشتہار دیا گیا تھا۔
میں 15 سال قبل امریکہ میں کام کرنے کے دوران معالجین اور دوا ساز کمپنیوں (جن کو عام طور پر ’فارما‘ کہا جاتا ہے) کے مابین تعلقات سے متعارف ہوا تھا۔ دیگر تمام تجارتی تعلقات کی طرح یہ تعلق بھی مشترکہ مفادات پر مبنی ہے۔ فارما ادویات اور طبی طریقہ کار تیار کرتی ہیں جسے معالجین ہر قسم کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں لہٰذا کسی بھی طرح کا رابطہ برقرار رکھنا فریقین کے مفاد میں ہے۔ معالجین کو نئے طبی طریقہ کار کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور فارما کو ان کے ذریعے اپنی مصنوعات کے لیے نئے گاہک ملتے ہیں۔ تاہم دیگر تجارتی تعلقات کی طرح، مفادات کا ٹکراؤ اور اخلاقی دھوکے یہاں بھی متعدد سطحوں پر موجود ہیں۔
امریکہ قیام کے دوران مجھے کئی فارما مصنوعات کے لئے ’پروموشنل اسپیکر‘ بننے کے لئے مدعو کیا گیا۔ اس کے لئے ابتدائی طور پر ہمیں فارما کمپنی کے زیراہتمام میڈیکل کانفرنس میں شرکت کرائی گی (جو عام طور پر کسی پرفضا مقام پر منعقد ہو تی ہے اور جس کے تمام اخراجات فارما ادا کرتی ہے)۔ ہفتہ بھر پینے پلانے اور کھانوں کے دوران ہمیں نئی دوا، انجیکشنوں اور دیگر چیزوں کے بارے میں ’سمجھا بجھا‘ دیا گیا۔ سمجھانے بجھانے کا کام معروف معالج، ماہرین تعلیم، محققین اور ہمارے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد انجام دیتے ہیں، جنھوں نے نئے طبی طریقہ کار کی افادیت پر اپنی تحقیق (عام طور پر فارما کے زیر اہتمام) پیش کی ہوتی ہے۔ ہمیں لوگوں کے سامنے بولنے کی تربیت دینے کے لئے ایک یا دو سیشن بھی ہوئے۔
گھروں کو واپسی پر مقامی فارما کے نمائندوں نے ہم سے رابطہ کیا تاکہ ہم ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے عملے سے بات کریں۔ یہ بات چیت عام طور پر مقامی ریستوران یا ہوٹلوں میں ہوتی تھی۔ ہمیں پروڈکٹ کے بارے میں سلائیڈز فراہم کی جاتیں۔ ڈاکٹرز، نرسیں اور کبھی کبھار ہسپتال یا کلینک کی انتظامیہ عام طور پر ہمارے سامعین ہوتے، ہم فارما کی فراہم کردہ معلومات اور اپنے تجربے کو ملا جلا کر ایک سے دو گھنٹوں تک سوالات کے جوابات دیتے۔ اس پوری مشق کو ’تعلیم‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن حقیقت میں یہ فارما مصنوعات کا انتہائی پردہ پوش اشتہار تھا، جو فارما کے تجارتی نمائندوں کے بجائے ڈاکٹروں کے ذریعہ پیش کیا گیا تاکہ مصنوعات کی وقعت کو بڑھایا جا سکے۔ ایک سے دو گھنٹے کے اس سیشن کیلئے ہمیں معقول معاوضہ دیا گیا۔
میرے ان سرگرمیوں کے بارے میں ہمیشہ اخلاقی تحفظات رہے۔ کئی بار اس ضمن میں رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش میں سینئر ڈاکٹروں اور ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ ان میں سے بیشتر نے بھی مذکورہ سیشنوں میں شرکت کی ہوتی لہٰذا خود کو تسلی دیتے کہ ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے۔ ظاہر ہے معقول معاوضے نے ہمارے مجرمانہ ضمیر کی ڈھارس بندھانے میں مدد کی۔
کئی سال بعد اب میں لاہور کے ایک بڑے میڈیکل ادارے میں رہتا اور پڑھاتا ہوں۔ واپسی کے پہلے سال کئی دوا ساز کمپنیوں نے مجھ سے کانفرنسوں میں شرکت کرنے اور لیکچر دینے کیلئے رابطہ کیا لیکن میں نے ہر بار انکار کر دیا۔ امریکہ میں ان مشکوک سرگرمیوں کے باوجود، قانون نے ہمارے مریضوں اور عوام کی حفاظت کی۔ ایسی پروموشنل سرگرمیاں کرنے والوں کو متعدد قانونی معاہدوں پر دستخط کرنا پڑتے تھے جن میں یہ بتایا جاتا تھا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یا کیا کہہ سکتے ہیں۔ ان تمام معاہدوں میں ہمیں خاص طور پر پابند کیا جاتا کہ ہم کسی عوضانے یا تحفے کے بدلے کوئی خاص دوا تجویز نہ کریں اور نہ ہی دوسروں کو ایسا کرنے کیلئے کہیں۔ فارما کمپنیاں اس بارے میں بہت محتاط تھیں۔ ان کے قانونی شعبے ہمیں طویل آگاہی دیتے کہ سامعین کے سامنے کیا نہیں کہنا۔ یہ ان کے اپنے تحفظ کے لئے تھا۔ جب میں امریکہ میں تھا، متعدد بڑی کمپنیوں کو اخلاقی معیارات کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے ہوئے۔
پاکستان میں مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں اخلاقی معیار سے غفلت برتی جاتی ہے اور قانونی پابندیوں کا وجود ہی نہیں۔ پاکستان واپسی کے پہلے سال ہی میں نے ڈاکٹروں کو نقد رقوم کی صورت رشوت دینے، بیرون ملک کے سفر، کاروں کے تحفے، گھروں اور دفاتر کے لئے ایئرکنڈیشنر اور دیگر پرکشش ترغیبات کی کہانیاں سن لی تھیں۔ میں نے جلد ہی فیصلہ کر لیا کہ اس گندگی سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فارما کے ساتھ کوئی رابطہ نہ رکھا جائے۔
لاہور قیام کے پہلے یا دوسرے سال کچھ مہم جو قسم کے فارما نمائندوں نے مجھے کسی پہاڑی مقام پر ’تعلیمی مذاکرے‘ یا ’میڈیکل کانفرنس‘ میں شرکت کیلئے اکسایا۔ میں نے بڑی شائستگی سے انکار کر دیا۔ ایک دفعہ ایک ڈھیٹ قسم کے نمائندے نے مجھے بتایا کہ اس نے میرے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے اجازت لے لی ہے، لہٰذا اعتراضات کے باوجود مجھے اس کی بات سننا پڑے گی، میں اپنے غصے پر قابو نہ پا سکا اور اسے اپنے دفتر سے باہر نکال دیا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس واقعہ کی خبر پھیلنے کے بعد پھر کسی فارما نمائندے نے مجھ سے کسی سرگرمی کیلئے رابطہ نہیں کیا۔
میرے لیے اب بھی یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹر حضرات فارما کمپنیوں سے فائدے اور رقوم قبول کرتے ہوئے اخلاقی معیارات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ مریضوں میں شعور کی سطح کم ہے کہ انہیں اندازہ ہو سکے ان کی صحت اور زندگی کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی ڈاکٹر کسی دوا کو اس لیے تجویز کر رہا ہے کہ آپ کی بیماری کو اس کی ضرورت ہے یا اس وجہ سے کہ کمپنی نے غیر ملکی سفر کے لئے اس کی ادائیگی کر رکھی ہے۔ کیا آپ کو صحت کی بہتری کیلئے آپریشن یا طبی آلا تجویز کیا جارہا ہے یا اس وجہ سے کہ کمپنی نے ڈاکٹر کو کار خرید کر دی ہے یا اس کے بچوں کی سکول فیس ادا کی ہے؟ کیا آپ کو مہنگی دوائیں تجویز کی جا رہی ہیں جب کہ سستی بھی کارگر ہیں، لیکن آپ کے ڈاکٹر فارما کمپنی کے مقروض ہیں، اس لیے یہ متبادل دوا نہیں لکھ رہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو تمام مریضوں کو اپنے ڈاکٹروں سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں صحت سے متعلق اخلاقیات تاحال ابتدائی دور میں ہیں۔ بیشتر ڈاکٹروں نے ایسے نظام میں تربیت پائی ہے جہاں فارما کمپنیوں سے رشوت لینا معیوب نہیں۔ ان کے سینئرز نے ایسا کیا، اس لئے انہوں نے بھی یہی سیکھا۔ قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی اخلاقی معیارات کی خوفناک خلاف ورزیاں مجرمانہ حد تک پہنچ چکی ہیں۔ میں نے جن فارما کمپنیوں کے عہدیداروں سے اس مسئلے پر بات کی ہے وہ سب اصلاحات کے حق میں ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ڈاکٹروں کو رشوت دینا یا نسخوں کے بدلے ہوٹلوں میں غیر قانونی ضیافتوں کا بندوبست کرنا اچھا محسوس نہیں ہوتا لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہی کاروبار کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ اس کاروبار اور شاید اپنی ملازمت سے محروم ہو جائیں گے۔
اس کا حل بہت آسان ہے، حکومت کو نئے بااختیار ہیلتھ کیئر کمیشن کے ذریعہ فزیشن، فارما رابطہ کاری کو آگے بڑھانا اور اس کو منظم کرنا ہو گا۔ مجرمانہ لڑیچر کو سنسر کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ بضد رہیں تو ان کے دوائی فروخت کرنے کے لائسنس معطل یا منسوخ کردیئے جائیں۔ ڈاکٹر تنظیموں کو اپنے ارکان کی نگرانی کے لئے انتباہ اور سنسر کے اجرا کے لئے سرگرم عمل ہونے کی ضرورت ہے۔ فارما کمپنیوں کو ایک رضاکارانہ ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس کی تمام فارما نمائندے پابندی کریں۔ انسانی زندگی قیمتی ہے اور جو لوگ اس کی حفاظت کے لئے قسم کھاتے ہیں ان کو اعلی معیار پر قائم رہنا چاہئے۔ ڈاکٹرز اور صحت سے متعلق پیشہ ور افراد ہماری زندگی اور موت کیلئے طاقت رکھتے ہیں لیکن اس طاقت کے ساتھ بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے