عمران کامیانہ
عوام کو درپیش سنگین معاشی و سماجی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے حکمران طبقے کی آپسی نورا کشتیوں جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال تو اس ملک کی ہر حکومت گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہی ہے۔ لیکن اس عمل میں موجودہ حکومت جس طرح کی شدت اور جدت لائی ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لیکن ایک طرف تویہاں کی ازل سے بحران زدہ معیشت کو اب باقاعدہ دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔ نظام کا بحران اتنا شدید ہے کہ اس نام نہاد ”جمہوریت“ کی ڈوریاں ہلانے والے خود بھی کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ دوسری طرف درمیانے طبقے کی حمایت یافتہ پارٹی کی یہ حکومت ویسے ہی بھانت بھانت کے نودولتیوں اور اپ سٹارٹ قسم کے سستے نوسر بازوں پر مبنی ہے۔ اس لئے ان کا طرز عمل زیادہ ڈھٹائی پر مبنی ہے اور طریقہ واردات بھی زیادہ بھونڈا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو دنوں کے دوران جس طرح آصف زرداری اور پھر حمزہ شہباز کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں‘ وہ کوئی حادثہ ہرگز نہیں تھا۔مقصد اکنامک سروے (جو درحقیقت دیوالیہ معیشت کی رپورٹ پر مبنی تھا) اور آئی ایم ایف کے بجٹ سے ہر ممکن حد تک توجہ ہٹانا تھا۔ جس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔
لیکن مادی حقائق حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے بھی اتنے تلخ ہوتے جا رہے ہیں کہ ان سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ اس لئے خود کو وزیراعظم سمجھنے والے ذہنی طور پر غیر متوازن شخص کو رات بارہ بجے ”قوم سے خطاب“ کرنا پڑ گیا۔ بلکہ ایک اور خطاب کرنا پڑ گیا۔جس وہ حسب روایت کنٹینر پر چڑھ کے بڑھکیں مارتا رہا۔ اسے رکھا ہی ان بڑھکوں اور لاروں کے لئے گیا ہے۔ لیکن ایسی حرکتیں کرتے ہوئے یہ حکمران شاید عوام کو بھی اپنے جتنا ہی فارغ اور احمق سمجھتے ہیں۔
جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے تو بالخصوص گزشتہ دس سال کے عرصے میں یہ ویسے ہی ایک فارمیلیٹی بن کے رہ گیا ہے۔ سال میں ایک دن باقاعدہ تماشا لگایا جاتا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن بڑی محنت سے لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی زندگیوں کے اہم فیصلے منتخب ایوانوں میں ہوتے ہیں۔
طبقاتی سماج میں ’انتخاب‘ تو روزِ اول سے ایک مکروہ فراڈ رہا ہے جس میں مارکس کے بقول لوگوں کو خود پر جبر و استحصال کرنے والے ٹولوں میں سے کسی ایک کو چننے کی آزادی ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس ملک کی حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ یہاں کے اصل حاکم اب حفیظ شیخ اور باقر رضا جیسے آئی ایم ایف کے ملازمین ہیں جن کے سامنے اس ریاست اور حکومت کا کوئی اعلیٰ ترین اہلکار بھی چوں تک نہیں کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے یہ بجٹ اصولاً کرسٹین لیگارڈ کو پیش کرنا چاہئے تھا۔ لیکن یہ سامراجی آقا بھی اتنے ویلے نہیں ہیں۔ انہوں نے اس کام کے لئے بندے‘ بلکہ پوری پوری حکومتیں رکھی ہوئی ہیں۔
ایک مستحکم معیشت میں اگلے ایک ڈیڑھ سال کی پلاننگ ممکن ہوتی ہے۔ لیکن اس معیشت کی جو حالت ہو چکی ہے‘ اگلے ایک ہفتے کی منصوبہ بندی بھی مشکل نظر آتی ہے۔ اس حکومت کو تو خود نہیں پتا کہ آنے والے کل تک برسراقتدار رہے گی یا نہیں۔
10 جون کو پیش کیے جانے والے اکنامک سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 20 میں 15 اہداف نہ صرف یہ کہ پورے نہیں ہوئے بلکہ کئی صورتوں میں اہداف اور نتائج کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ، جو سرمایہ دارانہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جیسے کلیدی اعشارئیے تو باقاعدہ منفی میں چلے گئے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو، جسے 3.2 فیصد ظاہر کیا جا رہا ہے‘ درحقیقت اس سے بھی کم ہے۔ شاید دو ڈھائی فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ ہر اعشارئیے میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ کی جاتی ہے۔ تاہم ایسی ’مینی پولیشن‘کی بھی حدود ہوتی ہے۔
پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ معیشت ویسے ہی سیاہ یا غیردستاویزی ہے جو سرکاری لکھت پڑھت میں ہی نہیں آتی ہے۔ ایسی معیشت کا بجٹ کتنی درستی سے تیار کیا جا سکتا ہے اس کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔
بجلی، پٹرول اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تو بجٹ سے کئی مہینے پہلے سے کیا جا رہا ہے اور آگے بھی کیا جائے گا۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے اور شارٹ ٹرم میں ڈالر کے 170 روپے تک چلے جانے کے امکانات ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں ہر ہفتے اضافہ ہو رہا ہے۔ دھڑا دھڑ نوٹ بھی چھاپے جا رہے ہیں اور قرضے بھی لیے جا رہے ہیں۔
مختصراً یہ کہ اصل کاروائی بجٹ سے قطع نظر جاری و ساری ہے۔ اُلٹا بجٹ میں کوشش کی جاتی ہے کہ مختلف ثانوی نوعیت کے اعداد و شمار کو موضوع بنا کے اصل میکرو اکنامک واردات کو مخفی رکھا جائے۔ مثلاً چینی کی فی کلو قیمت میں 3 روپے 65 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ خوردنی تیل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر 17 فیصد کردی جائے گی۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر 2 روپے فی کلوگرام کردی جائے گی۔ سافٹ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 11 فیصد سے بڑھا کر 14 فیصد کی جا رہی ہے۔ میٹھے مشروبات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔سی این جی بھی مہنگی کر دی گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ خوراک کی کچھ مصنوعات پر ٹیکسوں میں کمی بھی کی گئی ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا اقدامات سے بحیثیت مجموعی مہنگائی میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔
اسی طرح کم از کم قابلِ ٹیکس آمدن کی حد 12 لاکھ سے کم کر کے تنخواہ دار طبقے کے لیے چھ لاکھ اور دیگر غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے چار لاکھ مقرر کر دی گئی ہے۔ انکم ٹیکس کے تعین کرنے کے لئے موجود سلیبوں کی تعداد بھی بڑھا کے 12 کر دی گئی ہے۔جس سے درمیانے طبقے پر مزید بوجھ پڑے گا کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کیساتھ براہِ راست ٹیکس میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
یوں بالخصوص درمیانے اور نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو معمولی اضافہ کیا گیا ہے وہ یا تو ٹیکس سلیبوں کے گھن چکر (اور مہنگائی) کی نذر ہو کے صفر ہو جائے گا یا منفی میں چلا جائے گا۔
اسی طرح بنیادی یا کم از کم اجرت کا معاملہ ہے جو 10 فیصد اضافہ کیساتھ 17500 روپے کر دی گئی ہے۔ اس اجرت میں ایک خاندان تو کجا ایک انسان کا گزارہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان میں محنت کشوں کی اکثریت کو اتنی اجرت بھی نہیں مل پاتی ہے۔ یہ شرمناک حد تک قلیل اجرت اس نظام کی حکومتوں کی محنت کش طبقے کی طرف بے حسی اور تحقیر آمیز رویے کی غمازی کرتی ہے۔
لیکن ہمارے لئے زیادہ اہم معیشت کی عمومی کیفیت اور سمت کا تعین ہے۔ جس کے لئے اس بجٹ کی روشنی میں کچھ میکرو اکنامک اعشاریوں پر توجہ دینا ہو گی۔ مثلاً اگلے مالی سال میں خود حکومت کے مطابق مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک رہے گی (یعنی موجودہ شرح سے تقریباً 4 فیصد زیادہ) جو گزشتہ تقریباً دس سال کی بلند ترین شرح ہے۔ لیکن نہ صرف یہ کہ روزمرہ زندگیوں کو متاثر کرنے والی حقیقی مہنگائی حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو گی بلکہ ’سرکاری مہنگائی‘ بھی اس ہدف سے زیادہ ہی رہے گی۔
اسی طرح بجٹ کے مطابق معیشت صرف 2.4 فیصد کی شرح سے نمو پائے گی۔ آخری بار معیشت میں اتنی سست روی 2008-09ء کے بحرانی عرصے میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جب شرح نمو 2.6 فیصد تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے پندرہ سے بیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے کم از کم 8 فیصد کی شرح نمو درکار ہے۔
2.4 فیصد کی انتہائی کم شرح نمو کو بلند افراطِ زر (مہنگائی)کیساتھ ملا کے دیکھیں تو یہ ’سٹیگفلیشن‘ کی انتہائی گھمبیر صورتحال بنتی ہے جس سے غربت اور بیروزگاری میں بے نظیر اضافہ ہی ہو گا۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ عملی طور پہ معیشت نمو کی بجائے سکڑاؤ کا شکار ہو چکی ہے۔
بجٹ کا کْل تخمینہ 7022 ارب روپے ہے جو پچھلے سال سے 30 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات مجموعی طور پر 6717 ارب روپے ہوں گے جو پچھلے سال سے 19 فیصد زیادہ ہیں۔ ایف بی آر نے اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3560 ارب روپے ہے جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ تقریباً 3137 بلین روپے ہو گا۔
لیکن یہ خسارے ان اہداف سے کہیں زیادہ بڑھ جانے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف سراسر غیرحقیقی ہے۔ ختم ہونے والے مالی سال کے دوران حکومتی آمدن میں اضافہ صفر رہا ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں ہدف سے کئی سو ارب روپے کم رہی ہیں۔ نوٹوں کی مسلسل چھپائی، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں اور عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی یلغار کے باوجود مالیاتی خسارہ بدستور جی ڈی پی کے 5.5 فیصد پہ کھڑا ہے۔ آئندہ مالی سال یہ 7.5 فیصد (تقریباً چار ہزار ارب روپے) سے اوپر جا سکتا ہے جس کا مطلب قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔
پہلے ہی صورتحال یہ ہے قرضوں اور شرح سود میں تیز اضافے کی وجہ سے میں سود کی ادائیگی حکومتی آمدن کے 41 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو موجودہ حکومت سے قبل 33 فیصد تھی۔
غیر سرکاری مبصرین کے مطابق موجودہ حکومت اپنے پہلے تقریباً ایک سال کے دوران قرضوں میں پانچ ہزار ارب روپے کا اضافہ کر چکی ہے۔ جبکہ خود حکومت کے مطابق بھی یہ اضافہ ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ تقریباً دس ارب ڈالر کا قرضہ سعودی عرب اور چین وغیرہ سے لیا گیا ہے۔ ابھی آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے۔ داخلی قرضوں کا ہجم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
قرضوں کے اس دیوہیکل ہجم کو مذکورہ بالا سٹیگفلیشن کے ساتھ ملا کے دیکھیں تو بھیانک صورتحال اور بھی واضح ہو کے سامنے آتی ہے۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دفاعی اخراجات کی مد میں ”رضاکارانہ کٹوتی“ کے بعد 52 ارب روپے کے اضافے کیساتھ 1152 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ اور یہ اس مد کے صرف اعلانیہ اخراجات ہیں۔
مجموعی طور پر 4 ہزار ارب روپے سے زائد رقم صرف دو شعبوں یعنی دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کی گئی ہے جو مجموعی بجٹ کے دو تہائی سے زیادہ بنتی ہے۔ باقی کی زیادہ تر رقم جاری اخراجات کی نذر ہو جائے گی۔
ترقیاتی اخراجات مزید 17.5 فیصد کمی کیساتھ 949 ارب روپے رہیں گے جن کا بڑا حصہ پھر ٹھیکیداروں اور کمیشن خوروں کی جیبوں میں ہی جائے گا۔
صحت اور تعلیم کے شعبوں کو صوبوں کے حوالے کر کے ویسے ہی گول کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کے لئے جو 3255 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ان کا بڑا حصہ پھر جاری اخراجات اور بدعنوانیوں کی نذر ہو جائے گا۔ صحت اور تعلیم کے اخراجات جو پہلے ہی جی ڈی پی کے ڈیڑھ دو فیصد کے درمیان جھولتے رہتے ہیں، مزید کم ہی ہوں گے۔
اس معیشت کے بجٹ، جو موجودہ بحرانی حالات میں مزید بے رحم ہو گئے ہیں، عوام سے روزی روٹی چھین ہی سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پہ حکمران طبقات کے نظام کے بحران کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کرنے کی کھاتہ داری ہے۔ آنے والے دنوں میں بحران اور عوام پر اس کے بوجھ میں اضافہ ہی ہو گا۔ غیر معمولی حالات میں یہ لڑکھڑاتا سیٹ اپ انقلابی یا رجعتی طریقے سے زمین بوس بھی ہو سکتا ہے۔