فاروق سلہریا
بالی وڈ بلاشبہ انڈیا کی سوفٹ پاور ہے۔ اس کا ایک دلچسپ اظہار دو ہفتے قبل نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والے انڈین فلم ’تورباز‘ ہے۔ بظاہر فلم افغانستان کرکٹ ٹیم کو خراج عقیدت کے علاوہ یہ پیغام دیتی ہے کہ کرکٹ نہ صرف بنیادپرست دہشت گردی (طالبانائزیشن) کا توڑ ہے بلکہ کرکٹ، دیگر جنوب ایشیائی ملکوں کی طرح، افغانستان کو متحد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ طالبان بھی کرکٹ کے دیوانے ہیں (افغانستان کے ویسٹ انڈیز سے میچ سے پہلے طالبان افغان کرکٹ ٹیم کو نیک خواہشات کا پیغام دیتے ہیں) اور تورا بورا کے پہاڑوں میں ’فارغ وقت‘میں کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔
اس فلم کی سوفٹ پاور بارے بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے ذرا فلم کی کہانی کی بات کر لیتے ہیں۔
کہانی کا مرکزی کردار نصیرخان (سنجے دت) کچھ سالوں کے بعد افغان این جی او ’ٹوماروز ہوپ‘ (Tomorrow’s Hope) کی سربراہ عائشہ (نرگس فاخری) کی دعوت پر کچھ سال بعد افغانستان آتا ہے۔ بھارتی فوج میں بطور ڈاکٹر کام کرنے والے نصیر خان کی چند سال پہلے کابل سفارت خانے میں تعیناتی ہو گئی تھی۔ یہاں ایک بم دھماکے میں اس کا اکلوتا بیٹا اور بیوی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس لئے کابل واپسی اس کے لئے بہت تکلیف دہ تجربہ ہے۔
وہ زیادہ عرصہ رکنا نہیں چاہتا مگر ایک دن عائشہ کے ہمراہ وہ پاکستان سے واپس آئے مہاجرین کے کیمپ میں بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتا ہے وہ ان بچوں کو کرکٹ سکھانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسے خود بھی کرکٹ کا جنوں ہے دوسرا یہ کہ اس کے اپنے بیٹے کو کرکٹ کا شوق تھا اور اپنے بیٹے کی عمر کے بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کر اس سے رہا نہیں جاتا۔
کیمپ میں رہنے والے بچوں میں کرکٹ کا جنون بھی ہے اور بے پناہ صلاحیت بھی مگر سہولتیں نہیں۔ نصیر خان کابل کرکٹ اکیڈمی سے مدد مانگتا ہے مگر اکیڈمی کا کوچ کیمپ میں رہنے والے بچوں کو طبقاتی بنیاد پر رد کر دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے مہاجر بچے خودکش حملہ آور ہی بن سکتے ہیں، کرکٹر نہیں۔
سچ تو یہ ہے اور فلم میں بھی اس کا اظہار کیا گیا ہے، کہ افغان قومی کرکٹ ٹیم کا ایک طرح سے جنم ہی پاکستان میں قائم مہاجر کیمپوں میں ہوا تھا۔
کابل کرکٹ اکیڈمی کے کوچ کا ہتک آمیز رویہ نصیر خان کو آگ بگولہ کر دیتا ہے۔ وہ (کسی حد تک عامر خان کی فلم ’لگان‘ کی طرح) چیلنج دیتا ہے کہ کیمپ کے بچوں کی ٹیم کابل کرکٹ اکیڈمی کی ٹیم کو شکست دے گی۔
بچوں کو میچ کی تیاری کے لئے نصیر خان انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک پنجابی کوچ کا بندوبست کرتا ہے۔ ادھر، مہاجر بچوں کی ٹیم کا سٹار کھلاڑی، باز، خود کش حملہ آور بننا چاہتا ہے۔ اس کی ماں نے بھی خودکش حملے میں جان دی تھی۔
باز کو اس کے ٹیم کے باقی کھلاڑی شروع میں پسند نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک بچے کے والد کو، جو پولیس میں تھا، طالبان نے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ بچہ افغان فوج میں جانا چاہتا ہے۔
دریں اثنا، باز کو اس کا ماموں کازر خود کش بمبار بنانے کے لئے لے جاتا ہے۔ نصیر جان خطرے میں ڈال کر کازر سے ملتا ہے اور درخواست کرتا ہے کہ باز کو میچ کھیلنے کی اجازت دے۔ کازر اجازت دے دیتا ہے مگر اس اجازت نامے کے پیچھے اس کی ایک سازش ہے۔ وہ اپنے باز کی مدد سے خود کش جیکٹ کابل کرکٹ اکیڈمی کے اسٹیڈیم تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حسب توقع میچ تو مہاجر بچے جیت جاتے ہیں (آخر ان کی کوچنگ ایک انڈین کوچ نے کی ہے) مگر اس کے بعد طالبان سٹیڈیم پر حملہ کر دیتے ہیں۔ باز خود کش جیکٹ پہن کر تماشائیوں کو ہلاک کرنے کی بجائے کازر کو ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ قربانی وہ اس لئے دیتا ہے تا کہ باقی لوگ جینے کی امید کر سکیں۔
طالبان مخالف، نہ پاکستان مخالف
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم میں پاکستان کے خلاف کسی قسم کا پراپیگنڈہ نہیں ملتا بلکہ شاہد آفریدی کا ذکر ایک طرح سے مقبول کرکٹ ہیرو کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح طالبان کو محض دہشت گرد نہیں دکھایا گیا۔ یہ درست ہے کہ وہ زبردستی بچوں کو بمبار اور مجاہد بناتے دکھائے گئے ہیں مگر ان کی کاروائیوں کا ایک طرح سے جواز بھی فراہم کیا گیا ہے۔ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ روس اور امریکہ نے افغانستان میں جس جنگ کو شروع کیا، افغانستان کے لوگ بشمول طالبان، اس بیرونی مداخلت کو بھگت رہے ہیں (کہیں یہ بھارتی ریاست کے بدلتے روئیے کی عکاسی تو نہیں؟)۔
فلم میں انڈیا کا امیج ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرتا ہے جو نہ تو روس اور امریکہ کی طرح مداخلت کر رہا ہے نہ ہی ’کافر‘ ملک ہے۔ آخر ہندوستان میں مسلمان بھی تو ہیں۔ اس کا ایک ثبوت نصیر خان خود ہے۔ دوم، ہندوستان افغانستان میں نہ تو فوجیں بھیجتا ہے نہ خود کش حملہ آور بلکہ وہ تو کرکٹ کو فروغ دے رہا ہے۔
گو فلم کی زیادہ تر شوٹنگ کرغستان کے شہر بشکیک میں ہوئی ہے مگر فلم کے آغاز میں کابل کی عکس بندی یوں کی گئی ہے کہ کابل انتہائی خوب صورت شہر (جو کہ وہ ہے) کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ سنجے دت کی ہی فلم ’پانی پت‘ نے اگر کچھ عرصہ پہلے افغان حلقوں کو ناراض کیا تھا تو ’تورباز‘ ایک طرح سے ’پانی پت‘ کا ازالہ کرنے کی کوشش ہے۔
گو فلم میں انڈیا کا امیج تو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے مگر افغان جنگ سے نجات کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا۔ اگر خودکش بمبار بچوں سے طالبان کو مروانا مسئلے کا حل ہے تو یہ کام تو امریکہ بھی کر رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے امریکہ بمبار بچوں کی جگہ ڈرون استعمال کرتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔