لاہور (جدوجہد رپورٹ) آنگ سان سوچی اور دیگر منتخب رہنماؤں کو حراست میں لینے کے بعد میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ پیر کے روز اقتدار پر قبضے کے بعد تمام بڑے شہروں میں فوجی گشت جاری رہی اور مواصلات کو محدود کر دیا گیا۔ سرکاری ٹی وی نے بتایا کہ ایک سال کیلئے ایمرجنسی کا اعلان کر دیاگیا ہے اور فوج کے کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔
یہ اقدام آنگ سان سوچی کی برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد اٹھایا گیا۔ انتخابات سے متعلق فوج نے دعویٰ کیا کہ وہ دھوکہ دہی سے منعقد کئے گئے۔
آنگ سان سوچی نے ایک خط کے ذریعے اپنے حامیوں، جمہوریت پسند عوام اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ اقتدار پر فوج کے قبضے کو قبول نہ کریں اور اس فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کریں۔ فوج کے اقدامات نے ملک کو آمریت کے دور میں کھڑا کر دیا ہے۔
یہ بغاوت انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کر لی تھیں تاہم فوج انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی۔
یاد رہے کہ میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، پر 2011ء تک فوج کی حکومت رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے نو منتخب ایوان زیریں نے پیر کے روز پہلا اجلاس کرنا تھا لیکن فوج نے التوا کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ میانمار کے تمام بڑے شہروں میں کئی مقامات پر موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ دارالحکومت کے ساتھ رابطے منقطع ہیں اور اس لیے وہاں صورتحال غیر واضح ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے علاوہ بی بی سی ورلڈ سروس اور کئی غیر ملکی چینلوں کی نشریات روک دی گئی ہیں۔ میانمار بینکس ایسوی ایشن کے مطابق مالیاتی سہولیات عارضی طور پر بند ہیں۔
ادھر امریکہ اور آسٹریلیا نے میانمار میں فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تمام گرفتار رہنماؤں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ لوگوں کی جمہوریت، آزادی، امن اور ترقی کی جدوجہد میں انکے ساتھ کھڑا ہے اور فوج کو یہ اقدامات واپس لینا ہونگے۔‘
آسٹریلیا میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانون کی بالادستی کا احترام کریں، قانونی طریقہ کار سے تنازعات کا حل کریں اور سویلین رہنماؤں کو رہا کریں جنھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔‘
دوسری طرف ملائشیا کی سوشلسٹ پارٹی (پی ایس ایم) سمیت دنیا بھر کے ترقی پسند رہنماؤں اور تنظیموں نے بھی میانمار کی تازہ ترین سیاسی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوجی بغاوت کی شدید مذمت کی ہے۔
پی ایس ایم کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اس فوجی بغاوت کی شدید مذمت کرتے ہیں جس میں حکمران جماعت کے رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا، پارلیمان کو تحلیل کر دیا گیا، آئین کو معطل کر کے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آنگ سان سوچی کی انتظامیہ میں بے شمار خامیاں موجود تھیں، روہنگیا عوام کی نسل کشی اور جبر سے نمٹنے میں ناکامی سمیت متعدد مسائل موجود تھے لیکن فوجی بغاوت کا جواز پیش کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘
’موجودہ فوجی بغاوت جمہوریت کیلئے طویل اور تکلیف دہ جدوجہد کے بعد میانمار کے عوام کو حاصل ہونے والی محدود جمہوریت کو پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہے۔ میانمار کی فوج کو اپنی طاقت عوام ور ان کے جمہوری منتخب نمائندوں کے حوالے کرنا ہو گی۔‘
واضح رہے کہ آنگ سان سوچی ماضی میں انسانی حقوق کی بڑی محافظ کے طورپر پہچانی جاتی تھیں، 15 سال تک جیل میں رہنے کے دوران انہیں نوبل پیس پرائز بھی دیا گیا تھا لیکن 2015ء میں جب انکی جماعت برسر اقتدار آئی تو اس کے بعد انہوں نے روہنگیا مسلم آبادی کی نسل کشی میں مصروف فوجی جرنیلوں کی پشت پناہی جاری رکھی۔ نیو لبرل پالیسیوں اور سامراجی لوٹ مار کی بڑی حصہ دار فوج اور ریاست کو ہر طرح کا ظلم اور جبر روا رکھنے کی کھلی اجازت دیئے رکھی۔ آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف کی سماعت کے دوران فوجی اقدامات کی کھل کر حمایت کی تھی۔