یاسمین افغان
جہاں ایک طرف کچھ عالمی رہنما طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بدلے ہوئے طالبان کے طور پر دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں یا افغانوں پر اچھے طالبان کا بیانیہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں دوسری طرف افغان ہر محاذ پر ہار رہے ہیں۔ وہ غیر یقینی مستقبل کے باوجود زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں ایک چیلنج یہ ہے کہ افغان نہ صرف کابل بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی آہستہ آہستہ فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ صوبہ ننگرہار کے ایک دیہات میں رہنے والے طالب علم اور دکاندار فرید (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ”حالات بہت جلدی بدل گئے۔ مارکیٹ میں سٹاک تقریباً ختم ہو چکا ہے اور لوگوں کے پاس اشیا خریدنے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔“
کابل کے ایک رہائشی نے کہاکہ ”ہمارے پاس کچھ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا خاندان کب تک زندہ رہے گا۔“
کابل کے ایک فری لانسر مدثر اسلامی نے اپنے ٹویٹر پر لکھا کہ پھل فروشوں نے ان سے کہا ہے کہ ”اب چند ہی لوگ ہماری دکانوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ وہ سامان خریدنے سے قاصر ہیں۔“
سقوط کابل کے نتیجے میں تمام بینک بند ہو گئے۔ لوگوں نے نقدی نکالنے کے لیے بینکوں پر دھاوا بول دیا لیکن سب بیکار گیا کیونکہ اے ٹی ایم میں بھی نقدی نہیں تھی۔ بہت سے اہل کابل کے پاس کیش تقریباً ختم ہو چکاہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
کابل کے ایک رہائشی عطا (فرضی نام) نے بتایا کہ ”میری جیب میں صرف 2000 افغانی ہیں۔ میں گھر میں کسی ہنگامی صورتحال سے متعلق سوچ کر کانپ گیا۔“
کابل کے باشندے دوسرے صوبوں سے ٹاپ اپ کارڈز منگوانے پرمجبور ہیں اور دانشور حلقوں میں یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ اگر ان کے پاس ٹاپ اپ کارڈ نہیں ہیں تو ان کے پاس انٹرنیٹ نہیں ہو گا اور وہ افغانستان کے افراتفری کے مناظر شیئرنہیں کر سکیں گے۔
قندوز کے ایک رہائشی تیمور کاکہنا ہے کہ ”آہستہ آہستہ ہمارا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم ہو رہا ہے کیونکہ ہمیں ٹاپ اپ کارڈ نہیں مل رہے ہیں اور اس طرح باقی دنیا کے ساتھ طالبان کے حقائق شیئر کرنے کے کسی ذریعہ تک رسائی ہی نہیں رہے گی۔“
بہت سے سرکاری ملازمین کو تنخواہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ سقوط بہت اچانک تھا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے مسائل کا حوالہ دیا ہے کہ وہ اپنے کرائے ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں، نہ ہی پٹرول اور ایندھن خریدنے کے پیسے بچے ہیں۔ اگر بینک جلد نہ کھلے تو کابل اور دیگر بڑے شہروں میں زندگی ٹھپ ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں ایک اور بحران پیدا ہو جائے گا۔
کابل کے رہائشی ایک سرکاری ملازم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”مجھے تنخواہ نہیں دی گئی۔ ہر چیز (کی قیمت) آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہم اذیت ناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔“
مزار کی ایک خاتون ٹیچر کا کہنا ہے کہ ”ہماری تنخواہیں پہلے ہی کم تھیں لیکن اب ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ میرا ایک جوان بیٹا ہے، جسے دل کا عارضہ ہے اور اس کے لیے دوائی خریدنی بہت ضروری لیکن مجھے بتائیں کہ کس رقم سے دوا خریدوں۔“
بہت سے افغان جن سے رابطہ کیا گیا وہ سخت حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں غذائی تحفظ اور غذائیت کی صورت حال کے جائزے کے مطابق ہر 3 میں سے 1 افغان کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جنگ زدہ ملک میں ایک اندازے کے مطابق 14 ملین افراد اپنی روزانہ کی کم از کم خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
کابل سے تھوریالئی کا کہنا ہے کہ ”میرے پڑوسی نے 1 ہزار افغانی کا مطالبہ کیا لیکن مجھے انکار کرنا پڑا کیونکہ میرے پاس نقد رقم کم ہے اور ہر روز اشیاء خورونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، مجھے برا لگ رہا ہے لیکن دوسروں کے بارے میں سوچنے سے پہلے مجھے اپنے خاندان کے بارے میں سوچنا ہو گا۔“
شیرین، جو حال ہی میں صوبہ فراہ سے آئی ہیں، کا کہنا ہے کہ ”جب ہم آ رہے تھے تو ٹکٹوں کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں۔ میرے بھائی کابل میں رہتے ہیں اور مجھے یہاں آنا پڑا کیونکہ اشیا خورونوش کی مجموعی قیمتیں زیادہ ہیں۔ میں نے سوچا کہ شاید کابل بہتر ہو گا لیکن یہاں بھی حالات خراب ہیں۔ اب اللہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔“