کنور خلدون شاہد
سچ پوچھیں تو اب کافی وقت بیت چکا ہے۔ حکمرانی کا مستحق ہو یا نہ ہو یہ گروہ اب حکمرانی کر رہا ہے۔ یہ مت بھولیں کہ یہ اسلامی امارات دہائیوں پرانی ہے۔ اس خلافت میں مذہب کی علم برداری ہو رہی ہے اور شریعت کی وہ شقیں نافذ ہوئی ہیں جن پرعمل کرنے کی ہم جیسے کئی نام نہاد مسلم ممالک میں ہمت نہیں۔ ان شریعت پرست خلفا کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ہمارے ہاں اسلام کی پیروی صرف ماورائے عدالت اور غیر ریاستی کاروائیوں میں ہی ہو سکی ہے۔
جب چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور زناکاروں کو سنگسار کیا جائے گا یا کوڑے لگائے جائیں گے تب ہی تو خوف خدا کا حقیقی مظاہرہ ہو گا۔ جب الحاد، گستاخی اور جادوگری کی سزا سر تن سے جدا ہو گی تب ہی تو دین کی بالادستی قائم ہو گی۔ بلاشبہ یہ کسی ایک گروہ، خاندان، قبیلے، یا ریاست کی میراث نہیں۔ یہ وہ ابدی احکامات ہیں جو صدیوں سے حکمرانوں کے ایمان و شرعی تابعداری کا پیمانہ رہے ہیں۔ جو اس پر سوال اٹھائیں ان کوویسے ہی بیچ چوراہے اسی پیمانے کے ساتھ پھینٹی لگنی چاہئے۔
ایسے کئی واجب الپھینٹی افراد اس اسلامی امارات میں حقوق نسواں بارے بڑے پریشان ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ خواتین کوحاصل حتمی حقوق نا کافی ہیں۔ ایک چوتھائی وراثت بھی نا کافی، آدھی گواہی بھی نا کافی، بارہ برس بھی نا کافی، چار گواہ بھی نا کافی لیکن آپ پھر بھی اس گروہ کی ترقی پسندی اور حقیقت پسندانہ لچک دیکھئے کہ ان توہین آمیز خدشات کو بھی حالیہ پالیسی سازی میں بڑی مہارت کے ساتھ شامل کیا ہے۔ ایسے ہی تو انھیں آج کل ‘2.0’ نہیں کہا جا رہا۔
اسلام سے ان کے لگاو اور عقیدت پر تو کوئی دو رائے نہیں لیکن بنیادی طور پر تو یہ ہمارے خلفا ایک قبائلی ٹولہ ہیں۔ قبائلی خانہ جنگی میں کامیابی کی بدولت ان کی علاقائی خودمختاری قائم ہوئی۔ قبائلی دستور نے ہی ان کے نظریاتی دائرہ کار کو وضع کیا۔ مغربی سامراجی طاقتوں کو اس غیر مستحکم خطے میں سوویت اثر و رسوخ کی روک تھام کے لئے مطلق العنان اتحادیوں کی ضرورت تھی اور یقینا مغرب کی مداخلت کے بنا یہ آمرانہ اقتدار قائم نہیں ہو سکتا تھا لیکن مغرب اور بالخصوص امریکہ کو خطے کی اقتصادی اہمیت اور وسائل کا اندازہ نہ تھا، لہٰذا اپنے ہی مستحکم کئے گئے قبائلی ٹولے نے انھیں تگنی کا ناچ نچایا۔
خیر یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ آج کی بات کریں تو اب تو ہمارے خلفا چین کے ساتھ بے چینی سے اٹھ بیٹھ رہے ہیں اور تازہ ترین سپر پاور کے ہمراہ ترقیاتی منصوبوں کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ ویسے تو آج کل چین ہو یا پاکستان، ایک ہی بات ہے، لیکن ہمارا ذاتی طور پر مجاہدین کے ساتھ مذہبی، سفارتی اور عسکری، علاوہ ازیں، ہر قسم کا مادی اور روحانی ناطہ ہے۔
ہماری دھرتی میں دہشرتی کے واقعات میں ملوث ہونے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کی غیرمصدقہ خبروں کے باوجود اس گروہ کے ساتھ ہمارا اٹوٹ رشتہ ہے۔ سوجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم ان کی بقا کے لئے زیادہ ضروری ہیں یا وہ ہماری۔ آخر پاکستان اور بالخصوص اس کی افواج نے ان خلفا کی علاقائی سالمیت اور اس سے مربوط نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔ اس صدقہ جارحیہ کے لئے ہم نے کئی سپاہی اور سپہ سالار وقف کئے۔ ایک سپہ سالار تو ابھی بھی خلفا کے اتحادی دستے سنبھالنے میں مشغول ہیں۔ اسی روحانی عظمتوں سے لبریز فوج نے اس قبائلی ٹولے کو ‘1.0’ سے ‘2.0’ تک کا سفر طے کرنے میں مدد کی۔
اب سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ ‘2.0’ کے ساتھ ہمارا کیسا تعلق ہونا چاہیے۔ جب اسلام میں 2.0 نہیں ہے، جہاد میں 2.0 نہیں ہے، خلافت میں 2.0 نہیں ہے تو ہمارے مقدس خلفا کا ‘2.0’ کیسے تسلیم کر لیں؟ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ جس علاقے میں فی الحال خلافت قائم ہے، جس کے تاریخی نسب و تقدس کا ذکر کو بہ کو ہے، اس کا 2.0 نہ ہے اور نہ ہم کبھی ہونے دیں گے…تو جان لیجئے کہ یہ ‘2.0’ کا منجن اسی مغرب کے لئے ہی ہے جس نے ‘1.0’ کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔
جو خواتین کو حقوق دینے کی باتیں آپ آج کل اس گروہ کی زبانی سن رہے ہیں ان کو سن کے سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے، کیونکہ مغرب کو ہمارے خلفا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ مغربی لیڈران تو یہاں پر اکی دکی خاتون کے سانس لینے کی شہادت پر ہی مطمئن ہو جائیں گے۔ وہ تو 70ء کی دہائی کی کابل یا تہران یونیورسٹی کی طالبات کی تصاویر شیئر کر کر نہیں تھکتے۔ انھیں ایسے ایک دو فوٹو شوٹ بھجوا دیں گے تاکہ باقی ہر قسم کی شوٹنگ سے ان کا دھیان ہٹ جائے۔ آپ فکر مت کریں خلافت ‘2.0’ میں عورت کی وہی جگہ ہوگی جو آپ اور ہم چاہتے ہیں۔
اسی طرح اسلام کے نفاذ یا خلفا کی اس سلسلے میں کسی بھی درجے پر نظر ثانی کے بارے میں آپ کو ہرگز تشویشناک ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تشویش اسلامی امارات ‘2.0’ میں بھی اتنی ہی مہلک ہے جتنی ‘1.0’ میں تھی۔
امید ہے آپ کے تمام خدشات اب تک دور ہو چکے ہوں گے۔ اگر ابھی بھی کوئی شکوک و شبہات ہیں تو میں بس یہی کہوں گا کہ آپ سعودی ولی عہد کی باتوں میں نہ آئیں اور صرف زمینی حقائق پرغور کریں۔ سعودی عرب اتنا ہی شریعت پسند اور عورت دشمن ہے جتنا وہ ہمیشہ سے آل سعود کے ما تحت رہا ہے لہٰذا ہمیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے محمد بن سلمان کے ہاتھ پر ویسے ہی بیعت کر لینی چاہئے جیسے ان کے آباؤاجداد کے ہاتھوں پر کرتے آئے ہیں۔