ڈاکٹر مظہر عباس
عام طور پر یہ تصور موجود ہے کہ پنجاب نے کبھی بھی بیرونی حملہ آوروں اور اندرونی غاصبوں کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔ پنجاب پر اس طرح کی تہمت لگانا سراسر ناانصافی ہے اور یہ یا تو تعصب پرستی کا نتیجہ ہے یا پھر تاریخ سے لا علمی کا ثبوت ہے۔ جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب نے نہ صرف بیرونی حملہ آوروں بلکہ اندرونی غاصبوں کا بھی مقابلہ کیا ہے خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔
دوسری جانب تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر شمال، جنوب اور مشرق میں رہنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں اور انگریزوں کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے تو یہ حملہ آور پنجاب تک پہنچ ہی نہ پاتے۔
بلاشبہ پنجاب غیر ملکی حملہ آوروں اور داخلی غاصبوں کے خلاف مزاحمت کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، مقدونیہ کے سکندر نے 326ء قبل مسیح میں ہندوستان پر حملے سے پہلے کئی سلطنتوں، قوموں اور قبیلوں کو زیر کر لیا تھا۔ سکندر کی پیش قدمی اور فتوحات کے بارے میں یونانی مورخین کا کہنا ہے کہ اسے محض دو حاکموں (فارس کے ڈیریس تھری اور پوروا کے بادشاہ پورس) کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اؤل الذکر کو 331ء قبل مسیح میں اسوس کی جنگ میں اپنی شکست کا خدشہ ہونے کے بعد میدان جنگ سے بھاگنا پڑا۔ جبکہ مؤخرالذکر نے 326ء قبل مسیح میں ہیڈاسپس (جہلم) کی جنگ میں سکندر کی پیش قدمی کو روک دیا۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر نے اپنا ایلچی پورس کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ اپنی شکست تسلیم کر لے اور ساتھ ہی خراج دینے پہ راضی ہو جائے۔ تاہم، پورس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور ایلچی کو جواب میں یہ پیغام دے کر بھیجا: ’ہم میدان جنگ میں ملیں گے۔‘ اور وہ بلآخر میدان جنگ میں ہی ملے۔ اگرچہ سکندر نے یہ جنگ جیت لی لیکن یہ اس کی زندگی کی آخری جنگ ثابت ہوئی۔ اسے اپنی مہم کو روکنا پڑا اور دنیا کے دوسرے کونے تک پہنچنے کے اپنے خواب کو ترک کرنا پڑا۔ اس جنگ کے بارے میں ایک یونانی تاریخ دان، پلوٹارک، کا ماننا ہے کہ یونانیوں کو ہندوستان کے بادشاہ پورس کو شکست دینے میں بڑی مشکل پیش آئی۔
برصغیر کا شمال مغربی علاقہ دسویں صدی سے وسطی ایشیائی ترکوں کے ماتحت تھا۔ ان حملہ آوروں کو ہندو شاہی خاندان (پال قبیلے) کے جے پالہ (964-1002ء)، آنندپالہ (1002-1010ء) اور ٹرلوکانپالہ (1010-1021ء) کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر 977ء اور 1021ء کے مابین غزنہ کے محمود اور اس کے والد کو پنجاب کے ہندو شاہیوں کی مضبوط مزاحمت کو شکست دینے کے لیے کئی بار حملے کرنا پڑے۔ بعض مورخین کا ماننا ہے کہ یہ مزاحمت 1021ء میں اس وقت ختم ہوئی جب ٹرلوکانپالہ کو کچھ مقامی ہندو فوجیوں نے مار ڈالا۔
عبداللہ بھٹی عرف دُلہ بھٹی، ان کے والد فرید اور دادا ساندل عرف بجلی نے پنجاب میں مغلیہ حکومت کو چیلنج کیا اور اس مزاحمت کومغلیہ سلطنت کے خلاف تین نسلوں تک جاری رکھا۔ مغلیہ سلطنت کی انتہائی رجعت پسندانہ ٹیکس پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے بھٹی محنت کش طبقے کے انقلابی رہنماؤں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ وہ مقامی برادری میں اپنی بہادری اور سماجی انصاف کے فروغ کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ بغاوت کے خوف نے اکبر کو دو بار اپنا دارالحکومت دہلی/آگرہ سے لاہور منتقل کرنے پر مجبور کیا۔ ان سب (بھٹیوں) نے اکبر کے زیر اقتدار طاقتور مغلیہ سلطنت کے خلاف اس جدوجہد میں اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ دُلہ اپنی بیوی کی گرفتاری کی وجہ سے مغل فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا تھا۔
انیسویں صدی تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب کو فتح نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے مشرقی ہندوستان کے علاقوں کو زیر کر لیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کا مضبوطی سے دفاع کیا۔ 1839ء میں مہاراجہ کے انتقال کے بعد سیاسی انتشار کے باوجود کمپنی کو پنجاب کو فتح کرنے کے لیے دو جنگیں لڑنا پڑیں۔ جس میں ضلع منڈی بہاؤالدین کے علاقے چیلیانوالی میں ہونے والی آخری لڑائی کو برصغیر پاک و ہند میں کمپنی کی مشکل ترین لڑائیوں میں سے ایک گردانا گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں اپنی حکمرانی قائم کرنے کے بعد کمپنی کو 1857ء میں پنجاب سمیت ہندوستان کے مختلف حصوں میں جنگ آزادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجابی مزاحمت بنیادی طور پر ضلع گوگیرہ میں جھامرہ کے رائے احمد خان کھرل کی قیادت میں ہوئی تھی۔ اس نے اور وٹو، کھرل اور فتیانہ قبائل کے حامیوں نے بہادری سے جنگ لڑی اور برطانوی فوج کے خلاف چند فتوحات بھی حاصل کیں۔
سردار اجیت سنگھ (1881-1947ء) کو 1900ء کے لینڈ ایلینیشن ایکٹ، پنجاب لمیٹیشن ایکٹ 1904ء، ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ 1904ء، پنجاب پری ایمپشن ایکٹ 1905ء اور پنجاب کالونائزیشن ایکٹ متعارف کروانے اور لینڈ ریوینیو اور واٹر ٹیکس بڑھانے کے خلاف کسانوں کی تحریک چلانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ ان احکامات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے ’پگڑی سنبھال اے جٹا‘ تحریک کی بنیاد رکھی اور اس کی قیادت کی۔ اس کے بدلے میں سزا کے طور پر انگریزوں نے انہیں اور لالہ لاجپت رائے کو مئی 1907ء میں گرفتار کر کے جلا وطنی کاٹنے کے لئے برما بھیج دیا۔
تاہم، نومبر 1907ء میں ان کی گرفتاری اور جلا وطنی کے احکامات واپس لے لئے گئے۔ اسی طرح واٹر ٹیکس اور لینڈ ریوینیو ٹیکس بڑھانے والے آرڈیننس بھی واپس لے لئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کو عوامی دباؤ اور فوج میں بدامنی کے خدشات کی وجہ سے یہ سب اقدامات اور احکامات واپس لینا پڑے۔ ہندوستان کی برطانوی نو آبادیات کے خلاف زندگی بھر کی جدوجہد کے بعد اجیت سنگھ 15 اگست 1947ء کو ہندوستان کی آزادی کے دن وفات پا گئے۔ اپنی آخری سانس لیتے ہوئے انھوں نے کہا ’خدا کا شکر ہے میرا مشن پورا ہوا‘۔
پنجابیوں نے نہ صرف بغاوت کی بلکہ کئی موقعوں پر مزاحمت بھی کی۔ مثال کے طور پر ہریانہ کے جاٹ کسانوں نے 1809ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کی، بھوانی کے کسانوں نے (جو اب بھارت میں ہریانہ ریاست کا حصہ ہے) 1824ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مزاحمت کی اور بھگت سنگھ نے انگریزوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک کی قیادت کی جس کے لیے انہیں 23 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔
مغربی پنجاب میں مزاحمت کی روایت برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعدبھی جاری رہی۔ مثال کے طور پر چوہدری فتح محمد اور شیخ محمد رشید کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے دیرینہ اور اہم ترین رہنما بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے تقریباً چھ دہائیوں تک پنجاب کسان تحریک اور مزدوروں کی جدوجہد کی قیادت کی۔ انھیں اس کی بڑی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ مثال کے طور پر چوہدری فتح محمدنے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال جیل میں گزارے جبکہ شیخ رشید کو عمر بھر قید، نظربندی اور ظلم و ستم جیسی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
اوکاڑہ، خانیوال، پاکپتن، ساہیوالاور وہاڑی کے کینال کالونی اضلاع کے کسانوں نے سال 2000ء کے ارد گرد ایک تحریک شروع کی۔ تحریک کا آغاز معاہدے کی تجویز کو مسترد کرنے سے ہوا اور اس کے لئے دلیل یہ دی گئی کہ فوج کے پاس نہ تو ملکیتی حقوق ہیں اور نہ ہی کرایہ داری کے حقوق۔ بلآخر یہ تحریک زمین پر ملکیت کے حقوق کے لیے جدوجہد میں بدل گئی۔
اسی طرح مشرقی پنجاب میں مودی کی قیادت میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ زرعی آرڈیننس کے خلاف کسانوں کی جانب سے حال ہی میں بھر پور مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔