فارق سلہریا
دی نیوز سے وابستہ صحافی عمر چیمہ اپنی بے باک صحافت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اپنی نڈر رپورٹنگ کی وجہ سے وہ بد ترین ریاستی تشدد کا شکار بھی ہوئے۔ عمومی طور پر وہ پاکستان کے سماجی و سیاسی موضوعات پر عوام دوست اور اچھی پوزیشن اختیار کرتے ہیں۔
تین دن پہلے البتہ افغان طالبان کے حوالے سے ان کا جو موقف سامنے آیا اس پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا موقف ہے کہ طالبان افغانستان میں کافی مقبول ہیں۔ اس کی وہ مندرجہ ذیل توجیہات پیش کرتے ہیں:
۱۔ طالبان کو پاکستانیوں نے نہیں چنا بلکہ افغان انہیں چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ طالبان کا مذہبی ہونا نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ امیر طبقے سے تعلق نہیں رکھتے، انہوں نے (اشرف غنی ٹولے کی طرح) محلوں میں بیٹھ کر لوگوں کو لوٹا نہیں اور عدالتوں کے برعکس لوگوں کو انصاف دیا (یاد رہے: یہ سب کچھ ایک سوشلسٹ گروپ سوات میں طالبان بارے بھی کہہ رہا تھا)۔
۲۔ عورتوں کے جو مظاہرے ہو رہے ہیں وہ چند ٹولیوں سے زیادہ نہیں۔ کابل ائرپورٹ پر شہری لوگوں کا ہجوم ہے۔ طالبان کی حمایت دیہی علاقوں میں ہے۔
۳۔ اگر طالبان ایک بڑی قوت نہیں تو امریکہ نے ان سے مذاکرات کیوں کئے؟
ان کا یہ موقف ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سامنے آیا۔
آئیے پہلے ان کے آخری نقطے کا جائزہ لیتے ہیں: امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کیوں کئے؟
اس بیان کے ذریعے بہ الفاظ دیگر عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ان کی مقبولیت کا پیمانہ ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ عمر چیمہ طاقت اور مقبولیت میں فرق نہیں کر پا رہے۔ یہ کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے، اس کے باوجود اگر انہیں یہ فرق سمجھ میں نہیں آ رہا تو یہ اور بھی حیرت کی بات ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور سیاسی جماعت یا قوت فوج ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مقبول سیاسی قوت بھی ہے۔ امریکہ بھی فوج سے مذاکرات کرتا ہے، منتخب حکومت سے نہیں۔
ویسے بھی سیاست میں مقبولیت طے کرنے کا آسان سا طریقہ ہے: الیکشن۔ اگر طالبان ایک مقبول عام قوت ہیں تو الیکشن کرا لیں۔ یہاں میری مراد محکمہ زراعت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں اور اس سے قبل تمام جنگجو ملیشاؤں کو غیر مسلح کیا جائے۔ ایک ایسے الیکشن پر کسی بھی مقبول عام قوت کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ امید ہے اپنے کولیگ انصار عباسی کی مدد سے عمر چیمہ طالبان تک یہ مشورہ پہنچا دیں گے۔
مزید امید ہے عمر چیمہ طاقت اور مقبولیت کے مندرجہ بالا فرق کے بعد اور زیادہ آسانی سے یہ بات بھی سمجھ جائیں گے کہ طالبان کی ’مقبولیت‘ کی بنیاد افغان نہیں، پاکستان کے چھتیس ہزار مدرسے، تین لاکھ مساجد، ایک سو ٹیلی ویژن چینل، ہزارہا افراد پر مشتمل ٹرول آرمی، لاکھوں ’نامعلوم‘افراد اور ایسے حلقے ہیں جن کا ذکر کرنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا طالبان کی مخالفت کرنا۔ عمر چیمہ نے یقینا طالبان قیادت کے پروفائل پڑھے ہوں گے۔ آج کل دنیا بھر کا میڈیا ان کے پروفائل شائع کر رہا ہے۔ ایک بات سب میں مشترک ہے۔ سب کے سب پاکستانی مدرسوں سے فارغ التحصیل ہیں۔
عمر چیمہ کو یاد ہو گا کہ پاکستان میں حکومت پی پی پی اور مسلم لیگ کی تھی یا تحریک انصاف کی، کابینہ کے ارکان بابنگ دہل اعلان کرتے تھے کہ طالبان اپنے بچے ہیں۔ ببانگ دہل اعلان کیا جاتا تھا کہ طالبان ہمارے ہاں بنی گالہ میں رہائش پذیر ہیں۔ حیرت ہے عمر چیمہ کو طالبان کو ’Sustain‘ کرنے والا اربوں روپے کا انفراسٹرکچر نظر نہیں آ رہا جو ان کی آنکھوں کے سامنے ہے مگر وہ افغانستان بارے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ زیادہ نہیں جانتے (شائد وہاں کبھی گئے بھی نہیں)۔
رہی یہ بات کہ وہ ایلیٹ نہیں، یہ بات صرف فٹ سولجرز بارے درست ہے۔ طالبان قیادت میں شروع سے افغانستان کے بڑے بڑے اسمگلر شامل رہے ہیں جن کی دولت سے ملک ریاض اور بعض ریٹائرڈ سرکاری اہل کار بھی حسد کرنے لگیں۔ کبھی موقع ملا تو بنی گالہ اور کوئٹہ میں جا کر ان گھروں کو تلاش کیجئے جہاں ’غریب‘ طالبان قیادت رہائش پذیر تھی۔ قطر میں رہنے والے طالبان کسی طور اشرف غنی سے کم معیار کی زندگی نہیں گزار رہے تھے۔ ہاں اشرف غنی یا کرزئی کا ٹولہ بدنام تھا لیکن: بے نظیر اور نواز شریف کی بدعنوانیوں کا کہیں بھی یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ لوگ مارشل لا چاہتے ہیں۔ عمر چیمہ جو تجزیاتی پیرامیٹرز پاکستان بارے استعمال کرتے ہیں، بہتر ہو گا افغانستان بارے بھی استعمال کریں کیونکہ جو موقف یونیورسل نہیں ہوتا، محض موقع پرستی ہوتا ہے۔
دوم: ہمیں کابل ائرپورٹ کے افسوسناک مناظر تو نظر آئے مگر ہمیں ملک بھر میں کہیں سے بھی، حتیٰ کہ طالبان کا اپنا میڈیا بھی کوئی ایسی جعلی فوٹیج بھی نہیں بھیج سکا جس میں دیکھا جا سکے کہ لوگ طالبان کی آمد پر جشن منا رہے ہوں۔ جب خلق دھڑے کی قیادت میں انقلاب ہو اتھا تو کابل کا ایک بڑا حصہ سڑکوں پر ناچ رہا تھا (حالانکہ یونیورسل حمایت خلق اور پرچم کو بھی حاصل نہ تھی)۔ پاکستان کے کچھ نوجوان سیاسی کارکن ضیا آمریت سے بچ کر کابل میں پناہ گزیں تھے۔ یہ مناظر انہوں نے بھی دیکھے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کابل ائرپورٹ پر شہری آبادی کی بھیڑ تھی (اور یہ درست نہیں ہے) تو عمر چیمہ کو چاہئے کہ چمن کا دورہ کر لیں یا کسی دن اپنی حکومت سے پوچھیں کہ طورخم بارڈر کیوں بند کر رکھا ہے؟ ہو سکے تو ایران کی سرحد سے آنے والی فوٹیج بھی دیکھ لیں۔
ٹی آر ٹی اور پاکستانی میڈیا کے بعض حلقے خود کہہ چکے ہیں کہ چمن سے طالبان کے قبضے سے پہلے تین چار ہزار لوگ روزانہ آتے تھے، اب یہ تعداد بیس ہزار روزانہ پر پہنچ گئی ہے۔ شہری آبادی؟
عمر چیمہ کو شائد یہ بھی علم نہ ہو کہ صرف کابل میں پانچ لاکھ آئی ڈی پیز نے گذشتہ ایک ماہ میں پناہ لی۔ یہ لوگ ان علاقوں سے بھاگ کر کابل پہنچے جہاں پچھلے دو ماہ میں طالبا ن نے قبضہ کیا۔ اگر طالبان پاپولر تھے تو لوگ ان کے زیر قبضہ علاقوں سے بھاگ کر کابل کیوں آئے؟
یہ لوگ عمومی طور پر دیہاتوں سے آئے ہیں جہاں عمر چیمہ کا خیال ہے کہ طالبان بہت مقبول ہیں۔
تھوڑی سی دیہی علاقوں کی بات بھی کر لی جائے۔ گذشتہ بیس سال کے دوران طالبان کی بربریت کا شکار شہروں سے زیادہ گاؤں کے لوگ تھے۔ شہروں میں کسی حد تک پولیسنگ موجود تھی۔ گاؤں میں ایسا نہیں تھا۔ اس لئے وہاں کسان پر ’عشر‘ لگایا جاتا۔ بندوق کے زور پر لوگوں کے ہاں پناہ لی جاتی۔ عمر چیمہ کو اتنا تو علم ہو گا کہ طالبان ہی نہیں، کوئی بھی گوریلا فورس جب دیہی علاقوں میں متحرک ہوتی ہے تو اس گوریلا فورس کا معاشی بوجھ کسان کو اٹھانا پڑتا ہے۔ کسان اپنی فصل پر حکومت کو ٹیکس دینا پسند نہیں کرتا کجا یہ کہ گوریلوں کو ٹیکس ادا کرے۔ وہ بھی ایک ایسی فورس کو جو ان کے ہاں سکول اور ہسپتال کو بم سے اڑا رہے ہوں۔
یہی نہیں۔ دیہاتوں میں طالبان کا کسانوں سے عمومی مطالبہ ہوتا تھا کہ ہمیں موٹر سائیکل لے دو، یا کلاشنکوف لے دو، اگر غربت کی وجہ سے یہ سب نہیں کر سکتے تو اپنا ایک بیٹا ہمارے ساتھ بطور جنگجو روانہ کر دو۔
معلوم نہیں ایسے حالات میں کون سا کسان طالبان سے خوش تھا؟ اگر ایسے کسان عمر چیمہ کے رابطے میں آئیں تو ہمیں اطلاع دینا مت بھولیں کیونکہ راقم سٹاک ہولم سنڈروم میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
سوم: عمر چیمہ کا شائد خیال ہے کہ سب افغان پشتون (’پٹھان‘) ہوتے ہیں۔ یہ وہی غلط فہمی ہے جو عمومی طور پر مطالعہ الپاکستانیوں میں جموں کشمیر بارے پائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ سارا جموں کشمیر صرف وادی ہے جہاں سارے علی گیلانی جیسے نیک لوگ رہتے ہیں۔ عمر چیمہ بارے ہمارا قیاس ہے کہ وہ مطالعہ الپاکستانی نہیں ہیں۔ اس لئے انہیں اچھی طرح علم ہو گا کہ سب افغان پشتون نہیں (اور یہ کہ وہاں کے شہری افغان ہیں، افغانی ان کی کرنسی ہے)۔ انہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ طالبان کی حمایت پشتونوں سے باہر نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ کو تاجک، ہزارہ یا ازبک اور پشئی طالبان خال خال ہی ملیں گے (ویسے پنجابی طالبان کی کوئی کمی نہیں۔ ایک تو آج کل پاکستان کا وزیر اعظم بھی ہے۔ اسی طرح دو چار تو عمر چیمہ کو اپنے دفتر میں ہی مل جائیں گے)۔
پشتونوں میں بھی طالبان کی حمایت بہت محدود ہے۔ اس بارے اعداد و شمار اور ثبوت ذیل میں پیش کروں گا۔ فی الحال ذرا افغانستان کی لسانی حقیقتوں کا جائزہ لیتے ہیں:
طالبان اگر پشتونوں تک محدود ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک مقبول عام سیاسی قوت ہوں کیونکہ پشتون سب سے بڑا لسانی گروہ ہونے کے باوجود شائد اکثریت بھی نہیں رکھتے۔ ہزارہ کے ساتھ فرقہ وارانہ بنیادوں پر جو سلوک (بشمول قتل عام) انہوں نے نوے کی دہائی میں کیا اسے ہزارہ اگلے ایک ہزار سال بھی نہیں بھولیں گے۔ تاجک آبادی کا رہنماآج بھی احمد شاہ مسعود ہی مانا جاتا ہے۔ تاجک بھی کچھ نہیں بھولے۔ ازبک بھی طالبان کے ساتھ چلنے پر تیار نہیں۔ رہی پشتونوں کی بات تو ان میں بھی طالبان کی حمایت بہت کم ہے۔ میرے اس دعوے کی بنیاد وہ سروے ہیں جو میں اپنے چوتھے نقطے کی شکل میں پیش کر رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے پشتون (درست طور پر) طالبان کو پشتون نہیں مانتے کیوں کہ طالبان پشتون کلچر اور روایات کے دشمن ہیں۔
چہارم: ایشیا فاؤنڈیشن مسلسل سالانہ بنیادوں پر ایک بھرپور سروے کرتی تھی۔ معلوم نہیں آنے والے سالوں میں ایسا ہو سکے گا یا نہیں کیونکہ طالبان کو عوامی رائے جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے نہ ضرورت۔ ہاں البتہ چیمہ صاحب سے درخواست ہے کہ اس لنک پر کلک کریں اور تھوڑا وقت اس رپورٹ کو پڑھنے پر صرف کریں۔
اسی رپورٹ سے مندرجہ ذیل گراف بھی پیش خدمت ہے:
اگر عمر چیمہ صاحب اس گراف کو غور سے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ طالبان مسلسل غیر مقبول ہو رہے تھے اور اپنی مقبولیت کے عروج پر بھی ان کی مقبولیت بائیس فیصد سے اوپر نہیں گئی۔ وجوہات صاف ظاہر ہیں۔ جب آپ میرے بچوں کے سکول میں خود کش بمبار ارسال کریں گے اور بچہ وارڈ پر اسی طرح حملہ کریں گے جس طرح اے پی ایس پشاور میں ہوا تھا تو میں طالبان سے محبت نہیں کر سکتا۔اگر میں غریب کسان ہوں اور مجھ سے بھتے وصول کئے جائیں گے تو میں طالبان سے محبت نہیں کر سکتا۔
اسی سروے سے عمر چیمہ کو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ تقریباً نوے فیصد افغان خواتین حقوق کا تحفظ چاہتے تھے اور دوحہ ڈیل سے انہیں اہم ترین خوف یہی لاحق تھا کہ عورتوں کے حقوق کا سودا ہو گا۔
آخری بات: طالبان پاکستان کے پراکسی ہیں۔ ان مذہبی جنونی قاتلوں کو افغان شہری پراکسی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ جو حرکتیں انہوں نے پچھلے تین ہفتوں میں کی ہیں، اس سے وہ مزید غیر مقبول ہوئے ہیں۔ مزید براں: پاکستان اور ایران افغانستان میں امریکہ سے بھی زیادہ غیرمقبول ممالک ہیں۔ اس کا ثبوت نہ صرف وہاں ہونے والے رائے عامہ کے جائزے ہیں بلکہ گاہے بگاہے اگر کبھی پاکستانی صحافی وہاں گئے تو انہوں نے بھی یہی رپورٹ کیا۔ امید ہے ایسی رپورٹس عمر چیمہ کی نظر سے بھی گزری ہوں گی۔ راقم خود بھی کئی بار وہاں گیا۔ پاکستان بارے لوگوں کی رائے یہاں رپورٹ کرنا بھی ممکن نہیں۔ یقین کریں اگر طالبان اتنے مقبول ہوتے جتنا عمر چیمہ ان کو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں تو پچھلے ماہ پاکستان کو یہاں سے ’صحافی‘ روانہ نہ کرنا پڑتے۔
اس موضوع پر کئے گئے ٹویٹس میں عمر چیمہ کا درست طور پر یہ کہنا ہے کہ ہمیں تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو دیکھنا ہو گا۔ ان سے پورا اتفاق ہے۔ انہیں چاہئے سب سے پہلے وہ اپنے ٹویٹ پر عمل کریں۔ ایک اور اچھا مشورہ یہ ہے کہ کسی موضوع پر رائے زنی سے پہلے تحقیق کرنی چاہئے۔ عمومی رائے عامہ، وہ بھی پاکستان ایسے ملک میں جہاں اظہار رائے کی قیمت کا عمر چیمہ کو خود اندازہ ہے، کی بنیاد پر مدلل بات ممکن نہیں ہوتی۔
اور ہاں، از راہ تفنن: چیمہ صاحب کو اپنے پاکستانی تجربے سے اتنا تو اخذ کر لینا چاہئے تھا کہ اگر طالبان تھوڑے سے بھی عوام میں مقبول ہوتے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ نہ دیتی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔