خبریں/تبصرے

بینک سے رقم نکلوانا ایک سماجی و معاشی بحران بن چکا ہے

یاسمین افغان

کابل کے باشندے شکایت کر رہے ہیں کہ کوئی خاص پروگرام نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اکاؤنٹس سے پیسے نکال سکیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے کہا ہے کہ لوگ ہفتہ وار 20 ہزار افغانی اپنے اکاؤنٹ سے نکلوا سکتے ہیں لیکن پھر بھی زیادہ تر لوگ مذکورہ رقم نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔

ایک فیس بک صارف وحید اللہ واحدی نے لکھاکہ ”آپ کو صبح 3 یا 4 بجے بینک کے باہر رہنا ہو گا اور پھر پیسے نکالنے کے لیے لمبی لمبی لائنوں میں انتظار کرنا ہو گا اور دن کے اختتام پر یہ رقم بھی روزانہ کے اخراجات کیلئے کافی نہیں ہوتی “۔

داؤد (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ ”ہم حالات سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہم ہر روز بینکوں میں جاتے ہیں لیکن پیسے نہیں نکال سکتے۔“

افغانستان کے مقامی میڈیا کے مطابق نقدی بہت کم اور مانگ بہت زیادہ ہے۔ بینکوں اور منی ایکسچینج مارکیٹوں کی بندش نے لوگوں کے لئے معاشی بحران پیدا کیا ہے۔

کابل شہر کے مغرب کے رہائشی احمد (فرضی نام) نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ”میں نے ایک بین الاقوامی این جی او کے لیے کام کیا تھا اور مشکل دنوں کے لیے پیسے بچائے تھے لیکن اب میں طویل قطاروں اور نقدی کی کمی کی وجہ سے وہ رقم نکلوا ہی نہیں سکتا۔“

کابل کے مغرب کی ایک اور رہائشی مژگان (فرضی نامی) کا بھی کہنا تھا کہ ”میں ایک سرکاری ملازم تھی، میں نے تھوڑی سی رقم بچائی تھی لیکن نقدی ہی نہیں ہے۔ میں نہیں جانتی کہ ہم کیسے زندہ رہیں گے۔“

مژگان کی بہن، جو کہ ایک سکول ٹیچر ہے، نے بتایا کہ ”میں نہیں جانتی کہ اپنا کرایہ کیسے ادا کروں۔ کابل میں زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ ہم اتنے کم پیسوں سے کب تک انتظامات چلا سکیں گے۔“

ایک فیس بک صارف عبدالغفار بازل نے لکھا ہے کہ ”میں وہاں (بینک میں) تھا، یہ ایک تباہ کن صورتحال ہے۔ ہر روز لوگ آتے ہیں اور کوئی جواب دہ نہیں ہوتا۔“

15 اگست 2021ء کو کابل کے سقوط کے بعد سے کابل اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں بینکوں کے پاس مطلوبہ رقم ہی موجود نہیں ہے جسے لوگ نکلوا سکیں۔

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔