یاسمین افغان
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک یونیورسٹی پروفیسر محمد صابر انسان دوست نے اپنے خاندان کے ہمراہ کفن پوش احتجاج کیا ہے اور معاشی صورتحال، کام اور تعلیم سے خواتین کو محروم کئے جانے سمیت افغانستان کی صورتحال پر دنیا کی خاموشی کے خلاف نعرے لگائے ہیں۔
احتجاج کرنے والے خاندان نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس میں انگریزی اور دری زبان میں نعرے درج تھے کہ ”ہم بے روزگار اور بھوکے ہیں، 100 فیصد امتیازی سلوک اور تعصب ہے، خواتین کام سے محروم ہیں اور ہماری بیٹیاں تعلیم، اسلامی آزادی اور انسانی حقوق سے محروم کر دی گئی ہیں، ہمیں تحفظ، استثنیٰ اور ایک منتخب نظام میسر نہیں ہے، جو بائیڈن افغان مخالف ہیں اور انہوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا، دنیا ہمیں خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔“
پروفیسر کی سب سے چھوٹی بیٹی نے ایک کتبہ اٹھا رکھا ہے جس پر نعرہ درج تھا کہ ”ہمارے لیڈر غدار تھے، انہوں نے ہمیں بیچ دیا، ہم انہیں معاف نہیں کریں گے۔“ ایک اور کتبے پر لکھا تھا کہ ”ہم بھوکے ہیں کیونکہ ہمارے والد بے روزگار ہیں۔“
ایک بچے نے دو کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے درج تھے کہ ”زلمے خلیل زاد، کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے بار بار اپنے ملک کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔“
دسویں جماعت کی طالبہ اور پروفیسر کی بڑی بیٹی نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ ”طالبان، کس جرم کی وجہ سے تم نے مجھے تعلیم سے محروم کیا؟“
دنیا کے لیے یہ ایک چھوٹا سا احتجاج لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے افغانستان میں ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کئے جانے کے باوجود اس بہادر خاندان نے باہر آ کر دنیا کو دکھانے کے لیے احتجاج کیا کہ ان کی خاموشی نے افغانستان کو ایک زندہ خواب میں بدل دیا ہے، لیکن دھمکیوں کے باوجود افغان سڑکوں پر آئیں گے، چاہے وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں، اپنی آواز بلند کریں گے۔ ان چھوٹے مظاہروں کے بعد مستقبل قریب میں بڑے احتجاج ہوں گے۔
محمد صابر انسان دوست کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ اس خاندان کا احتجاج مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے کابل کے ایک علاقے سلیم کاروان سے شروع ہوا اور وہ شہر نو کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن طالبان نے انہیں زبردستی روک دیا۔
اطلاعات روز کے ساتھ ایک انٹرویو میں صابر انسان دوست نے کہا کہ طالبان نے انہیں قید کی دھمکی دی ہے، طالبان نے دو صحافیوں کو بھی مارا پیٹا اور اس علاقے میں موجود لوگوں کے موبائل فون سے ویڈیوز ڈیلیٹ کر دی ہیں۔