یاسمین افغان
افغان خواتین نے افغانستان کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ وہ بہت سی دوسری قوموں سے بہت پہلے 1919ء میں ہی ووٹ ڈالنے کی اہل تھیں اور افغانستان کے 1964ء کے آئین نے انہیں مساوی حقوق دیئے تھے۔ یہ سب افغان خواتین کی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
افغانستان کا سیاسی منظر نامہ اس وقت بدل گیا جب یو ایس ایس آر نے اس پر حملہ کیا اور یوں افغانستان میں خونریزی شروع ہوئی اور پھر 1992-1996ء میں ’مجاہدین‘اقتدار میں آئے۔اس عرصہ میں نہ صرف شہری ہلاکتیں ہوئیں بلکہ کئی دوسرے گھناؤنے جرائم بھی رونما ہوئے۔ کابل اور دوسرے بڑے شہر تباہ ہو گئے،پھر طالبان کا دور آیا جب انہوں نے 1996-2001ء میں اقتدار سنبھالا۔
کابل اور دوسرے بڑے شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے، تمام سرکاری ادارے بند کر دیے گئے اور طالبان نے جو کچھ بھی کیا وہ ’مجاہدین‘دور کے سخت قوانین کو دوبارہ نافذ کر کے افغان آبادی کو خوفزدہ کرنے کے علاوہ ہاتھ اور پاؤں کاٹنے اور موسیقی پر پابندی لگانے جیسے اضافی قوانین کو شامل کرنا تھا۔
اس عرصے کے دوران بہت سی دانشور افغان خواتین یا تو افغانستان چھوڑ گئیں یا اپنا کام جاری رکھنے کے لیے زیر زمین چلی گئیں۔ ان تمام حالات میں افغان خواتین کی جدوجہد جاری رہی۔ 2001ء کے آخر میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر حملے کے بعد ایسے حالات بنے کہ خواتین کو کچھ ریلیف ملا کیونکہ کچھ ہی دنوں میں طالبان ختم ہو گئے تھے لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغان جنگجوؤں (وارلارڈز)کو دوبارہ مسلط کردیا۔
ناکامیوں کے باوجود افغان خواتین کی جدوجہد اور افغانستان کے نئے آئین نے انہیں تعلیم، کام کاج اور شہری آزادیوں کے حقوق دیئے، ہم اسے ایک لفظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آئین نے خواتین کو مساوی حقوق دیے، اگرچہ یہ زیادہ تر کاغذ پر تھا لیکن بڑے شہروں میں افغان خواتین کی اکثریت ان حقوق کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ اس عمل نے 20 سال تک مضبوط خواتین کی نئی نسل کی پرورش کے لیے کام کیا۔ امریکہ یا بین الاقوامی اتحادیوں نے یہ حقوق افغان خواتین کو پلیٹ میں نہیں دیے بلکہ یہ افغان خواتین تھیں جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا۔
اب پلک جھپکتے ہی افغان خواتین وہ تمام حقوق کھو چکی ہیں۔نہ صرف وہ حقوق جن کیلئے وہ انتھک اور تندہی سے لڑی تھیں بلکہ خواتین کارکنوں کو اب طالبان تلاش کر رہے ہیں۔ ذیل میں ایک دوست کی کہانی ہے، جو ایک کارکن ہیں اور گزشتہ برسوں میں افغان خواتین کے حقوق کے لیے کام کر چکی ہیں۔ انکی شناخت اور مقام گمنام رکھا جائے گا۔
ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے شاہ نے پکڑے جانے کے خوف سے اپنی کہانی دھیمی آواز میں بیان کی۔ انہوں نے مجھے بتایا ”رات کے اوائل میں تقریباً 8 طالبان ان کے اپارٹمنٹس میں آئے جن میں وہ رہ رہے تھے اور نیچے لوگوں کے شور نے انہیں خبردار کیا کہ طالبان آگئے ہیں۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی اس نے نیچے سے آواز سنی،انہوں نے لائٹس بند کر دیں، طالبان سیدھے ان کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر آئے اور دروازے پر لاتیں مارنا شروع کر دیں۔ وہ گھنٹی نہیں بجا رہے تھے اور صرف اس طرح لاتیں مار رہے تھے جیسے انہیں کسی مجرم کا گھر مل گیا ہو، جس نے قتل کیا ہو اور اسے گرفتار کرنے کے لیے بے چین ہوں۔ میں نے اپنے شوہر کو دروازہ کھولنے سے روک دیا کیونکہ میں جانتی تھی کہ اگر وہ دروازہ کھولتے ہیں تو یہ ہمارا آخری دن ہوگا۔ میں سانس نہیں لے سکتی تھی اور کانپ رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں 20 سال پہلے والی حالت میں واپس چلی گئی، جب میں 10 سال کی بچی تھیں اور طالبان نے ہمارے دادا کے دروازے پر دستک دی تھی، وہ ہمارے صحن میں کیسے داخل ہوئے تھے اور میرے والد اورچچاؤں کو تلاش کر رہے تھے جو وہاں نہیں تھے۔ پھر وہ ہمارے دادا کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد میرے 14 اور 16 سال کے کزنوں کواپنے ساتھ لے گئے“۔
ان کی آواز مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔ میں نے انہیں رونے دیا اور پھرانہوں نے بات جاری رکھی۔”کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا،وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں اور انہوں نے اپنے باغات کو کھو دیا پھر جب باغات جل گئے اور انہیں آدھی رات کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا“۔
اپنے دروازے پر طالبان کی لاتوں کی آوازیں سنتے ہوئے انہیں لگا کہ ”یہ میری زندگی کے طویل ترین لمحات تھے جہاں میں نہیں جانتی تھی کہ ہمارے لیے آگے کیا ہو گا‘۔
ان کے بقول:”خوش قسمتی سے ایک پڑوسی نے طالبان کو بتایا تھا کہ وہ خاندان اس رات وہاں نہیں تھا اس لیے وہ وہاں سے چلے گئے لیکن جاتے ہوئے اپارٹمنٹ کے محافظ کا نمبر مانگا۔ جب وہ چلے گئے اور سب کچھ پرسکون تھا تومحافظ آیا اور اس نے بتایا کہ طالبان نے اسے کہا تھا کہ اگر اگلے چند دنوں میں یہاں کوئی مارا جاتا ہے تووہ انہیں فون کرے۔ محافظ نے ہم سے کہا تھا کہ ہمیں گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے جانا چاہیے کیونکہ طالبان دوبارہ لوٹ آئیں گے اور اس بار کوئی ان کی حفاظت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دروازہ توڑ سکتے ہیں اور دوسرے پڑوسیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی“۔
اگلی صبح منہ اندھیرے وہ گھر سے دوسری جگہ چلے گئے۔
انکا کہنا تھا: ”لوگ دہشت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ محفوظ طریقے سے اس لیے نہیں رہ سکتیں کہ آپ ایک پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور یہ کہ آپ پچھلی حکومت میں سرگرم تھیں اور نہ صرف اپنے حقوق بلکہ دوسروں کے حقوق کا بھی دفاع کیا اور تمام افغانوں کیلئے ایک بہتر ملک کیلئے انتھک محنت کی۔ میرا کابل اور میرے لوگ جنگلی لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ میں پہلے ہی قید میں ہوں اور اب ڈر ہے کہ وہ مجھے جلد ہی ڈھونڈ لیں گے اور میری آزادی، جمہوریت اور خواتین کے حقوق سے محبت کے لیے مجھے مار ڈالیں گے۔ میں نہیں جانتی کہ میں اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کے لیے کتنی دیر تک دوڑ سکوں گی۔“
تلاشیوں، لوگوں کے اغوا اور قتل کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ بی بی سی فارسی پرعالیہ عزیزی سے متعلق ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جو ہرات میں خواتین کی جیل کی سربراہ تھیں، جب طالبان اقتدار میں واپس آئے تو طالبان کی جانب سے انھیں اپنی نوکری پر واپس آنے کے لیے کہا گیا۔ ان کے بھائی کے مطابق وہ نوکری کے دوران غائب ہو گئیں۔
چند ہفتے قبل فیروزکوہ میں ایک حاملہ پولیس خاتون کو قتل کیا گیا اور بی بی سی کے مطابق عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ بانو نگار کو ان کے شوہر اور بچوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کے پاس فہرستیں ہیں اور فہرست میں شامل افراد کے لیے گھر تلاش کرتے ہیں اور پھر انہیں لے جاتے ہیں اور زیادہ تر معاملات میں کچھ دن بعد لاشیں ہی ملتی ہیں۔