التمش تصدیق
دوسروں کی محنت پر عیاشی کرنے والے طبقات نے ہمیشہ محنت کرنے والوں کو حقیر اور کمتر تصور کیا ہے۔ کسی بھی عہد میں بالادست طبقے کی نفسیات ہی اس سماج کی حاوی نفسیات رہی ہے۔ اس لیے معمول کے حالات میں زیر دست طبقات بھی اسی نفسیات کا شکار ہوتے ہیں اور خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔ حکمران طبقے نے محکوم طبقے کی محنت کے استحصال کے ساتھ ان کو ہمیشہ احساس کمتری اور احساس جرم کا شکار رکھا ہے۔ ان کی اس حالت کا ذمہ دار ان کی ذہنی صلاحیتوں میں کمی، تقدیر کا لکھا اور دیوتاؤں کی منشا کو قرار دیا ہے۔
غلام داری میں عورتوں کو آدھا انسان اور غلاموں کو انسان تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ یہی صورتحال دیگر طبقاتی سماجوں کی بھی رہی ہے۔ جاگیر داری میں مزاروں کا جاگیرداروں کے برابر بیٹھنا بھی جرم تصور کیا جاتا تھا۔ سرمایہ داری میں بھی محنت کشوں کی حالت کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ غلام داری میں جس طرح غلام مالکان اور جاگیر داری میں زمین مالکان عزت کے حقدار رہے ہیں موجود سرمایہ داری میں بھی عزت دار کمپنیوں، بینکوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور میڈیا سمیت دیگر اداروں کے مالکان سرمایہ دار ہیں۔
امیر لوگوں کے بارے میں ایسی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں جیسے وہ اس سیارے کی مخلوق ہی نہ ہوں۔ ان کی دولت اور طبقاتی حیثیت کو ان کی غیر معمولی ذہانت اور انتھک محنت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی طرز زندگی اور دولت کو انسان کی کامیابی کا اعلی معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس معیار تک پہنچنے کی دوڑ میں اربوں انسانوں کو دوڑایا جاتا ہے جس میں سے کامیاب ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہوتا باقی نا اہل ہوتے ہیں یا ان میں صلاحیتوں کی کمی ہوتی ہے بلکہ اس لیے ہوتا ہے اس نظام میں چند انسانوں کے لیے حکمران طبقے کے طے کردہ معیار پر پہنچنے کی گنجائش ہے تمام انسانوں لیے یکساں آگے بڑھنے کے مواقع موجود نہیں ہیں۔ اربوں انسانوں کی محنت لٹتی ہے تو چند سرمایہ دار پیدا ہوتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں اڑنے والے ننگے پاؤں دوڑنے والے سے پہلے منزل پر پہنچ جاتے ہیں اس لیے وہ یہ دوڑ جیت جاتے ہیں۔
اس نظام میں سب سے بڑا جرم اور گناہ غربت ہے۔ ماضی میں انفرادی ہنر کی وجہ سے انسان کی جو عزت اور قدر تھی اس کو بھی ختم کر کے سرمایہ داری نے عزت کا واحد معیار قائم کیا وہ سرمایہ ہے۔ مارکس کمیونسٹ مینی فسٹو میں لکھتا ہے ”سرمایہ داری نیعزت و تکریم کی نظر سے دیکھے جانے والے ہر پیشے سے اس کا وقار چھین لیا ہے۔ اس نے ڈاکٹر، وکیل، مذہبی پیشوا، شاعر اور سائنسدان کو اپنے اجرتی مزدور میں بدل دیا ہے“۔ ان پیشوں سے وابسطہ یہ اجرتی مزدور اپنی طبقاتی حثیت کو ان پیشوں کی ماضی کی عظمت کی بنیاد پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کے اس نظام میں تمام تر پیدوار اور دولت کے خالق محنت کشوں کو کمتر، کام چور، ذلیل و حقیر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں صفائی کرنے والے محنت کش کو گندا اور ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے سرمایہ دار کو پاک تصور کیا جاتا ہے۔ بڑے مکانوں میں رہنے والوں اور مہنگی گاڑیوں میں گھومنے والوں کو بڑا انسان سمجھا جاتا ہے اور ان کے بنانے والوں کو چھوٹا انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس سماج کو چلانے والے طبقے کی شناخت محنت کش اور مزدور لفظ کو ہی گالی بنا دیا گیا ہے۔ مزدور طبقے کی بہت سی پرتیں جو خود کو مزدور کہتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہیں۔ استاد، ڈاکٹر، انجینئر اور ہنر مند محنت کشوں کی دیگر پرتیں خود کو محنت کش کہلوانے میں بے عزتی محسوس کرتی ہیں۔
حکمران طبقہ مختلف شعبوں میں اجرتوں اور مراعت میں تفریق کے ذریعے محنت کی تقسیم کو محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جو شحص محنت بیچ کر اجرت وصول کرتا ہے وہ محنت کش ہے۔ اس نظام میں محنت کش طبقے کو کمتر سماجی مقام حاصل ہے اس لیے محنت کش بھی عام حالت اپنی غربت، محرومیوں، مجبوریوں اور ذلتوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی احساس کمتری کو چھپانے کے لیے وہ دیگر شعبوں کے محنت کش ساتھیوں پر اپنے پیشے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا مذہب، نسل اور قوم کی بنیاد پر اپنا تعلق حکمران طبقے سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹھوس مادی حقائق کو مصنوعی نظریات اور تعصبات کی چادر کے نیچے ہمیشہ کے لیے نہیں چھپایا جا سکتا ہے۔ معاشی حالات کی سختیاں اور روزانہ کی ذلتیں محنت کشوں کو نہ صرف ان حات کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ ہر اس سوچ اور نظریہ کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کرتی ہے جو اس کی غلامی کو جواز مہیا کرتی ہے۔ جب غلام اپنی طبقاتی حثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس غلامی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو انقلاب کا آغاز ہوتا ہے۔ کارل مارکس نے اسی بنا پر کہا تھا ”انقلاب فقط اسی وجہ سے ضروری نہیں ہے کہ حکمران طبقے کو انقلاب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا بلکہ انقلاب اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ انقلاب ہماری ذات کی تطہیر کرتا ہے جس سے اطاعت و بندگی، تذبذب اور تشکیک کے داغ دھل جاتے ہیں اور انسان اس آگ میں کندن بن کر نکلتا ہے“۔ آج کے عہد میں سرمائے کی حاکمیت کو شکست دے کر ہی محنت کی عظمت کو بحال کیا جا سکتا ہے اور ہزاروں سالہ طبقاتی غلامی اور اس کی نفسیات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے جو انسان کو انسان تسلیم نہیں کرتی۔ محنت کش طبقہ محض مظلوم اور قابل رحم طبقہ نہیں ہے یہی طبقہ اس نظام کو چلاتا ہے اور اسے بدلنے کی صلاحیت رکھنے والا انقلابی طبقہ ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی:
ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے