کینڈین مصنف ’جسٹن پوڈور‘ نے ایک مضمون کی تحریر کیلئے ماہر طبیعات اور دانشورپرویز ہودبھائی کو چند سوالات بھیجے تھے، جن کے جوابات انہوں نے سوالاً جواباً ارسال کئے۔ مصنف نے جوابات کو اپنے مضمون کا حصہ بنانے کے بعد بطور انٹرویو مختلف اشاعتی اداروں کو ارسال کیا ہے۔ جدوجہد کے قارئین کیلئے سے انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے:
جسٹن پوڈور: آپ اس وقت بلوچستان کی تحریکوں کے مطالبات کو کس طرح بیان کریں گے؟ کئی دہائیوں کے کئی تنازعات کے بعدکیا مختلف مطالبات کے ساتھ مختلف رجحانات ہیں، جن میں سے کچھ خود مختاری، وسائل کا زیادہ حصہ اور کچھ سراسر علیحدگی کے لیے کام کر رہے ہیں؟
پرویز ہودبھائی: سیاسی لحاظ سے بلوچستان 1947ء میں پاکستان کی پیدائش کے بعد سے بغاوت کا شکار رہا ہے، جو آج بھی برقرار ہے۔ قوم پرست پنجابی قبضے، بلوچ آزادی کی بحالی (ریاست قلات کا حوالہ دیتے ہوئے) اور تاریخی بلوچ سرزمین کے دوبارہ اتحاد کی بات کرتے ہیں، جو اب تین ریاستوں اور ان کے اندر متعدد صوبوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ 1973ء تا 1976ء کی جنگ مارکسی قیادت میں تھی اور اس کے بعد مرکز کی طرف سے بدسلوکی کا ایک طویل سلسلہ چلا، جس میں بلوچستان کی معدنی دولت کی بے دریغ نکاسی بھی شامل تھی۔ 1973ء میں اس شورش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا بھٹو کا حکم 1971ء میں بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد مایوس فوج کے لیے ایک تحفہ تھا۔ اس شورش کو دبانے کی آخری قیمت 3000 سے 3500 فوجیوں، 5000 سے زیادہ بلوچ جنگجوؤں اور کئی ہزار شہریوں کی موت کی صورت میں سامنے آئی۔
جسٹن پوڈور: ریاست بلوچ تحریکوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے؟ کیا جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بیچ کچھ ڈائیلاگ یا نمائندگی کو بہتر بنانے کی کچھ کوششیں بھی ہو رہی ہیں؟
پرویز ہودبھائی: آرمی اسٹیبلشمنٹ ہر طرح کی چالیں استعمال کرتی ہے لیکن کوئی حقیقی نرمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ وہ (آرمی اسٹیبلشمنٹ) بلوچ قوم پرستی کو اپنی بالادستی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے بعد خاص طور پر اہم ہو گیا ہے جس سے بلوچ ناراض ہیں۔ لاطینی امریکہ کے خوفناک جرنیلوں کی طرح پاکستان کے جرنیلوں نے بھی شورشوں کو کچلنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ برسوں کے دوران سڑکوں کے کنارے تشدد زدہ لاشیں ملنے کے سلسلہ جاری رہا اور ہزاروں بلوچ نوجوان لاپتہ ہو گئے، کچھ توہمیشہ کے لیے ہی لاپتہ ہو گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد درخواستوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کیاہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جان بوجھ کرسپاہ صحابہ جیسی انتہا پسند عسکریت پسند مذہبی تنظیموں کو بلوچ قوم پرستی کے تریاق کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس نے ایک طرح سے ہی کام کیا، جو کبھی 1973ء کی بغاوت کی طرح مارکسی نظریات سے متاثر بغاوت تھی، وہ اب نسلی طور پر زیادہ پر مبنی ہے۔
جسٹن پوڈور: کیا پاکستان میں بلوچستان کی تحریکوں اور پاکستان کے دیگر حصوں کے سیاسی کارکنوں کے درمیان کوئی مشترکہ جدوجہد ہے؟ یاسرکاری سیاست کی سطح پر کچھ ہے؟ بلوچستان کے حالات باقی پاکستان میں کیسے دیکھے جاتے ہیں؟
پرویز ہودبھائی: پاکستان کے بیشتر حصوں میں بلوچستان بہت دور دراز کی زمین ہے جس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ مین سٹریم میڈیا بلوچوں کے معاملات پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ بلوچستان کے واقعات کی درست رپورٹنگ کرنے والا کوئی صحافی زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی توقع نہیں کر سکتا۔ حکمران اشرافیہ کے لیے بلوچستان اتنا حساس مسئلہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیاں سیمینار یا میٹنگز نہیں کر سکتیں اور پنجاب اور سندھ میں بلوچ طلباء پر نام نہاد ’ایجنسیاں‘ کڑی نظر رکھتی ہیں۔ جنوری 2022ء کو، طالبان کی طرف سے ممکنہ طور پر دہشت گردانہ حملے کے بعد بلوچ طلبہ کو لاہور میں گرفتار کیا گیا، جو (بلوچستان سے) کئی سو میل دور ہے۔
جسٹن پوڈور: کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اب زیادہ پر اعتماد محسوس کر رہی ہے اور کیا اس کا بلوچستان کے حالات پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے؟
پرویز ہود بھائی: اصولی طور پر یہ ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کی حکمرانی نے پاکستان کی پنجاب میں قائم سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی کو کم نہیں کیا ہے۔ یہ وسائل نکالنے اور بلوچستان کو چینیوں کے لیے محفوظ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جرنیل امریکہ سے خوفزدہ ہوں، بلکہ یہ بلوچستان میں بھارت کی ’ٹٹ فار ٹیٹ‘ تھی جس سے وہ خوفزدہ تھے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کئی دہائیوں تک پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شورش کو ہوا دینے میں مدد کی اور اب اسے اسی طرز کا بدلہ مل رہا ہے۔
جسٹن پوڈور: مجھے لگتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات نچلی سطح پر ہیں، جس میں ایف اے ٹی ایف کی مالی پابندیاں اور دیگر اثرات شامل ہیں۔ کیا اس کا بلوچستان کی صورتحال پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ بلوچستان میں امریکی خفیہ آپریشنز کی صورت(اور/یا 2021ء کے افغانستان سے پہلے اور بعد…)؟
پرویز ہود بھائی: پاکستان کے جرنیل اس بات سے ناراض ہیں کہ اب جب کہ ان کے لڑکوں نے افغانستان میں کامیابی حاصل کی ہے، ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو ان کی یا پاکستان کی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔ آخرکار انہوں نے کئی دہائیوں تک ’کولیشن سپورٹ فنڈز‘کیلئے قتل عام کیا، جو نیٹو کی طرف سے خشکی سے گھرے افغانستان میں ٹرکوں کی سپلائی کے عوض فراہم کئے جا رہے تھے۔ گزشتہ اگست کے بعد جیو پولیٹیکل اہمیت کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ شوربے کا یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ چین نے پاکستان میں 62 بلین ڈالر صرف کئے ہیں لیکن یہ سب قرضے اور سرمایہ کاری کی مد میں ہیں، امداد تقریباً کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے جرنیل چالاکی سے افغانستان میں امریکی اڈے استعمال کرنے کے لیے دینا چاہیں گے، لیکن امریکا نے وہاں اپنی کشتیاں جلا دی ہیں، فی الحال اس کے افغانستان میں بڑے پیمانے پر فوجی عزائم نظر نہیں آتے۔ اس کی بجائے وہ چین کے خلاف بھارت کے ساتھ اتحاد کرے گا۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ اتحاد بہت مشکل ہے۔
جسٹن پوڈور: کیا بلوچستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات واقعی متعلقہ نہیں ہیں یا یہ اب بھی متعلقہ ہے؟
پرویز ہود بھائی: بلوچستان میں جب بھی سیکیورٹی فورسز یا چینی شہریوں پر حملہ ہوا ہے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بھارت پر الزام لگایا ہے۔ 2017ء میں جعلی پاسپورٹ کے ساتھ ایک بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ’CPEC‘ کو تباہ کرنے کی کوشش میں بھارت کے ملوث ہونے کا ایک ٹھوس ثبوت تھا۔ کیا یہ الزام درست ہو سکتا ہے؟ ممکنہ طور پر ایسا ہو سکتا ہے۔ عام اصول کے طور پر جب بھی کوئی آبادی ان لوگوں سے ناراض ہوتی ہے جنہیں وہ قابض طاقت کے طور پر دیکھتی ہے، تواس طاقت کے دشمنوں کے لیے اندرونی اتحادی تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایل او سی کے دوسری طرف بھارتی (زیر انتظام)علاقے میں کشمیریوں کو کامیابی سے بھرتی کرنے میں کامیاب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اب پاکستان کے خلاف بھارت کے ترکش میں تیر بن چکا ہے۔
جسٹن پوڈور: ایک اور سوال یہ ہے کہ پاکستان کشمیر میں اپنا اثر و رسوخ کیسے کھو چکا ہے اور کیا یہ ایک عارضی صورتحال ہے یا نہیں؟
پرویز ہود بھائی: بھارت نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اس قدر باڑ لگا دی ہے کہ پاکستان میں مقیم ’جہادیوں‘کو اس کی خلاف ورزی کرنا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر’جہاد‘ کے بنیادی ڈھانچے کو کم کرنا پڑا ہے، کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی پابندیوں، خاص طور پر ’FATF‘ (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) نے پاکستان کو سرحد پار سرگرمیوں کی حمایت بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تاہم بھارت پاکستان کے نقصان کو اپنے فائدے میں تبدیل نہیں کر سکا۔ بھارت کی حکمران جماعت کی ہندو قوم پرستی وادی کشمیر کے مسلمانوں کی اکثریت کے لیے ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا ایک خاموشی ہے، لیکن نہ بھارت اور نہ ہی پاکستان تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں۔
جسٹن پوڈور: اسلام آباد بلوچستان میں چین کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس حد تک کیوں گیا؟ بلوچ باغی چینی منصوبوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟
پرویز ہودبھائی: اسلام آباد کے ’زاروں‘نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بلوچستان اسمبلی اور مختلف وزرائے اعلیٰ کو 62 بلین ڈالر کے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) منصوبے، جس کا گوادر اہم مقام ہے، سے متعلق معاملات میں تقریباً کوئی بات نہ کرنے دی جائے۔ گوادر کی بندرگاہ، جو کہ تاریخی طور پر ماہی گیری کا گاؤں تھا، خلیج فارس میں چین کا مستقبل کا اڈہ ہے۔ اس لیے چین کو اسلام آباد کے ساتھی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور چینی تاجروں، انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کے قتل اور اغوا کو’فیئر گیم‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 2018ء میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر اور 2019ء میں گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی اور ’CPEC‘ کوریڈور کو جھٹکا دیا تھا۔
دسمبر 2021ء میں گوادر میں احتجاج اس قدر نمایاں اور بلند ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے حقیقت کو چھپانا یا دبانا ناممکن ہو گیا۔ یہ لوگ تربت، پشکان، زامران، بلیدہ، ماڑہ اور پسنی سمیت گوادر کے قریبی علاقوں سے تین ہفتوں تک خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک، خاص طور پر پینے کے پانی کی کمی اور چینی ماہی گیری کے جہازوں کی مداخلت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ بلوچستان میں احساس محرومی دور دور تک محسوس کیا جاتا ہے۔ بلوچ قوم پرست محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ مرکز کے ہاتھوں فروخت کئے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو، جنہوں نے نکسن سے وائٹ ہاؤس میں دو بار ملاقات کی تھی، نے گوادر کو امریکہ کے سامنے اس نظریے کے ساتھ پیش کیا تھا کہ وہ اسے بحری اڈے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم امریکہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ امریکہ کے پاس پہلے ہی ایران کی امریکہ نواز حکومت کے شاہ کے تحت چابہار میں بحری جہاز موجود تھے!
جسٹن پوڈور: صورتحال کو بہتر بنانے کے کیا امکانات اورتناظرات موجود ہیں؟
پرویز ہود بھائی: اس کے مختلف لوگوں کے تنوع کا مطلب یہ ہے کہ نسلی قوم پرستی ہمیشہ مرکز کے لیے ایک چیلنج رہے گی، لیکن یہ بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ بہت زیادہ تنوع کے باوجود بھارت ایک مستحکم سیاسی نظام تیار کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کی تباہی نے فیصلہ کن طور پر اس کے اس یقین کے کھوکھلے پن کو ظاہر کیا کہ مذہب مختلف لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کے لیے کافی ہے۔ نہ ہی خام قوت ہمیشہ کام کرے گی۔ پاکستان کے استحکام کی کنجی فوج کی مٹھی کو مزید سخت بنانے یا قوم پرست عدم اطمینان پر قابو پانے کی کوشش میں مذہب کی سخت قسموں کو پھیلانے میں مضمر نہیں ہے۔ اس کی بجائے اسے وفاق کی طاقت کو تیزی سے محدود کرنے، صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پاکستان کی مختلف ثقافتوں اور زبانوں کو ان کا حق دینے میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ طویل مدت میں صرف ایک نظام ہی زندہ رہ سکتا ہے جس میں سب کا حصہ ہو۔