تاریخ

محنت کش یوم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر کیوں مناتے ہیں؟

فاروق طارق

یوم مئی 1886ء کے شکاگو میں شہید ہونے والے محنت کش رہنماؤں کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔ یہ محنت کش 8 گھنٹے روزانہ کام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس واقعہ کے 136 سال بعد بھی آج پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں ایک باعزت زندگی گذارنے کے لئے محنت کشوں کو 8 گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اکثر ممالک میں محنت کش طبقہ ایک سے زیادہ نوکریاں کرنے پر مجبور ہے تا کہ وہ اتنے پیسے کما سکے کہ اس کے خاندان کو بھوکا نہ سونا پڑے۔ یوں یوم مئی کے ٹاسک آج بھی پورے ہونا باقی ہیں۔

اس 136 سالہ تاریخ میں اس دفعہ یوم مئی عیدالفطر سے صرف دو تین روز قبل منایا جائے گا اور رمضان المبارک کے آخری روزوں کی وجہ سے مسلم محنت کش اس جوش و خروش سے یوم مئی نہیں منا سکیں گے جس کا اظہار پاکستان سمیت مسلمان اکثریت ممالک میں کیا جاتا رہا ہے۔

2019ء میں کرونا اور سرمایہ دارانہ بحران کی وجہ سے پاکستان میں کم از کم دو کروڑ نئے غریبوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ مزدورطبقہ کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے اور انہیں حکومت کی مقرر کردہ 25,000 روپے کم از کم ماہانہ تنخواہ بھی ادا نہیں کی جاتی۔ انہیں آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

اس پس منظر میں یہ اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ یوم مئی کو جوش و خروش سے منایا جائے اور محنت کشوں کے مطالبات کو پورے زور سے پیش کیا جائے۔ یوم مئی صرف ایک تاریخی دن منانے کا نام نہیں ہے۔ یہ تجدید عہد کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم طبقاتی بنیادوں پر سرمایہ دار طبقات کے خلاف اپنی صفوں کو منظم کرتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں۔

آیئے ذرا یوم مئی کی تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں:

انیسوی صدی کے دوران محنت کش طبقات آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے تھے۔ کام کے حالات برے تھے اور اکثر محنت کش 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ کام پر اکثر صنعتی حادثے ہوتے تھے اور اکثر اوقات مزدور ان حادثات میں ہلاک بھی ہو جاتے تھے۔

اٹھارویں صدی کے درمیان تک صورتحال یہ تھی کہ مزدور آٹھ گھنٹے روزانہ کام کے لئے کسی کامیابی کے بغیر جدوجہد میں مصروف رہے۔ یہ وہ دور تھا جب سوشلزم کے نظریات تیزی سے عام محنت کشوں میں مقبول اور جگہ بنا رہے تھے۔ مختلف قسم کی سوشلسٹ تنظیمیں معرض وجود میں آ رہی تھیں اور یہ تنظیمیں اور تحریکیں محنت کش طبقات کو ٹریڈ یونینوں میں منظم کرنے کی جستجو میں رہتی تھیں۔

ایسی ہی ایک امریکی ٹریڈ یونین فیڈریشن جس کا نام تھا فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈ اینڈ لیبر یونینز جو بعد میں امریکن فیڈریشن آف لیبر کہلائی نے 1884ء میں اپنے ایک کنونشن میں منظور ہونے والی ایک قرارداد کے ذریعے یہ طے کر دیا کہ مئی 1886ء کے دن سے مزدوروں کے لئے ایک دن کا کام صرف آٹھ گھنٹے پر مشتمل ہو گا اور یہ ان کا لیگل دن ہو گا۔

انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے یکم مئی 1886ء سے ہڑتالوں اور مظاہروں سے بھی کام لیا جائے گا۔ صرف ایک سال قبل 1885ء میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ محنت کش شکاگو اور دیگر امریکی شہروں میں آٹھ گھنٹے کام کے مطالبہ کے لئے جدوجہد میں شریک ہو گئے۔

یکم مئی اب امریکی محنت کشوں کے لئے ایک ایسا دن بن کر ابھر رہا تھا جب آٹھ گھنٹے کام کو قانونی حیثیت مل سکتی تھی۔ یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے تین لاکھ مزدور جن کا تعلق 13000 صنعتی اداروں سے تھا مظاہروں میں شریک ہوئے۔ مطالبہ ایک ہی تھا ”کام آٹھ گھنٹے روزانہ“ اس سے زیادہ نہیں۔

امریکہ سے قبل آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں 1856ء میں آٹھ آٹھ آٹھ کی ایک تحریک چلی، یعنی روزانہ کے 24 گھنٹوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا، یہ کہا گیا کہ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریحی سرگرمیاں اور آخری آٹھ گھنٹے آرام یعنی سونا۔

اس تحریک میں کنسٹرکشن میں کام کرنے والے مستریوں اور مزدوروں نے حصہ لیا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آج بھی ملبورن میں آٹھ گھنٹے کام کی یاد میں شہر کے وسط میں ایک مجسمہ موجود ہے۔ اسے آٹھ گھنٹہ چوک بھی کہا جاتا ہے۔ راقم کو اس جگہ پر اسٹریلین ٹریڈ کونسل کے ایک بڑے ہال میں کئی دفعہ عالمی مزدور اور لیفٹ کانفرنسوں میں شرکت کا موقع مل چکا ہے۔

امریکی شہر شکاگو میں یوم مئی 1886ء کے روز 40,000 سے زیادہ مزدوروں نے ہڑتال شروع کر دی، اس روز انقلابی تقریروں نے ماحول گرم کر دیا، مزدور رہنماؤں البرٹ پارسن، جوہان موسٹ، اگست سپائیس اور لوئیس لنگ کی تقریروں نے ان کو گھر گھر مقبول کر دیا۔ ہر فرد ان کو جاننے لگ گیا تھا۔ مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی۔ یوم مئی کو یہ جلوس پورے شہر کا چکر لگا کر ختم ہوا۔

دو روز بعد ہی تین مئی کو ہنگامے شروع ہو گئے، مزدوروں نے مطالبات کے حق میں زبردست مظاہرے کئے۔ پولیس نے تشدد سے کام لینا شروع کیا اور تین مئی کو ایک لاٹھی چارج سے دو ہڑتالی مزدور شہید ہو گئے اور لاتعداد مزدور زخمی ہوئے۔

اس واقعہ کے خلاف چار مئی کو مزدوروں نے ہئے مارکیٹ کے مقام پر ایک جلسے کا اعلان کیا۔ اس روز بارش شدید ہو رہی تھی، کوئی تین ہزار مزدور وہاں پہنچے ان میں بچے اور عورتیں بھی شریک تھیں اور شکاگو کا مئیر بھی اس جلسہ میں شریک تھا۔ مزدور رہنما اگست سپائیس زبردست مقرر تھا اور شعلہ نوائی کر رہا تھا کہ پولیس نے دھاوہ بول دیا۔ اسی دوران اشتعال انگیزی کو ہوا دینے کے لئے کسی نامعلوم فرد نے پولیس وین پر ایک بم پھینک دیا جس سے ایک پولیس آفسر ہلاک ہو گیا، جبکہ پولیس کی فائرنگ سے سات مزدور بھی شہید ہو گئے اور چالیس زخمی ہو گئے، اس فائرنگ کے دوران مزدور اپنی سفید شرٹوں کو سرخ خون سے رنگ کر لہراتے رہے اور یوں سرخ رنگ جدوجہد، قربانی اور عزم کا نشان بن گیا اور سرخ جھنڈا مزدوروں کا نشان بن گیا۔

دہشت گردی پولیس نے کی تھی مگر اس کا ذمہ دار مزدور رہنماؤں کو قرار دیا گیا اور پولیس نے آٹھ مزدور رہنماؤں کو گرفتار کیا اور ان تمام پر پولیس کی ایک افسر کے قتل کا مقدمہ ڈال دیا گیا، ان مزدور رہنماؤں میں البرٹ پارسن، اگست سپائیس، سیموئل فیلڈن، اسکر نیبی، مائیکل سخواب، جارج اینگلز، ایڈولف مشر اور لوئیس لنگ شامل تھے، اگرچہ ان میں سے صرف تین مزدور رہنما اس روز ہئے مارکیٹ میں موجود تھے۔ ان مزدوروں کو سزائے موت سنا دی گئی۔

11 نومبر 1887ء کو 4 مزدور رہنماؤں پارسن، سپائیز، اینگل اور فشر کو ملک بھر سے مزدوروں کے مظاھروں اور احتجاج کے باوجود پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

جبکہ لوئیس لنگ نے پھانسی سے ایک روز قبل خود ہی اپنی جان لے لی، یہ آٹھ گھنٹے تحریک کے شہدا تھے۔ جبکہ دیگر تین کو چھ چھ سال کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں انہیں آٹھ گھنٹے تحریک کی قیادت کرنے پر سنائی گئی تھیں۔ مگر بہانہ بم دھماکے کا تھا۔

پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے مزدور رہنماؤں نے گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے جو تاریخی فقرے جرات کے ساتھ کہے۔ ان کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ”تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے“۔

پھانسیوں کے اس واقعہ سے دنیا بھر میں غم و غصہ کی ایک نہی لہر دوڑ گئی اور بعد میں دنیا بھر میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے روزانہ مقرر کئے جائیں۔ اسی پریشر کے تحت امریکہ میں 1887ء میں ہی سرکاری طور پر کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کر دئیے گئے۔

امریکی محنت کشوں کی اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کئے۔

یہ شہدا شکاگو کو خراج تحسین تھا کہ دوسری انٹرنیشنل (محنت کش تنظیموں کی عالمی پارٹی) کی 1889ء میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل سوشلسٹ کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ یوم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے۔

اس اجلاس کی صدارت عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کی تھی۔ 1889ء کے بعد سے یکم مئی کا دن دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس روز محنت کش اپنی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔

اس وقت دنیا کے 66 ممالک میں یوم مئی کے روز سرکاری چھٹی ہوتی ہے، یہ ایک تجدید عہد کا دن ہے کہ محنت کش طبقہ اپنے ان عالمی ہیروز کو فراموش نہیں کرے گا جنہوں نے مزدور طبقات کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ دن دنیا کے ان تمام مزدوروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے جو آج تک مزدور طبقات کے لئے جدوجہد اور قربانیوں کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔

آج مزدوروں کے اوقات کار سرکاری طور پر تو 8 گھنٹے ہیں مگر ایک باعزت زندگی بسر کرنے کے لئے دو دو تین تین کام کرنے پڑتے ہیں یا 12/14 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے تب جا کر گزارا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مزدور طبقات تو آج کرونا کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

غربت اور عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور جینا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں عالمی مزدور یک جہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، ملک میں ایک نئی حکومت نے اگرچہ کم از کم تنخواہ کو 25,000 روپے ماہانہ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر ابھی تک فیکٹریوں میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے لیبر انسپیکشن پر پابندی عائد ہے۔ فیکٹریوں کے اندر اگر انسپیکشن نہیں کی جائے گی تو کس طرح معلوم ہو گا کہ وہاں پر لیبر قوانین پر عمل کیا جا ر ہا ہے؟ وہاں اگر آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام لیا جا رہا ہے تو اس کا حکومت نوٹس ہی نہیں لے سکتی۔ ہمارا ایک فوری مطالبہ لیبر انسپیکشن پر پابندی کا خاتمہ اور لیبر قوانین پر عمل درآمد کرانا ہے۔ کام کسی صورت آٹھ گھنٹے فی دن سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

آئیے 2021ء کے یوم مئی پر تجدید عہد کریں کہ قربانیوں، جدوجہد اور یک جہتی کے ساتھ ساتھ اس سرمایہ داری و جاگیرداری نظام کے خاتمے اور ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے جدجہد جاری رہے گی۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔