فاروق سلہریا
(معروف کالم نگار وجاہت مسعود کے روز نامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم کے جواب میں فاروق سلہریا کے کالم کا پہلا حصہ اس لنک پر دستیاب ہے۔ ذیل میں دوسرا حصہ پیش کیا جا رہا ہے)
وجاہت صاحب! آداب۔
آپ کے کالم میں آپ نے ہمیں سوشلزم کی ’بربریت‘ بارے تو تفصیل سے بتایا مگر سرمایہ داری کی برکتوں بابت آپ کا تجزیہ زیادہ تفصیلات میں جانے سے گریزاں رہا۔ بطور سوشلزم کے طالب علم،میرے ایسے بہت سے گمراہ لوگ جاننا چاہتے ہیں:
(۱) افریقہ دنیا کا امیر ترین خطہ ہے۔ افریقہ کے لوگ ہیرے، سونے اور چاندی کی کانوں پر بیٹھے ہیں۔ اس کے باوجود اکثریت، اگر اقوام متحدہ امداد نہ بھیجے، تو بھوک سے مر جائے۔ ایسا کیوں؟
(۲) افغانستان میں بھی سوشلزم ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سرمایہ داری ایسی استوار ہوئی کہ سرمایہ داری کے موجودہ ابا جی کو سرمایہ داری کی برکتوں کے فیوض سے دنیا کو محفوظ رکھنے کے لئے افغانستان پر حملہ کرنا پڑا۔ افغانستان میں سرمایہ داری کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کو یہ حملہ بھی نہ روک سکا۔ ایک دن امریکہ بھی افغانستان سے بھاگ گیا۔ ایسا کیوں؟
(۳) یمن ہمارا ایک اور مسلمان بھائی ہے۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر یمن کے اہل ایمان بھی ایڈم اسمتھ کی تعلیمات سے منکر ہو کر کارل مارکس کے بہکاوے میں آ گئے تھے۔ سنا ہے آج کل یمن میں سرمایہ داری کی برکات روکنے کے لئے امریکی و برطانوی آشیرباد سے سعودی عرب نے حملہ کر رکھا ہے۔ ایسا کیوں؟
(۴) ابھی چند دن قبل سری لنکا کے صدارتی محل میں سر مایہ داری کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے لوگ بیلا چاو گا رہے تھے۔ سری لنکا میں کیا ہوا؟
دوسروں کو چھوڑیں۔ مادر وطن پاکستان بابت ہی کچھ رہنمائی فر ما دیں۔ مارکیٹ کا وہ کونسا خفیہ ہاتھ ہے کہ جس کی بدولت بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے دودھوں نہا رہے ہیں مگر با قی کا پاکستان اس مارکیٹ کے اس ’خفیہ ہاتھ‘کو نظر نہیں آتا۔
میرے جیسے لا علم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ:
اگر چے اور ہٹلر میں کوئی فرق نہیں تو پھر کس منطق کے تحت سٹالن کے جرائم تو آپ فوری طور پر کارل مارکس کے کھاتے میں ڈال کر سوشلزم کو ناکام قرار دے دیتے ہیں مگر ہٹلر کو آپ ایڈم سمتھ کے کھاتے میں ڈالنے سے ہچکچا جاتے ہیں؟
سٹالن کے گولاگ اور ماو کا کلچرل انقلاب بلا شبہ انسانی تاریخ کی بد ترین تباہیاں تھیں لیکن عالمی جنگیں، کلونیل ازم، عراق پر امریکی حملے، ویتنام، کوریا، لاطینی امریکہ میں سی آئی اے کی منظم کی گئی خونی بغاوتیں حتیٰ کہ یوکرین کا موجودہ بحران…انسانیت کے خلاف جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے…اس کے باوجود سرمایہ داری کامیاب، سوشلزم ناکام؟
اگر سوشلزم کی ناکامی کی واحد دلیل یہ ہے کہ یہ روس میں ناکام ہو گیا تھا تو یہ دلیل 1990ء کے روس تک ہی کیوں محدود رکھی جائے۔ 1917ء کے روس میں سرمایہ داری بھی تو ناکام ہوئی تھی۔ اس تضاد بیانی کی کوئی منطق؟
ویسے آپس کی بات ہے، انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں بھی یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مارکسزم ناکام ہو گیا ہے۔ انقلاب فرانس کے پچیس سال بعد بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ انقلاب فرانس ناکام ہو گیاہے۔ اس ناکامی کا جشن منانے کے لئے کئی گرجا گھر تعمیر کئے گئے۔ ہیگل نے تو یہ اعلان بھی کر دیا کہ ’تاریخ کا خاتمہ‘ ہو گیا ہے۔ جی ہاں! تاریخ کے خاتمے کا تھیسس فوکویامہ سے کہیں پہلے ہیگل نے دیا تھا (گو ہیگل کے تھیسس بارے تفصیلی بحث اور سیاق و سباق کی ضرورت ہے۔ یہ بحث کسی اور موقع پر سہی)۔
تاریخ کا خاتمہ ہوئے پانچ دہائیں گزر گئیں تو پیرس کمیون کا واقعہ ہو گیا۔ تاریخ کو ختم کرنے کے لئے ہزارہا مزدوروں کا خون بہایا گیا۔ جس جگہ پیرس کمیون کی فوج کو شکست دینے کے لئے آخری خونی جنگ لڑی گئی وہاں ایک شاندار چرچ تعمیر کیا گیا۔ پیرس جائیں تو لوگ یہ چرچ دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ اکثر یہ جانے بغیر کہ اس چرچ کو یہ ثابت کرنے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا کہ سوشلزم ناکام ہو گیا ہے۔
پیرس کمیون کے بعد،سوشلسٹ تحریک کے اندر سے ایڈورڈ برنسٹین جیسے لوگ پیدا ہوئے جو انقلاب روس سے تیس سال پہلے ہی یہ کہنے لگ گئے کہ بوڑھا مارکس غلط تھا۔ وائے افسوس! بوڑھے برنسٹین کو آج اگر تاریخ کے فٹ نوٹ میں جگہ ملتی ہے تو روزا لکسمبرگ کے مشہور پمفلٹ ”انقلاب یا اصلاح“ کی وجہ سے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پورا یورپ مزدور انقلابات کی لپیٹ میں تھا۔ اس موقع پر، سوشلزم کی موت بارے، مجھے میرے پسندیدہ شعر کو دہرانے کی اجازت دیجئے:
کوئی محمل نشین کیوں شاد یا نا شاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے،خود برباد ہوتا ہے
مجھے کسی حد تک معلوم ہے کہ مندرجہ بالا سوالات کا ممکنہ جواب یہ دیا جائے گا: افریقہ، سری لنکا، لاطینی امریکہ، جنوبی ایشیا سرما یہ داری کی وجہ سے نہیں، اپنے حکمران طبقے کی کرپشن کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکا۔
قابل احترام وجاہت صاحب!
ان دنوں آپ نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لئے مندرجہ بالا قسم کے تجزئے سے پرہیز بہتر ہے۔ تحریک انصاف بھی یہی کہتی ہے۔ ویسے بھی اگر بدعنوانی سرمایہ دارانہ ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہوتی تو برطانیہ سے لے کر جنوبی کوریا تک ابھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہوتے۔
ایک ممکنہ جواب یہ بھی ہو سکتا ہے اور اکثر دیا جاتا ہے، کہ: ہر ملک کی سرمایہ داری مختلف ہے۔ آپ اس جواب سے بھی پرہیز ہی برتئے گا۔ ہم سوشلسٹ بھی یہی کہتے ہیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کی ڈیپینڈنٹ سرمایہ داری یا کمبائنڈ اینڈ اَن ایون (Combined And Uneven) ترقی کے نتیجے میں وہی کچھ ممکن ہے جو جنوبی ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ میں عمومی طور پر نظر آ رہا ہے۔ اس طرح کی سرمایہ داری کے سیاسی اظہار کے طور پر نریندر مودی، بولسونارو، سعودی خاندان، طالبان اور ایرانی آیت اللہ ہی سامنے آتے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر سرمایہ داری کی کئی قسمیں ہیں (جو کہ نہیں ہیں کیونکہ سرمایہ داری استحصال اور منافع کے بغیر کہیں کام نہیں کرتی) تو مارکسزم کے اندر بھی کئی روایات ہیں۔ جب سرمایہ داری سٹالن اور ماو کے ساتھ سودے بازیاں کر رہی تھی (یاد رہے سرمایہ داری کے عالمی برانڈ کوکا کولا نے سٹالن وادی سویت روس سے کاروبار کے ذریعے زندگی پائی) تو فورتھ انٹرنیشنل اسی سٹالنزم کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی جس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا حکمران طبقہ فوجی اتحاد بنا رہا تھا۔ سٹالنزم کے خلاف قربانیاں کیمونسٹوں نے دیں نہ کہ لبرل حضرات نے۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی نیو ڈیل سے لے کر سکینڈے نیویا کی ویلفئیر سٹیٹ تک، اگر کہیں انسان دوست ماڈل سامنے آئے تو سوشلسٹ پارٹیوں، مارکسی تحریکوں اور ٹریڈ یونین کی وجہ سے آئے۔ مزدور کسان اور سفید پوش طبقے کے معایر زندگی کے لحاظ سے پاکستان میں بھی اگر کوئی بہتری آئی تو 1968-69ء کی تحریک کے بعد آئی۔ اس تحریک کے عوام دوست ثمرات کو رول بیک کرنے کے لئے ہی ضیا الحق کی وحشیانہ سر مایہ دارانہ آمریت قائم کی گئی۔ قصہ مختصر: جو منطق آپ سرمایہ داری اور افریقہ کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں، وہی منطق سکینڈے نیوین سوشل ڈیموکریٹک ماڈل بارے کیوں استعمال نہیں کرتے؟
(بر سبیل تذکرہ یہ بھی کہتا چلوں کہ اصلاح پسندی کے حوالے سے مارکسی تحریک اندر ایک صدی پرانی بحث موجود ہے اور اصلاحات بارے راقم لینن وادی موقف کا حامی ہے۔ طوالت سے بچنے کے لئے اس موضوع پر بحث بھی فی الحال رہنے دیتے ہیں)
پاکستان میں آج بھی اگر کسی ورک پلیس پر مزدور کے حالات کار بہتر ہیں تو وہاں ٹریڈ یونین موجود ہو گی، نواز شریف کی فیکٹریوں سمیت جہاں ٹریڈ یونین موجود نہیں، وہاں مزدور دور غلامی کی جدید شکل کا شکار نظر آئیں گے۔ امریکہ کے اپنے اندر ایما زون اور سٹار بکس جیسی ملٹی نیشنل بھی ٹریڈ یونین نہیں بنانے دیتیں کیونکہ انہیں معلوم ہے ٹریڈ نوین سوشلزم کی نرسری ہے اور اس نرسری کے قائم ہونے سے مزدور کے حالات بہتر ہونے لگتے ہیں۔
سوشلزم کی ناکامی کا فتویٰ دینے سے قبل ہماری لبرل و رجعتی عناصر سے مختصر سی یہ درخواست بھی ہے کہ انقلاب روس کے مقامی و عالمی اثرات کا بھی جائزہ لیں۔
تاریخ عالم میں جو اثرات انقلاب فرانس اور انقلاب روس نے مرتب کئے ان کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق و فلاح کے حوالے سے یہ جدید تاریخ ِانسانی کے دو سب سے اہم واقعات ہیں۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ سوویت روس کی عدم موجودگی میں کلونیل ازم کا خاتمہ ہونے میں شائد ایک صدی اور لگ جاتی (مزید ذرا دیر میں)۔
کلونیل ازم کا ذکر آیا تو سویت روس کی بنیاد پر سوشلزم کی ناکامی کا ڈھول پیٹنے والوں سے کہنا تھاکہ کلونیل ازم کے نتیجے میں بھی تو نریندر مودی اور جنرل باجوہ آج ہندوستان اور پاکستان پر مسلط ہیں، اس لئے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے لئے بھگت سنگھ کی جدوجہد غلط تھی؟ یا کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیلسن منڈیلا کی سفید فام اپارتھائڈ کے خلاف جدوجہد اس لئے غلط تھی کہ جنوبی افریقہ کا موجودہ صدر بدعنوانی میں نواز شریف سے بھی دو ہاتھ آگے ہے؟ کلونیل ازم کے خاتمے بارے میں لبرل حضرات کا موقف جان کر بہت خوشی ہو گی۔
یہ دعویٰ با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ اگر روس اور چین یا کیوبا اور ویت نام میں انقلاب نہ آئے ہوتے تو ان ممالک کی حالت جنوبی ایشیا اور افریقہ سے بہتر نہ ہوتی۔ اگر آج چین ایک عالمی طاقت ہے تو اس کی مادی بنیادیں انقلاب چین نے ہی استوار کیں۔
یاد رہے راقم کا تعلق مارکسزم کی اُس روایت سے ہے جو سٹالن وادی اور ماو وادی جابرانہ نظام کے ناقد رہے ہیں۔ یہ نظام سوشلزم کی بجائے ایک پیچیدہ رد انقلابی عہد کی پیداوار تھے۔ سٹالن واد اور ماو ازم عالمی مارکسی اور مزدور تحریک کے عہد ِبحران کی پیداوارتھے۔ یہ رد انقلابی نظام اسی طرح سامنے آئے، لگ بھگ جس طرح فاشزم سرما یہ داری کے سنگین بحران کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔
ایک اہم نقطہ: انقلاب روس کے ابتدائی دور اور سٹالن وادی یا بعد از سٹالن کے عہد کو گڈ مڈ کرنا لبرل تعصبات کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح انقلابات کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں لپیٹ دینا اور ان انقلابات کو مکمل طور پر ناکام قرار دینا بھی دانشوارانہ بد دیانتی کی بد ترین مثال ہے۔ ٹاک شوز میں اس طرح کی باتیں تو چل جاتی ہیں لیکن دانشوارانہ اور اکیڈیمک بحث میں نہیں۔
انقلاب روس کا ابتدائی دور اس بات کا ثبوت ہے کہ انقلاب بے شمار امکانات کو جنم دیتا ہے اور محنت کش طبقہ معجزات کو ممکن بنا دیتا ہے۔ انقلاب تو دور کی بات،وجاہت صاحب! کبھی کسی چھوٹی سی ہڑتال میں کبھی حصہ لے کر تجربہ کیجئے گا کہ محنت کش طبقے کے اندر کیسا پوٹیینشل موجود ہوتا ہے۔ انقلاب، رد انقلاب، ابھار، بغاوتیں، تحریکیں…یہ انسانی سماج کو آگے لے کر جاتی ہیں۔ یہ تاریخ کی جست ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی تحریک اور نیا نظام محض ایک، حتمی اور ٹوٹل انقلاب کے نتیجے میں معرض وجود میں نہیں آیا۔ خود بورژوا انقلابات، سرمایہ داری اور لبرلزم کی تاریخ کئی طرح کے رد انقلابوں سے گزر کر بعض یورپی ممالک اور امریکہ جاپان کی حد تک مستحکم ہو پائی۔ ان تمام ممالک میں سو طرح کے خون خرابے ہوئے۔ سر مایہ داری کا جنم، قومی ریاستوں کا قیام، دو عالمی جنگوں سے قبل یورپ کی لانگ وار اور بے شمار دیگر جنگیں پاکستان اور بیرون پاکستان لبرل حضرات کے اس جھوٹے دعوی کی نفی کرتی ہیں کہ سرمایہ داری گویا کوئی پر امن راستہ ہے جیسا کہ آپ نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا ہے۔
اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب پر امن راستہ ہے۔ ثبوت؟ انقلاب روس کے دوران محض آٹھ دس لوگ ہلاک ہوئے۔ انقلاب روس کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کی عوامی حمایت کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ نعرہ تھا: روٹی اور امن۔ زار شاہی روس نے ملک کو پہلی عالمی جنگ میں شمولیت کی شکل میں روس کے عام لوگوں کو جہنم میں دھکیل دیا۔ جب انقلاب روس کی شکل میں امن اور روٹی کی امید پیدا ہوئی اور روس جنگ سے نکل گیا تو سرمایہ دار ممالک کی افواج نے اس امن پسندی کی سزا دینے کے لئے مل کر روس پر حملہ کر دیا۔ جو تباہی آئی، اس جنگ کے مسلط کئے جانے کے بعد آئی (لبرل حضرات کی توجہ کے لئے: اس جنگ نے ہی ان حالات کی بنیاد رکھی جس نے سٹالنزم کا راستہ استوار کیا)۔ سٹالن وادی ’Distortions‘ کے باوجود، روس کے اندر ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل پایا جس نے دو دہائیوں کے اندر اندر ملک سے جہالت،بیماری، بے گھری اور غربت کا خاتمہ کیا، جاگیرداری کی جگہ تاریخ کی تیز ترین صنعت کاری ہوئی، ٹیکنالوجی میں معجزات نے جنم لیا، غربت کا خاتمہ ہوا اور ایک ایسی فوج تشکیل پا سکی جس نے ہٹلر، یعنی سرمایہ داری کے پیدا کئے گئے بد ترین فرینکنسٹائن، کو شکست دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ سب سے اہم بات: دنیا بھر کے مظلوم اور محنت کش لوگوں کو یہ حوصلہ ملا کہ دنیاوی خداوں سے لڑا جا سکتا ہے، انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔ کلونیل ازم کے خلاف بیسویں صدی کے دو واقعات اہم ہیں۔ ایشیا کے ملک جاپان کے ہاتھوں زار شاہی روس کی شکست نے سفید فام لوگوں کی برتری کی متھ توڑ دی۔ انقلاب روس نے کلونیل ازم کو کئی طرح سے مشکل میں ڈال دیا۔
ایک چھوٹا سا واقعہ: انقلاب روس کے بعد انقلابی حکومت نے زار شاہی روس اور سامراجی حلیفوں (برطانیہ، فرانس) کے ساتھ ان خفیہ معاہدوں کو اخبار میں شائع کر دیا جو افریقہ اور ایشیا کی بندر بانٹ کے لئے کئے گئے تھے۔ محض اس ایک واقعے نے ہندوستان سمیت تمام کلونیل ممالک میں سفید فام حکمرانوں کو مصیبت میں ڈال دیا۔ یہ الگ بات ہے ’مطالعہ پاکستان‘میں اس کا ذکر کبھی نہیں ملے گا۔ یہ محض اتفاق کی بات نہیں کہ ہندوستان سے لے کر انڈونیشیا تک اور الجزائر سے لے کر کیوبا تک، کلونیل ماسٹرز سے آزادی کے بعد ہر جگہ حکمران ماسکو کا رخ کرتے (اخبار میں شائع ہونے والے اس خفیہ معاہدے نے عرب ممالک میں مارکسزم کی بنیاد ڈال دی۔ دلچسپ تفصیلات حنا بطاطو کی عراق بارے کتاب میں ملیں گی)۔
وجاہت صاحب! آپ نے پتہ نہیں کس بنیاد پر فرمایا کہ چے گویرا اور کیوبا میں سیاہ فام لوگوں سے تعصب برت رہے تھے، بلکہ ان کا قتل عام کر رہے تھے۔ معلوم نہیں نیلسن منڈیلا کے ساتھ کاسترو یا کانگو کی جنگ آزادی میں شمولیت کی تصاویر آپ کو یاد کیوں نہیں۔
افریقہ کی آخری کالونی 1986ء میں آزاد ہوئی۔ بات ہو رہی ہے نمیبیا کی۔ یہ جنگ آزادی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی اگر کیوبا اس میں حصہ نہ لیتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ جنگ کاسترو نے ٹیلی فون پر جیتی تھی۔ اسی طرح اپارتھائڈ کے خاتمے کے بعد، جیل سے رہائی ملتے ہی نیلسن منڈیلا نے کیوبا کا رخ کیا تھا۔ اس لئے اگر اوپر یہ دعوی کیا گیا ہے کہ کلونیل ازم کے خاتمے میں سوشلسٹ تحریک کا فیصلہ کن کردار تھا تو یہ کوئی اس طرح کا بیان نہیں جس طرح وجاہت مسعود صاحب! آپ نے دعویٰ کر دیا کہ چے گویرا نے چودہ ہزار افراد قتل کرائے حالانکہ چے گویرا کا عدالتی نظام سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ وہ ان دنوں جیل خانہ جات کا وزیر تھا۔ جن چھ سو لوگوں کو پھانسی دی گئی،وہ جیلوں میں تھے۔
(جاری ہے)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔