فاروق سلہریا
وجاہت مسعود کے کالم میں چے گویرا پر ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ چے گویرا نسل پرست تھا۔ مختصر سا جواب ایک پچھلی قسط میں بھی دیا جا چکا ہے لیکن اس سوال پر ذرا تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوبا میں، خطے کے دیگر ممالک کی طرح، سیاہ فام غلاموں کو تقریباً پانچ سو سال قبل لایا گیا۔ گویا نسل پرستی اور نسلی تفریق کی جڑ کلونیل ازم اور سامراج ہے۔ کاش وجاہت مسعود کے کالم میں اس بابت بھی ہلکا سا اشارہ موجود ہوتا۔
ابتدائی طور پر ’سفید فام‘ ہسپانوی آباد کار اپنے ساتھ خواتین نہیں لائے تھے۔ انہوں نے سیاہ فام خواتین سے رشتے استوار کئے۔ اس اشتراک سے پیدا ہونے والی ایک نسل بھی کیوبا میں موجود ہے۔ اس طرح کیوبا میں رنگ کے اعتبار سے تین طرح کے لوگ موجود ہیں۔ سیاہ فام آبادی چونکہ غلاموں کے طور پر لائی گئی، اس لئے امریکہ سمیت خطے کے دیگر ممالک کی طرح یہاں وہ تاریخی طور پر پیچھے رہی۔
وجاہت صاحب کی دلچسپی کے لئے یہ بات قابل غور ہے کہ انقلاب کیوبا سے قبل ملکی معیشت پر قابض امریکی ملٹی نیشنلز سیاہ فام کیوبنز کو نوکری نہیں دیتی تھیں۔ ان کے معاشی طور پر پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ پالیسی بھی تھی۔
انقلاب کیوبا کے ساٹھ سال بعد بھی اس میں شک نہیں کہ سیاہ فام آبادی تعلیم اور نوکری کے حوالے سے پیچھے ہیں۔ معاشرے میں ان کی جانب ابھی بھی تعصبات پائے جاتے ہیں لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ریاست سیاہ فام لوگوں کی طرف ہے۔ انقلاب کیوبا کے بعد سیاہ فام لوگوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ برابری قائم ہونے کی وجہ سے سیاہ فام آبادی بھی سکول کالج یا یونیورسٹی میں پہنچنے لگی۔ ان کو صحت کی سہولتیں ملنے لگیں۔ انقلاب کے فوری بعد فیدل کاسترو نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ سیاہ فام آبادی کو روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کیوبا سے نسل پرستی کے خاتمے کے حوالے سے سیکھنے کی ضرورت ہے، خاص کر امریکہ کو۔
ویسے بائیں بازو کے بعض پرجوش حامیوں کو بھی اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ طبقاتی استحصال کے خاتمے سے جبر کی ساری شکلیں ختم نہیں ہو جاتیں۔ نسل پرستی، جینڈر، قومی جبر…ایسی کئی شکلیں ہیں جو سرمایہ داری کی پیدائش سے قبل وجود میں آئیں، آج بھی جاری ہیں اور ان کے خاتمے کے لئے سوشلزم سرمایہ داری کی نسبت بہتر حالات فراہم کر سکتا ہے مگر یہ نعرہ کافی نہیں کہ طبقاتی نظام ختم ہوتے ہی ہر طرح کا جبر ختم ہو جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نسل پرستی کے علاوہ وجاہت مسعود کے کالم میں چے گویرا پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ ہم جنس پرستوں پر ظلم ڈھاتا رہا۔ نسل پرستی کے سوال کی طرح یہ معاملہ بھی تھوڑا الجھا ہوا ہے۔ انقلاب کیوبا کے بعد، ابتدائی طور پر ہم جنس پرست جبر کا شکار رہے لیکن اس سوال پر کیوبن قیادت کے موقف میں بلا کی بہتری آئی۔ آئینی طور پر، اب ہم جنس پرستوں کے خلاف کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ وہ کیوبن کیمونسٹ پارٹی کے رکن بن سکتے ہیں، کالج یونیورسٹی جا سکتے ہیں، ان سے نوکری کے معاملے میں امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ معاشرہ اس معاملے میں ریاست سے پیچھے ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ریاست اپنا معلمانہ کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان، امریکہ یا دیگر ریاستوں کی طرح نہیں کہ جہاں ریاستیں جبر کی سر پرستی کرتی ہیں۔
وجاہت مسعود صاحب نے اپنے کالم میں کسی قسم کے حوالہ جات سے اجتناب برتا۔ اس سلسلے میں ’روزنامہ جدوجہد‘ نے ان سے رابطہ بھی کیا۔ ہم حوالہ جات پر زور اس لئے دیتے آ رہے ہیں کہ کیوبا بارے دنیا کی بلکہ تاریخ کی سب سے طاقتور ایمپائر نے زبردست پراپیگنڈہ مہم چلا رکھی ہے۔ جب سے کیوبا بارے موجودہ بحث شروع ہوئی ہے، مارکس وادیوں کو یہ طعنہ بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ عقیدت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انفرادی سطح پر ایسا ممکن ہے…لیکن علمی بحث سے یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ فلاں عقیدت پسندی یا شخصیت پرستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کون عقیدت پسندی کر رہا ہے، کون علمی بحث…اس کا فیصلہ کرنا آسان ہے۔ علم کی بنیاد دلیل ہوتی ہے۔ دلیل کی ایک جامع تعریف موجود ہے۔ دلیل سے مراد وہ تجویز (Proposition) ہے جسے منطق یا ثبوت کی مدد سے ثابت کیا جا سکے۔ کیوبا کے خلاف کون سا دعویٰ جھوٹے پراپیگنڈے پر مبنی ہے، کیا سچ ہے…اس کا فیصلہ دلیل کی مدد سے ہو جائے گا۔
اب آئیے اس بحث کے سب سے اہم سوال کی جانب: کیا سوشلزم اور فاشزم میں کوئی فرق نہیں؟ بہ الفاظ دیگر، کیا چے اور ہٹلر میں کوئی فرق نہیں؟ اس سوال کا جواب با آسانی مل جاتا ہے اگر ہم یہ دیکھ لیں کہ فاشزم کسے کہتے ہیں اور سوشلزم کیا ہے۔
فاشزم کیا ہے؟
پہلی بات: جس طرح لبرل سامراج کی جامع تعریف مقرر نہیں کر سکے، اسی طرح وہ فاشزم کی بھی جامع تعریف مقرر نہیں کر سکے۔ اسی طرح ایک شدید نظریاتی و سیاسی بد دیانتی عموماً یہ کی جاتی ہے کہ فاشزم کو سوشلزم سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں وجاہت مسعود صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی۔
فاشزم کی مندجہ ذیل کریکٹرائزیشن ارنسٹ مینڈل نے کی ہے۔ راقم کے خیال میں، ٹراٹسکی کی تھیوری پر مبنی، ارنسٹ مینڈل نے فاشزم کی جامع ترین تعریف اور کیریکٹرائزیشن کی ہے۔ کچھ تفصیلات ان دو لنکس پر دستیاب ہیں۔
پہلی بات: مختصراً فاشزم ایک مخصوص قسم کی تنظیم و تحریک ہے جو سماجی، سیاسی و ملٹری انداز میں سامنے آتی ہے۔ یہ سرمائے کی سامراجی اور اجارادارانہ مرحلے کے بعد سامنے آ سکتی ہے (اس لئے یہ کہنا کہ کیوبا یا پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی فاشسٹ ہے، ایک جاہلانہ بات ہے)۔
فاشزم کو محض اس کے متشدد پن کی وجہ سے فاشسٹ قرار نہیں دیا جاتا۔ بہت سی دیگر تحریکیں بھی تشدد کا سہارا لیتی آئی ہیں۔ اس کی ایک موجودہ شکل مذہبی بنیاد پرست تحریکیں ہیں (اس حوالے سے راقم کا ایک مضمون اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے)۔ گویا فاشزم کے پاس مسلح جتھے ہوتے ہیں۔ اپنی اس سیاسی، سماجی اور فوجی تنظیم کو پہلے سے موجود ریاستی ڈھانچوں پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔
دوم: فاشزم کا دو اہم ترین طبقات کی جانب رویہ اس کا کردار طے کرتا ہے۔ ایک طبقہ ہے بورژوازی۔ دوسرا محنت کش۔ فاشزم اگر سرمایہ دار طبقے کے لئے ایک جابرانہ ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتی ہے تو محنت کش طبقے کی ہر طرح کی تنظیم (چاہے وہ سوشل ڈیموکریٹک ہو، سنٹرسٹ یا لیفٹ ونگ) بزور بازو تباہ کر دینا چاہتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یہ کام سر انجام دیا جاتا ہے۔
سوم: فاشزم کی سماجی بنیاد پیٹی بورژوا طبقہ ہوتا ہے۔
چہارم: فاشزم سرمایہ داری کے شدید بحران میں سامنے آتی ہے کہ جب بورژوازی عمومی طور پر ’سوشلزم یا بربریت‘ کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔ بورژوازی اس موقع پر بربریت کو ترجیح دیتی ہے۔ فاشزم کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ متشدد طریقے سے ارتکاز سرمائے کے طریقہ کار کو یکسر بدل دے تا کہ سرمایہ دار طبقہ منافع کما سکے۔
گویا فسطائیت سرمایہ داری کی وہ شکل ہے کہ جب سرمایہ داری سامراجی ممالک میں بھی لبرل جمہوریت کی بری بھلی شکل بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اگر لبرل جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی منافقانہ مگر انسانی چہرے والا اظہار ہے تو فسطائیت اس کے بحرانی دور کا بد ترین، آخری حربہ ہے۔ اگر یورپ میں قومی ریاست سرمائے کا عمومی (مگر متشدد) اظہار تھا تو فسطائیت اس کا الٹرا نیشنلسٹ اظہار تھا۔
اس کے برعکس سوشلزم:
۱۔ طبقات کے خاتمے کا نام ہے تا کہ طبقاتی استحصال کا خاتمہ ہو جائے۔
۲۔ ہر قسم کے جبر (وہ جینڈر، نسلی، لسانی یا ذات پات کی بنیاد پرہو) کا خاتمہ چاہتا ہے۔
۳۔ منافع کی خاطر ہونے والی پیداوار کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے معاشرے کو تعمیر کرنا چاہتا ہے۔
۴۔ اس کی سماجی بنیاد محنت کش طبقہ ہے۔
۵۔ انسانی حقوق کی حتمی ضمانت ہے کیونکہ معاشی، سیاسی و سماجی برابری کے بغیر انسانی حقوق کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
وجاہت مسعود صاحب انسانی حقوق کی جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ حقوق ہر انسان کو محض انسان ہونے کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ان حقوق کی بنیاد روشن خیالی کے عہد اور انقلاب فرانس کا یہ نعرہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ جب کسی انسان سے امتیازی سلوک برتا جائے تو اس کا مطلب ہے اس کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ لبرلزم کا بھی یہی نعرہ تھا لیکن لبرلزم معاشی میدان میں منافقت کا شکار تھی۔ اس منافقت کو سوشلزم نے چیلنج کیا۔
ضمنی طور پر یہ ذکر بھی ہوتا جائے کہ اگر لبرلزم اور سوشلزم عہد روشن خیالی (Enlightenment) کی پیداوار ہیں تو فسطائیت روشن خیالی کی نفی کیونکہ لبرلزم اور سوشلزم یونیورسل ازم کی قائل ہیں جب کہ فاشزم بد ترین، سفید فام نسل پرستی کا نام۔
اس میں شک نہیں کہ انسانی حقوق کا موجودہ بیانیہ مغرب کی پیداوار ہے۔ لبرل اور سوشلسٹ تحریکوں نے اس بیانئے کو اپنی لازوال جدوجہد سے تعمیر کیا ہے لیکن لبرلزم کا بیانیہ آج سے دو سو سال پہلے ہی آشکار ہو گیا تھا جب مزدور تحریک نے معاشی برابری کے حوالے سے لبرلزم کی منافقت کا پردہ چاک کیا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اگر پاکستان میں کسی کو انسانی حقوق میں دلچسپی ہے تو اسے سوشلسٹ تحریک کا ساتھ دینا ہو گا۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان شریف خاندان کے بھی ساتھ ہو اور ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور وں کا بھی ساتھی ہو۔
راقم فی الحال اپنی معروضات کو یہاں روک رہا ہے۔ وجاہت مسعود صاحب کے جواب الجواب کا اس امید کے ساتھ انتظار رہے گاکہ یہ بحث کامریڈلی انداز میں آگے بڑھے گی۔ اگر کسی جملے یا لفظ سے وجاہت صاحب کو کسی موقع پر یہ احساس ہوا ہو کہ اس تحریر کا لہجہ کامریڈلی نہیں تھا، تو اس کے لئے پیشگی معذرت۔
(اختتام)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔