فاروق طارق
آٹھ سال کے انتظار کے بعد، آخر کار فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ آ گیا۔ پاکستان تحریک انصاف مجرم قرار پائی۔ اس کے باوجود، پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے الیکشن کمیشن کے فارن ممنوعہ فنڈنگ کیس کو ’کھودا پہاڑ، نکلا چوھا‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔
تحریک کے دوسرے رہنما بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ تو یوں ظاہر کر رہے ہیں گویا وہ یہ مقدمہ جیت گئے ہوں۔ ان کا خیال ہے کہ محض ایک بیانیہ بنانے سے ہر پی ٹی آئی مخالف فیصلے بارے عوام کو گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کا صریحاً جھوٹا بیانیہ اس پارٹی کے ہارڈ لائن کارکنوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے، مگر عام لوگوں کو نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آٹھ سال تک الیکشن کمیشن پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ کے پہاڑ کو جو کھودتا رہا، اس کی بنیاد پر جتنا بھی برا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آ سکتا تھا وہ آ گیا ہے۔
تحریک انصاف ملزم سے مجرم بن گئی ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ کا جو پہاڑ عمران خان نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے نام پر سالوں میں کھڑا کیا تھا، اس میں سے الیکشن کمیشن نے اس ممنوعہ فنڈنگ کا اچھی طرح سراغ لگا لیا جو پاکستانی الیکشن قوانین کے خلاف تھی۔
یہ سینکڑوں غیر ملکی کمپنیاں تھیں اور غیر ملکی افراد تھے جو شائد اپنے طور پر چیریٹی سمجھ کر اربوں روپے عمران خان کے حوالے کرتے رہے، یہ پیسے عمران خان سے متعلقہ اکاؤنٹس میں آتے رہے۔ یہ وہاں سے نکلواتے رہے اور خرچ کرتے رہے۔ پھر گھر کے ایک بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی اور 2014ء میں تحریک انصاف پر ممنوعہ فنڈنگ استعمال کرنے کا الزام لگا دیا۔ جو بھی الزامات لگے وہ گذشتہ روز جرم کی شکل اختیار کر گئے۔
یہ مقدمہ سرمایہ داری سیاسی ہیرا پھیریوں اور چکر بازیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسے ہی سب سرمایہ دار سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔ قوانین کو دھوکہ دینا کوئی ان سے سیکھے۔ یہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ کوئی ملک ریاض سے پیسے لیتا ہے، کوئی دبئی، قطر اور سعودی عرب کے حکمرانوں سے اور کوئی براہ راست امریکی سامراج اور اس کی کمپنیوں سے۔
پاکستان تحریک انصاف نے ہسپتال کے نام کا استعمال کر کے تحریک انصاف بنا لی اور اس کو مشہور کرنے کے لئے ہر طرح کی قانونی و غیر قانونی دولت کو اکٹھا کیا۔
ہسپتال اور تحریک انصاف کے لئے جمع کردہ فنڈنگ کو ایک ہی قرار دے کر عمران خان نے پاکستانی الیکشن قوانین کا مسلسل منہ چڑھایا، وہ اب ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ پیسے ہسپتال کے لئے اکٹھے ہوتے رہے اور اب کسی حد تک یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ لاہور کے مینار پاکستان پر تحریک انصاف کے بہت بڑے جلسوں کے انعقاد پر جو کروڑوں روپے خرچ کئے گئے وہ کدھر سے آئے تھے۔
ہسپتال کے نام پر اکٹھی کی گئی رقم تحریک انصاف کے لئے درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے استعمال ہوتی رہی۔ اب یہ ہیرا پھیری پکڑی گئی ہے اور ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن نے ایک شو کاز نوٹس جاری کیا ہے۔
اسی نوٹس کو تحریک انصاف اپنی بڑی فتح قرار دے رہی ہے کہ کونسی اس پر پابندی لگی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں جائیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کریں گے اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ اڑا کر رکھ دے گی۔ ایسا ہوتا اب نظر نہیں آتا اور تو اور ’ہم خیال جج‘ بھی اب آسانی سے ایسا نہ کر پائیں گے۔
یہ فیصلہ آٹھ سال کی مسلسل سماعت کے بعد سکروٹنی کمیٹی کی تحقیق کے بعد آیا ہے۔ تحریک انصاف ہر ایک پہلو سے مجرم ثابت ہوئی ہے۔ اب اتنا آسان نہیں ہو گا کہ اس فیصلے کو رد کر دیا جائے۔
تحریک انصاف پھنس گئی ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مقدمہ ہے جس سے نکلنا تحریک انصاف کے لئے مشکل ہو گا۔ ابھی تو ایک عمل شروع ہوا ہے۔ اس کی کئی شکلیں سامنے آئیں گی…لیکن اب ہر ایک جگہ یہ تو بات ہو گی کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف دیا ہے۔ اس کے سیاسی اثرات نظر آئیں گے۔
عمران خان کی جماعت اب پر فریب دھوکہ دہی پر مبنی سیاسی بیانیہ سے اس فیصلہ کی گرمی کو ٹھنڈا نہیں کر سکے گی۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ ان کی فتح ہوئی ہے۔ ضمنی انتخابات تحریک انصاف کے سیاسی بیانیہ پر نہیں جیتے گئے۔ یہ تو مسلم لیگ نے آئی ایم ایف کی باتیں مان کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔
یہ فیصلہ تحریک انصاف کی بڑھتی مقبولیت کی راہ میں پہاڑ ثابت ہو سکتا ہے جسے چھلانگنا شائد ان کے بس کی بات نہ ہو۔