نقطہ نظر

موجودہ حکومت بھی ہابرڈ رجیم ہے، اگلا سیٹ اپ بھی ہابرڈ ہی ہو گا: عائشہ صدیقہ

حارث قدیر

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ایک ہائبرڈ حکومت کے خاتمے کے بعد دوسری ہائبرڈ حکومت ہی قائم ہوئی ہے، جو حالات چل رہے ہیں ان میں آنے والی حکومتیں بھی ہائبرڈ ہی ہونگی۔ عمران خان محض ذمہ داری لینے کیلئے اقتدار میں تھے، فیصلے واقعی کہیں اور ہو رہے تھے۔ ہائبرڈ سسٹم یہی ہے کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہوتے ہیں اور ذمہ داری کوئی لے رہا ہوتا ہے۔

عائشہ صدیقہ بطور دفاعی تجزیہ کار، سیاسی مبصر اور مصنف کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ان کی کتاب ’Military Inc‘ پاکستانی فوج کی سیاسی معیشت پر اپنی نوعیت کی واحد تحقیق ہے جس کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اسکول آف اورینٹیل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) کے ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ساتھ ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر منسلک ہیں۔ پاکستان کی حالیہ صورتحال سے متعلق ’جدوجہد‘ نے عائشہ صدیقہ کا ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

فوج کے نیوٹرل ہونے کا بار بار اعلان ہو رہا ہے، بعض صحافی بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج مداخلت نہیں کر رہی۔ ایک ریاست،جسے آپ نے بھی ’پرائٹورین اسٹیٹ‘ لکھا ہے، میں یہ ممکن ہے کہ فوج نیوٹرل ہو جائے؟

عائشہ صدیقہ: میرے خیال میں اس طرح کے تبصرے کرنے والے لوگوں کا نظریہ بہت معمولی ایک انگلی کے برابر ہوتا ہے، یہ پڑھتے اور تحقیق نہیں کرتے۔ جو پرائٹورین فوج ہوتی ہے، جسے کوئی چیلنج درپیش نہ ہو، وہ کیسے نیوٹرل ہو سکتی ہے۔ آپ دیکھیں جہاں جہاں فوج پیچھے ہٹی ہے، اسے کوئی دھکا ملا یا پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ ہے، جیسے ڈاکٹر وسیم نے اپنی کتاب میں بھی لکھا، کہ جو سیاسی کلاس ہے وہ ایک قطب ہے اور دوسرا قطب فوج ہے۔ سیاسی کلاس نے تھوڑی اپنی طاقت بنا لی ہے، تھوڑا بہت چیلنج کرتے ہیں اور تھوڑا دھکا بھی لگاتے ہیں۔ اس تجزیہ کو عاصم سجاد نے بھی اپنی کتاب میں چیلنج کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ فوج بہت طاقتور ہے۔

میری نظر میں فوج ایک کنبہ ہے، اس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملٹری کے لوگ تو ہیں، اس میں سویلین بھی ہیں۔ سویلین وہ ہیں جو اپنی طاقت کے حصول کیلئے فوجی طاقت پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی بار بار فوج کی طرف جاتے ہیں، اس کو تھوڑا بہت دھکا تو دیتے ہیں لیکن بھرپور طریقے سے چیلنج نہیں کرتے۔ جب ایسے حالات ہوں تو کیونکر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فوج نیوٹرل ہو گئی۔ یا پھر ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی مداخلت سیاست میں اتنی بڑھ گئی کہ وہ سمجھتی ہے کہ اب ہم سیاست میں دراندازی نہیں کرینگے اور پیچھے بیٹھ کر تماشہ دیکھیں گے۔ نیوٹرل سے ہر کوئی اپنا مطلب نکال سکتا ہے۔ آج کے زمانے میں نیوٹرل یہ ہے کہ جیسے 2018ء میں انہوں نے بہت اچھل کود کے ساتھ عمران خان کی صورت تیسرے آپشن کو لانے کی کوشش کی تھی۔ اب نیوٹریلٹی کا مطلب یہ ہے کہ وہ تیسری قوت کو اس طرح سے سپورٹ نہیں دینگے، جیسے پہلے کیا تھا۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ یہ دراندازی نہیں کرینگے، پری پول دھاندلی نہیں ہو گی، الیکشن کے وقت کچھ حلقوں میں مداخلت نہیں ہو گی، تو یہ اچھی امیدیں تو ہو سکتی ہیں، میرا ایسا خیال نہیں کہ حقیقت میں کچھ ایسا ہونے والا ہے۔

کیا موجودہ بحران کی ایک واحد وجہ یہی تھی کہ فوج کے اگلے آرمی چیف کی نامزدگی پر لڑائی چل رہی تھی، یا کچھ اور وجوہات بھی ہیں؟ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ محض فوج کی اندرونی لڑائی ہے، یا ابتر معاشی صورتحال، ریاست کا مجموعی کردار، سویلین بالادستی کا نہ ہونااور دیگر عوامل نے بھی بحران کو بڑھانے میں کردار ادا کیا؟

عائشہ صدیقہ: سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ بہت سے عوامل اکٹھے چلتے ہیں، جن میں سیاسی، سماجی اور معاشی بھی ہیں۔ آرمی چیف اور عمران خان میں فاصلہ پیدا کرنے والی جو سب سے بڑی چیز ہے وہ یہی ہے کہ عمران خان نے بھی پرانے وزیر اعظم نوازشریف اور انکے پیشروؤں کی طرح سوچا کہ وہ اگر فوج کو اپنے ہاتھ میں کر لیں گے تو سیاسی نظام ان کے کنٹرول میں آجائے گا۔ اسی لئے آرمی چیف کی تقرری کیسے اور کیونکر ہونے پر جھگڑا شروع ہوتا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ یہاں سے جھگڑے کا آغاز ہوتا ہے۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ ڈلیور نہیں کر سکے، یاکارکردگی ٹھیک نہیں تھی۔ میرا ان لوگوں سے سوال ہے کہ کیا معیشت عمران خان چلا رہے تھے؟ وہ تو جنرل باجوہ اور فیض حمید چلا رہے تھے۔ بڑے کنٹریکٹ ہوں یا اہم فیصلے ہوں، وہ فوج خود کر رہی تھی۔ ہائبرڈ سسٹم یہی تھا کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے اور ذمہ داری کوئی اٹھا رہا تھا۔ وہیں ایک خلفشار پیدا ہو گیا اور یہ سب کچھ انہوں نے عمران خان کے ذمے ڈال دیا۔ عمران خان میں فوج کیلئے سب سے اچھی بات یہی تھی کہ وہ دراندازی نہیں کرتے تھے، جو انہیں سکھایا، پڑھایا جاتا تھا صرف وہی کرتے تھے۔ عمران خان کا باقیوں کی طرح ایک مسئلہ ہے، اسے آپ ان کی ہٹ دھرمی کہہ لیں، بے وقوفی کہہ لیں یا سٹریٹ سمارٹ نہ ہونا کہہ لیں۔ تاہم یہ انکا اکیلے کا مسئلہ نہیں ہے، جب بھی سیاستدانوں کو یہاں 3 سے 4 سال گزرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ اصل طاقت تو وہ ہیں، اس لئے وہ فوج کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں، من مانی کی کوشش کرتے ہیں، تو اس میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ عمران خان کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

ملکی معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے، 75 سال سے اکنامک انڈر ڈویلپمنٹ کے بحران کے تسلسل میں عالمی قرضوں کا بحران، جسے سیلاب نے مزید گہرا کر دیا ہے، اس کے پیش نظر آپ کے خیال میں فوج اپنی سیاسی معیشت کو اسی طرح سے جاری رکھ پائے گی، یا کچھ ری ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی؟

عائشہ صدیقہ: ابھی گزشتہ دنوں پاکستان نے وی ٹی فور چینی ٹینکوں کا سودا کیا ہے، اسی طرح جہاز بھی لے رہے ہیں۔ اب کوئی سوال کرے کہ ٹینک آپ کس لئے لے رہے ہیں، کیونکہ اب کوئی ٹینکوں والی جنگ تو ہونی نہیں ہے۔ تاہم جو دیکھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے خطرے اور معیشت اسی طرح سے چلا رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آرمی چیف اپنی میراث (لیگیسی) چھوڑ کر جائیں گے۔ وہ میراث کیا ہے؟ سب سے بڑی میراث یہی ہے کہ فوج کو اور عوام کو باور کروایا جائے کہ ملک میں جو ایک واحد ادارہ جو رہ گیا ہے، وہ فوج ہے۔ اس کیلئے ظاہر ہے جہاں بھی حالات خراب ہونگے، سیلاب ہونگے یا لوگوں کو کسی نوعیت کی مدد چاہیے ہو گی توموقع مل جائے گا۔ پاکستان میں حالات خراب ہو جائیں تو سویلین اداروں کی بھی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، وہ بھی فوج کی طرف دیکھتے ہیں، اس طرح عوام کو تو پیغام مل ہی جاتا ہے۔ اسی طرح یہ اپنے لوگوں، جو 2007ء میں ان کے خاندان، پنشنرز اور ان کی اولادیں سب ملا کر 9 ملین افراد تھے، اب 11 ملین سے زیادہ ہونگے، کو بھی سمجھا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم سے بہتر کوئی ادارہ نہیں ہے۔ ہم ہی ملک کو بچانا جانتے ہیں، ہم ہی اس ملک کو بچائیں گے، ہماری سلامتی میں ہی ملک کی سلامتی ہے۔ جنرل باجوہ نے بھی یہی سمجھایا ہے اور یہی ان کی میراث ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ ان کی معیشت میں کوئی کمی آئے گی۔

نجم سیٹھی کہہ رہے ہیں کہ مارشل لا لگ سکتا ہے، پھر کہنے لگے اکتوبر اہم ہے، پھر نومبر کو اہم قرار دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے آرمی چیف کی تقرری تک کوئی بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے، یعنی مارشل لا کا کوئی خطرہ یا اس نام نہاد سویلین حکومتی سلسلے کو ختم کئے جانے کا کوئی امکان ہے؟

عائشہ صدیقہ: میرے خیال میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ 500 سے 1000 لوگوں پر ہی مشتمل ہے، اس میں بہت سے لوگ شامل ہیں، میڈیا بھی شامل ہوتا ہے۔ میڈیا سے بھی کچھ باتیں کہلوائی جاتی ہیں، نجم سیٹھی سے یہ بات عمران خان کو پیچھے دھکیلنے اور ڈرانے کیلئے کہلوائی جا رہی ہے۔ یہ پرانے ہتھکنڈے ہیں، جو پھر سے استعمال ہو رہے ہیں۔ صحافیوں کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھو ایسا بھی ہو سکتا ہے، تاہم میرا ایسا خیال نہیں ہے۔

یہ ضرور سنا تھا کہ گزشتہ سال نومبر میں جنرل باجوہ کچھ تیاری کر رہے تھے۔ بہر حال وہ ایسے جنرل نہیں ہیں جن کے پیچھے فوج مارشل لا لگانے کیلئے چلے گی۔ ہرجنرل آرمی چیف تو بن سکتا ہے، لیکن ہر آرمی چیف کے پیچھے چل کر فوج مارشل لا نہیں لگا سکتی۔ کچھ میں قابلیت ہوتی ہے، کچھ میں نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے جنرل باجوہ چلے جائیں گے، لیکن اصل بات ان کیلئے یہ ہے کہ ایسا کون آدمی ہو گا جو ان کی میراث کو، ان کے خیال کو، ان کی خارجہ پالیسی، جیو پالیٹکس، معاشی، سماجی سمجھ بوجھ کو آگے لے کر چلے گا۔ مسئلہ صرف اتنا ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ن لیگ کی حکومت ہے ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اس جنرل کو منتخب کیا جائے جس کے ساتھ ان کے بھی کچھ روابط ہوں۔ اس لئے دیکھیں قرعہ کس کے نام نکلتا ہے۔

مشرف کے جانے کے بعد یہ بات بہت مقبول ہوئی تھی کہ فوج میں اب مارشل لا لگانے کی صلاحیت نہیں بچی ہے، معاشی اور سیاسی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ دوبارہ براہ راست اقتدار پر قبضہ کریں۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ براہ راست مارشل لا نہ لگاپانے کی وجہ سے ہائبرڈ طریقہ کار سے حکومت چلانے کا منصوبہ اپنایا گیا، اس سوچ کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟

عائشہ صدیقہ: میرا نہیں خیال کہ یہ قابلیت کی بات ہے۔ میرے خیال میں یہ اب زیادہ انسٹیٹیوشنلائزڈ ہو چکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف اور باجوہ اوسط درجے کے جنرل ہیں، جنہوں نے بہت زیادہ چیلنجز بھی پیدا کئے، لیکن اب ان کے زیادہ تر فیصلے ادارہ جاتی ہوتے ہیں، جس میں سب اکٹھے ہوتے ہیں۔ مشرف کے بعد جو تبدیلی آئی، وہ یہی آئی کہ انہوں نے ریاست کے کنٹرول سے ہٹ کر گورننس کے کنٹرول کا راستہ اپنایا، جس سے یہ ہائبرڈ والا عنصر نکلا۔ اب گورننس میں آپ تمام وسائل کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ آپ طاقت میں اسی لئے آتے ہیں کہ وسائل پر کنٹرول ہو، یہ فیصلے اپنی طاقت بڑھانے کیلئے ہوتے ہیں، قوم کو بچانے کیلئے نہیں ہوتے، یہ ہمیشہ طاقت بچانے کیلئے آتے ہیں۔ جب طاقت بچ رہی ہے، الزام بھی کم آرہا ہے، تو میرا خیال ہے کہ یہ بہتر طریقہ ہے، بجائے اس کے کہ آپ دراندازی کریں اور خود ریاست پر قبضہ کریں۔ اس میں ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ کر نہیں سکتے، میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر سودا ہے اور فائدے مند بھی ہے۔

عمران خان کی حکومت سے متعلق کہا جا رہا تھا کہ یہ ہائبرڈ رجیم ہے۔ کیا شہباز شریف حکومت بھی ہائبرڈ رجیم نہیں ہے، یہ بھی تو وہ سب کچھ کر رہے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہوتی ہے؟

عائشہ صدیقہ: مجھے تو اس بارے میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے کہ یہ ہائبرڈ نہیں ہیں۔ میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ یہ اسی طرح چلے گا۔ وہی حکومتیں آئیں گی، جو فوج کو طاقت میں رہنے دیں گی۔ سابقہ کی طرح موجودہ ہے اور اسی طرح اگلی بھی ہائبرڈ ہی ہوگی۔ جب تک سیاسی پارٹیوں کا نظام تبدیل نہیں ہو گا، ان کے اندر جمہوریت نہیں آئے گی، سیاست کی تمیز نہیں آئے گی، جب تک ان میں ادراک نہیں ہو گا کہ کس طرح اپنی طاقت کو بڑھایا جائے، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

بات کرنی تو آسان ہے کہ ووٹ کو عزت دو، لیکن جب پارٹیاں ووٹر کو عزت نہیں دیں گی، جب یہ ان کی طاقت نہیں بنیں گی، تو پھر ہائبرڈ سسٹم تو یونہی چلتا رہے گا۔

مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جمعیت علما اسلام سمیت دیگر جب اپوزیشن میں تھے تو تھوڑا بہت فوج کی مداخلت پر بات کرتے تھے، لیکن اب چپ ہیں۔ اسی طرح عمران خان بھی اقتدار میں چپ تھے اور اب فوج مخالف بیانیہ بنا رہے ہیں۔ کیا یہ موقع پرستی بھی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار نہیں؟

عائشہ صدیقہ: میرا خیال یہ ہے کہ جوسب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ہماری پارٹیوں میں نہیں بلکہ پورے معاشرے میں ہے۔ اداروں کا فقدان ہے، یہاں ادارے نہیں بنتے بلکہ شخصیات ہوتی ہیں، ان کی پسند اور ناپسند ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ جمہوری نہیں ہے۔ این جی اوز، لیفٹ اور رائٹ کی پارٹیاں، سیاست اور ادارے اٹھا کر دیکھ لیں۔ جس ادارے کو ہاتھ لگائیں گے، کسی میں یہ احساس نہیں ملے گا کہ یہ ادارہ ہے۔ ٹاپ پر لوگ بٹھا دیئے جاتے ہیں۔ ادارے پنپتے ہی نہیں ہیں۔ شاید ہمارے اندر کوئی پیدائشی خامی ہے۔ یہاں پارٹیوں کے اندر کوئی تھنک ٹینک نہیں ہیں، کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ کوئی چیف لگانا چاہتا ہے، کوئی ڈی جی لگانا چاہتا ہے، لیکن کیا پارلیمان کو کسی پارٹی نے طاقت دی، یا کوشش کی کہ وہ طاقتور بن جائے؟ یا ایسی کوشش ہوئی کہ پارلیمنٹ میں ایسا نظام لے آئیں، جس سے فوج کو پیچھے دھکیلا جا سکے؟ ہمارے ڈھانچے میں بہت ساری خامیاں ہیں، جب تک یہ ٹھیک نہیں ہوگا، یہ سب یونہی چلتا رہے گا۔

یہ بات تو سمجھی جا سکتی ہے کہ فوج چاہتی ہے کہ سیاسی قیادت میں باہمی اتفاق رائے پیدا نہ ہو، لیکن کیا یہ سیاسی قیادت کی بھی نااہلی اور ناکامی نہیں کہ وہ کبھی بھی ایک اشرافیہ کے مابین اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔ ملک مین جو ایک کمزور جمہوری شکل ہے، اس کی ناکامی میں پاکستانی اشرافیہ میں اتفاق رائے قائم نہ ہو پانے کے کردار کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟

عائشہ صدیقہ: آپ کے سوال میں ہی ایک جواب چھپا ہوا ہے۔ وہ یہی ہے کہ ظاہر ہے فوج کا قصور ہے، وہ ایکسپلائٹ کرتے ہیں، طاقت چاہتے ہیں، لیکن سیاسی حکومتیں، پارٹیاں یا تنظیمیں بھی نہیں تھیں۔ آپ کے ہاں کوئی گفتگو نہیں ہوتی، وہ گفتگو جس میں لوگوں سے بات کی جا سکے، انہیں شامل کیا جا سکے، وہ پارٹیاں نہیں کر رہی ہیں۔ پارٹیوں میں لوگوں کو لے کر چلنے کا حوصلہ ہی پیدا نہیں ہو سکا۔

میں اکثر لوگوں سے کہتی ہوں کہ جو لوگ عمران خان کو لیکر چل پڑے ہیں، ان میں سے بہت سارے لوگوں کو شاید ان سے محبت ہو، لیکن بہت سے ایسے ہیں جو فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ سیاسی نظام سے ایک ناامیدی کی صورتحال ہے، لوگوں کو ایک امید چاہیے، آگے چلنے کا راستہ چاہیے، لیکن وہ پارٹیاں دکھا نہیں رہی ہیں۔ یہاں برطانیہ میں ہر پارٹی کے کنونشن ہوتے ہیں، ابھی حال ہی میں حکمران جماعت کا کنونشن ہوا، جس میں وزیر اعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پارٹیوں میں بحث مباحثہ ہوتا ہے، فیصلہ ہوتا ہے کہ کون وزیر اعظم بن سکتا ہے اور کون نہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ کسی ایک کو دولہا بنا کر بٹھا دیتے ہیں، کوئی کیڈر نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کا ایک زمانے میں کیڈر ہوتا تھا، جس کو اتنے سالوں میں پارٹی نے خود ہی بہت نقصان پہنچایا۔ ن لیگ کا کیڈر نہیں ہے، وہ ایک خاندانی سے بھی بڑھ کر ’پیٹرنیج بیسڈ‘ پارٹی ہے، جو مختلف علاقوں میں طاقت رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ پی ٹی آئی کے بھی اپنے ہی مسائل ہیں۔ یوں یہ پارٹیاں اور قیادتیں کیڈر پر کام نہیں کرتیں۔ عمران خان مسلسل یہ تو کہہ رہے ہیں کہ کرپشن ہے، انہیں غلط ہٹایا گیا، امریکہ کی مداخلت وغیرہ، وہ کوئی نئی بات کیوں نہیں کرتے؟ بلاول کے بھی یہی حالات ہیں خاندان کی قربانیوں کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہو رہی ہے۔

میں ایک مضمون پڑھ رہی تھی، جس کے مطابق پاکستان میں پنشن کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ آنے والے سالوں میں مرکزی حکومت کے بجٹ کا 56 فیصد صرف پنشن پر لگے گا۔ اس طرح کے مسائل پر پارٹیوں میں گفتگو نہیں ہو رہی، معاشی پالیسیوں پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، فارن پالیسی پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ انڈو پیسفک ایک بہت ضروری اسٹریٹجی ہے، یہ جیو پالیٹکس کی ایک نئی جہت ہے، لیکن کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں پھر جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہو سکتا ہے۔

تاریخی تاخیر زدگی کا شکار اور بحران زدہ پاکستان میں مغرب کی طرز پر سرمایہ دارانہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور پارلیمان کی بالادستی کا قیام ممکن بھی ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو فوری طور پر کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں؟

عائشہ صدیقہ: یہ ایک کھچڑی ہے، بلکہ وہ تو فوری پک جاتی ہے، یہ فوری نہ پک پانے والی کھچڑی ہے۔ تین چیزیں اکٹھی چل رہی ہیں، معاشی کرپشن، سیاسی کرپشن اور دانشورانہ کرپشن حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہاں اب خواب لینے والے اور بات کرنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ دو انتہائیں ہیں، یا تو مذہب کی طرف دھکیلا جاتا ہے، ہر مسئلے کو مذہب کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، یا پھر مذہب سے پرے کی بات ہوتی ہے۔ ہر چیز ایک جگہ پر جا کر پھنس چکی ہے۔ سرمایہ داری کا گوڑھا رابطہ نیشنل ازم سے ہے۔ نیشنل ازم سرمایہ داری کا ایک حصہ ہے، جو عقل کو بالکل ماؤف کر دیتا ہے۔ انسانیت، اصول پرستی اور خوابوں کی بات کہیں پیچھے دور چلی جاتی ہے۔ جب خواب لینے والے ہی نہیں رہ گئے، تو پھر ہم آگے کیا بڑھیں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔