خبریں/تبصرے

اقوام متحدہ: کیوبا کو ملے 185 ووٹ، امریکہ کو صرف اسرائیل نے ووٹ دیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کیوبا پر امریکی پابندیوں کی سخت سرزنش کی ہے، جسے ہوانا نے کیریبین جزیرے پر معاشی بحران کے درمیان ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق جمعرات کو 185 ملکوں نے پابندی کی مذمت میں ایک غیر پابند قرار داد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت میں ووٹ دیا، برازیل اور یوکرین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

یہ 30 واں موقع تھا جب اقوام متحدہ نے امریکی پالیسی کی مذمت کیلئے ووٹ دیا ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

امریکی پولی ٹیکل کوآرڈی نیٹر جان کیلی نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ’امریکہ اس قرار داد کی مخالفت کرتا ہے، لیکن ہم کیوبا کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں بامعنی مدد فراہم کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہیں گے۔‘

اقوام متحدہ میں کیوبا کے نائب نمائندے یوری گالا نے کہا کہ اگر امریکہ کی حکومت کیوبا کی فلاح و بہبود، انسانی حقوق اور خود ارادیت میں واقعی دلچسپی رکھتی ہے تو وہ ناکہ بندی ختم کر سکتی ہے۔

فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب اور امریکی شہریوں اور کارپوریشنوں کی جائیدادوں کو قومیانے کے بعد امریکہ نے 1960ء میں یہ پابندی عائد کی تھی۔ دو سال بعد اس اقدام کو، جو دونوں ملکوں کے مابین تجارت پر پابندی لگاتا تھا، دیگر پابندیوں کے ساتھ مزید مضبوط کیا گیا تھا۔

امریکی صدر براک اوباما نے عہدہ صدارت کے دوران کیوبا کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کیلئے کچھ اقدامات کئے، جن میں باضابطہ طور پر امریکہ اور کیوبا کے درمیان تعلقات کو بحال کرنا اور 2016ء میں ہوانا کا دورہ کرنا شامل تھا۔

اس سال امریکہ نے پہلی بار اقوام متحدہ میں پابندی کی مذمت میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

تاہم سابق صدر ٹرمپ نے ایسی کوششوں کو ختم کر دیا تھا اور مزید سخت گیر رویہ اختیار کیا، پابندیوں کو بڑھایا اورمعمول پر آنے کی طرف اٹھنے والا ہر قدم پیچھے ہٹا لیا تھا۔

موجودہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے ٹرمپ کی پالیسیوں سے کافی حد تک انحراف نہیں کیا، لیکن انہوں نے ترسیلات زر اور کیوبا کیلئے پروازوں پر پابندیوں میں نرمی جیسے معمولی اقدامات کئے ہیں۔

کیوبا اور امریکہ کے درمیان حالیہ مہینوں میں نقل مکانی، سلامتی اور علاقائی تعلقات جیسے مسائل پر بھی کشیدگی بڑھی ہے۔

جمعرات کو اقوام متحدہ کے ووٹ سے پہلے کیوبا کے وزیر خارجہ برونوروڈریگز نے بائیڈن انتظامیہ پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کا راستہ جاری رکھنے کا الزام لگایا۔ روڈریگز نے کہا کہ بائیڈن کے 14 ماہ کے دفتر میں پابندی سے کیوبا کی معیشت کو تقریباً 6.3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts