لاہور (جدوجہد رپورٹ) 30 سے زائد معروف غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے اتحاد (جوائنٹ ایکشن کمیٹی) نے حکومت کی جاری کردہ نئی این جی اوز پالیسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
’وائس پی کے‘ کے مطابق جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنونیئر محمد تحسین نے اس نئی پالیسی کوچیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کابینہ کی طرف سے منظورہ کردہ پالیسی کے مطابق غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) جو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرتی ہیں، ان کو سیکورٹی کلیئرنس واپس لینے، قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں اور مذہبی عدم برداشت، نسلی تشدد یا نفرت کوہوا دینے پروزارت اقتصادی امور کے ساتھ دستخط شدہ مفاہمت کی یاداشت (ایم او یو) کو فوری طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
وزارت اقتصادی امور کی ویب سائٹ پر جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی کابینہ نے 11 نومبر کو غیر ملکی امداد حاصل کرنے والی مقامی این جی اوز/این پی اوز کیلئے پالیسی 2022ء کی منظوری دی تھی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ پالیسی پاکستان رجسٹرڈ این جی اوز اور غیر منافع بخش تنظیموں کو موصول ہونے، حاصل کی جانے اور استعمال کی جانے والی غی رملکی فنڈنگ کو ریگولیٹ کرنے اور اس کی تاثیر بڑھانے کیلئے وضع کی گئی ہے۔
اگر غیر ملکی تعاون حاصل کرنے والی این جی او یا این پی او اس پالیسی کی کسی یا تمام دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہے تو ایم او یو کو ختم کر دیا جائے گا۔ پالیسی کی خلاف ورزی میں قومی سلامتی کیلئے نقصان دہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا، مذہب عدم برداشت، نسلی تشدد یا نفرت کو فروغ دینا، منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث ہونا، متعلقہ ایجنسی کی جانب سے سکیورٹی کلیئرنس واپس لینا، متعلقہ افراد کو مطلع کرنے کی وجوہات نہ بتانا، ممنوعہ علاقوں میں بغیر اجازت کوئی پراجیکٹ شروع کرنا اور حقائق چھپانا، جھوٹی معلومات فراہم کرنا، جعل سازی اور چھیڑ چھاڑ میں ملوث ہونا اور دیگر وجوہات شامل کی گئی ہیں۔
این جی اوز کی پالیسی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر محمد تحسین نے مایوسی کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت نے ان کی پیش کردہ تجاویز اور اعتراضات کو شامل کئے بغیر این جی اوز کی پالیسی کو حتمی شکل دی۔ این جی اوز کیلئے بنائی گئی پالیسی آئین میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’جب سندھ ہائی کورٹ نے جنوری میں ایک فیصلے میں سابقہ پالیسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا، تو حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت نے غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ایک اور پالیسی لانے کا انتخاب کیاہے۔‘
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق اقتصادی امور کی وزارت کو ایسے اختیارات حاصل نہیں تھے اور نہ ہی قانون میں پالیسی کے ذریعے پٹیشنر کے کاموں کو ریگولیٹ کرنے یا روکنے کا اختیار دیا گیا تھا، جس کی کوئی آئینی طاقت یا قانونی مینڈیٹ بھی موجود نہیں تھا۔
محمد تحسین کا کہنا تھا کہ این جی اواز کی پالیسیکو کسی قانون سازی کی حایت حاصل نہیں ہے اور یہ انجمن سازی کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پالیسی میں وضع کردہ ایم او یوکو ختم کرنے کیلئے سکیورٹی کلیئرنس کی شرائط اور قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں کی مخالفت کی۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پالیسی میں وضع کردہ ایم او یو کو ختم کرنے کیلئے سکیورٹی کلیئرنس کی شرائط اور قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں کی مخالفت کی۔ بیان میں کہا گیا کہ ’یہ شرائط خود کو نامعلوم ایجنسیوں کی طرف سے من مانی اور موضوعی جائزوں کے رحم ہو کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے اور شہریوں کو انسانی حقوق کے دفاع، آئین کو برقرار رکھنے کے حق سے محروم کرنے کیلئے استعمال کی جا سکتی ہیں۔‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ممنوعہ جگہوں کی باقاعدہ فہرست شائع کرے اور عوامی طور پر دستیاب کرے تاکہ ممنوعہ جگہوں اور علاقوں میں کوئی بھی منصوبہ شروع کرنے والی این جی اوز کو مطلع کیا جا سکے۔ اگر این جی اوز نئی پالیسی کے تحت اجازت کے بغیر کسی ممنوعہ علاقے میں کام کرتی ہیں تو انہیں اپنے ایم او یو کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔