لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکی ایوان نمائندگان میں سوشلزم کے خلاف قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے نمائندگان کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد کی منظوری میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندگان نے بھی ریپبلکن کا ساتھ دیا ہے۔
’جیکوبن‘ کے مطابق ریپبلکنز نے سوشلزم کی مذمت میں پیش کی گئی اس قرارداد کو مضحکہ خیز قرار دینے کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی کے سنٹرسٹ سمجھے جانے والے نمائندوں نے بھی ووٹ دیا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک نئے اہم رہنما اور نینسی پلوسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہاؤس مائنارٹی لیڈر اور ہاؤس ڈیموکریٹک کاکس کے رہنما حکیم جیفریز نے اس قرارداد کو جعلی، بکواس اور دھوکہ دہی پر مبنی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کی قرارداد نے ریپبلکنز کو ایک ایسے ایجنڈے کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے کیلئے تحفظ فراہم کیا ہے، جو امریکی عوام کی صحت، حفاظت اور بہبود کوبہتر کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔
جیفریز نے نشاندہی کی کہ تاریخی طور پر ریپلکنز نے سوشل سکیورٹی،میڈی کیئر، میڈی کیڈ، پبلک ایجوکیشن، اوباما کیئر اور یہا ں تک کہ اوباما کے دور کے محرک بل جیسے مقبول سرکاری پروگراموں کی حمایت کو کمزور کرنے کیلئے لفظ ’سوشلزم‘ کا استعمال کیا ہے۔
تاہم اس پرجوش تقریر کے بعد حکیم جیفریز نے ریپبلکنز کی قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دیا۔ نینسی پلوسی نے بھی ایسا ہی کیا۔ سنٹرسٹ لیڈر شپ کے دیگر اراکین ایڈم شیف، جم کلائی برن اور ترقی پسند روکھنہ نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اس قرارداد میں ہیوگوشاویز سے لے کر جوزف سٹالن تک ہر ایک رہنما کو ایک برابر رکھتے ہوئے سوشلسٹ تاریخ اور موجودہ دور کے بیشترتجربے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
قرارداد پیش کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے نمائندہ ماریا ایلویرا سالازار نے ایوان کے فلور پر کہا کہ نوجوانوں میں سوشلزم کی طرف جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ 40 فیصد نوجوان سوچتے ہیں کہ کمیونسٹ منشور آزادی اور مساوات کیلئے ’اعلان آزادی‘سے بہتر تھا۔
’جیکوبن‘ لکھتا ہے کہ وہ نوجوان بالکل درست ہیں، یقینا کمیونسٹ منشور اور اعلان آزادی دونوں ہی بصیر کی دستاویزات ہیں، لیکن مارکس کا منشور اس بارے میں کہیں زیادہ مخصوص ہے کہ آزادی اور مساوات کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سالازار نے نشاندہی کی کہ ’صرف نوجوان نہیں بلکہ تمام امریکیوں میں سے 40 فیصد یہ یقین رکھتے ہیں کہ سوشلزم اچھا ہے۔ 33 فیصد نے کہا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ (ڈی ایس اے) کے رکن کی حمایت کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں تھی کہ سوشلزم کے خلاف ڈیموکریٹک قیادت نے ریپبلکنز کے ساتھ دیا ہو۔ ماضی میں بھی کئی مواقع پراس طرح کے اقدامات کئے جا چکے ہیں۔
تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایوان کے 86 ڈیموکریٹس نے قرار داد کے خلاف بھی ووٹ دیا ہے۔ قرارداد کی مخالفت کرنے والے ارکان کا استدلال تھا کہ ریپبلکن سوشلزم کے بارے میں خوفزدہ ہیں تاکہ پاپولر پروگراموں پر حملہ کیا جا سکے اور نارڈک ممالک کی طرح سوشل ڈیموکریسی کے مقبول ماڈلز کی تقلید میں دلچسپی رکھنے والے امریکیوں کی توجہ ہٹائی جائے۔
یہاں تک کہ سوشلزم سے کم ہمدردی رکھنے والے کچھ لبرلز نے بھی ریپبلکن قرارداد کی مخالفت کی اور اسے ایک بھونڈی کوشش قرار دیا ہے۔
درحقیقت یہ قرارداد جمہوری سوشلسٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کیلئے لائی گئی تھی۔ اس وقت سوشلسٹ امریکہ میں نہ صرف طاقت بنا رہے ہیں، بلکہ کچھ فتوحات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ جیسا کہ سالازار نے نوٹ کیا، سوشلسٹ بہت سے امریکیوں کو اپنے خیالات کو آزمانے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ تاہم سنٹرسٹ ڈیموکریٹس اس کاروباری اشرافیہ کو خوش کرنے میں مصروف ہیں جو ان کی الیکشن مہم کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔