لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستا ن میں 6 ماہ قبل آنے والے تباہ کن سیلاب کا پانی تو زیادہ تر علاقوں سے کم ہو گیا ہے لیکن نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے تاحال کوئی ریاستی سطح پر اقدامات نہیں کئے جا سکے ہیں۔
گزشتہ سال 3 ماہ کی مسلسل اور غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ملک کا 10 واں حصہ ڈوب گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اسے ماحولیاتی تباہی قرار دیا، جبکہ حکومت نے کہا کہ کم از کم 33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور 1700 سے زائد ہلاک ہوئے تھے۔
’گارڈین‘ کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں سیلاب کا پانی وسیع رقبے پر کھڑا ہے۔ کم از کم 1.5 ملین ہیکٹر (4 ملین ایکڑ) زرعی اراضی تباہ ہوگئی، جس سے 15 ملین افراد کو خوراک کی کمی ہوئی اور 30 ارب ڈالر سے 35 ارب ڈالر کے درمیان مالی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا۔ بین الاقوامی بینکوں اور ڈونرز نے ملک کی تعمیر نو میں مدد کیلئے 9 ارب ڈالر سے زائد دینے کا وعدہ کیا ہے۔
دادو کے بندھ پر ہفتوں تک 2 ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں بیٹھے رہے جہاں صرف کشتی کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا تھا۔ نورنگ چانڈیو کا خاندان بھی ان افراد میں شامل تھا۔
آس پاس کی سڑکوں سے اب پانی اتر چکا ہے، لیکن کپاس کے کھیتوں میں گدلا سبز پانی ابھی بھی باقی ہے۔ زیادہ تر زندہ بچ جانے والے اب سندھ حکام کے قائم کردہ کیمپ میں خیموں میں رہتے ہیں۔
خیمے میں پناہ لینے والے بادل چانڈیو کہتے ہیں کہ ’یہاں زندگی آسان نہیں ہے۔ کل بارش ہوئی اور پانی ہماری کیمپوں میں داخل ہو گیا۔ ہم ساری رات سردی سے کانپتے رہے۔ جب ہم بارش دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں کہ بارش رک جائے۔ ہم اس زندگی سے تھک چکے ہیں۔‘
علی نورنگ چانڈیو اور بادل چانڈیو اب بھینسوں کا گوبر بیچ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں صرف ایک ہی مالی امداد ملی جو وفاقی حکومت کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 7 ہزار روپے کی نقد ادائیگی تھی۔
گزشتہ ایک ماہ سے امدادی کارکنوں یا این جی اوز میں سے کسی کی جانب سے خوراک کی تقسیم نہیں کی گئی۔ بادل چانڈیو کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنی خواتین کو کیمپوں میں چھوڑ کر کراچی جیسے دوسرے بڑے شہروں میں کام کیلئے نہیں جا سکتے۔ ہم کیمپوں میں ان کی حفاظت کیلئے پریشان ہیں۔‘
کیمپ میں موجود ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ذلت آمیز زندگی ہے۔ کوئی خوراک یا مدد نہیں ہے۔ ہمیں کوئی کمبل نہیں دیا گیا۔ ہمارے پاس سخت سردی ہے اور بغیر کسی سہولت کے کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ہم غریب ہیں۔ ہم دوسرا گھر کرائے پر لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ورنہ ہم اس ذلت آمیز زندگی کو چھوڑنے کیلئے ایسا کر سکتے تھے۔‘
خاتون کو 7 ہزار روپے کی رقم موصول ہوئی لیکن یہ اس کے بیٹے کی صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ انہیں ٹائیفائیڈ کے باعث ہسپتال داخل کروایا گیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ’ادویات کو پیسے کی ضرورت ہے اور یہاں کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ آئے اور ہماری مدد کرے۔‘
بہت سے لوگوں کیلئے ٹھہرے ہوئے پانی سے گھرے خستہ حال گھروں میں واپس جانا سڑک کنارے یا کیمپ میں رہنے سے بہتر رہا ہے۔ دوسروں نے ان میدانوں میں خیمے لگا رکھے ہیں جو کبھی ان کے گھر تھے۔
70 سالہ مزدور غلام رسول دسمبر میں دادو کے کیمپ سے اپنے گاؤں واپس آ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر کو سیلابی پانی میں گھرا ہوا پایا۔ چھت سے لوہے کے گارڈر چوری ہو چکے تھے۔ انہوں نے مویشیوں کے گوبر اور پلاسٹک کا استعمال کر کے چھت کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔
غلام رسول کا کہنا تھا کہ ’سیلاب نے سب کو متاثر کیا ہے لیکن اس کا اثر غریبوں اور مزدوروں پر سب سے زیادہ ہے۔ حکومت میں ہمارا کوئی نہیں، ہماری یہاں کوئی آواز نہیں ہے۔ امیر اور طاقتور لوگوں کو پیسہ اور ہر طرح کی مدد ملی رہی ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ انہوں نے صوبے میں کرپشن کی بہت سی کہانیاں سنی ہیں۔ ستمبر میں دادو کی سرحد سے متصل ضلع قمبر شہداد کوٹ کے ایک گودام سے پولیس نے سیلاب متاثرین کیلئے بنائے گئے سینکڑوں خیمے اور دیگر راشن دریافت کئے تھے۔ کچھ مقامی اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا لیکن کسی پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
انکا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی برادری کو بحالی اور تعمیراتی کاموں میں شامل ہونا چاہیے تاکہ ہم غریب بھی مستفید ہوں۔‘
غلام رسول کے پڑوسیوں میں سے ایک محمد صدیق بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ 7 بچوں کے والد ہیں اور اپنے گھر کے اطراف ننگے پاؤں پانی میں گھومتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’خیموں میں رہنا ناممکن تھا۔ میں اپنے گھر واپس آیا، لیکن اس تک پہنچنے کیلئے مجھے پانی عبور کرنا پڑا۔ میں نے ضلعی انتظامیہ سے گزارش کی کہ میرا گھر جانے کا راستہ صاف کیا جائے لیکن یہاں کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ حکومت نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے سیاستدان ہمیں الیکشن کے وقت یاد کرتے ہیں۔‘
ایک دکاندار مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ ’غربت بڑھ رہی ہے۔ میں نے اپنی دکان پر گاہکوں میں 75 فیصد کمی دیکھی ہے۔ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ زیادہ تر علاقہ کاشتکاری پر منحصر ہے اور لوگ اپنے کھیتوں اور زرعی فصلوں کو کھو چکے ہیں، اس لئے وہ اپنا گزارہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
سیلاب زدہ علاقوں میں جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جنوری میں درجنوں افراد نے دادو اور سکھر کے درمیان انڈس ہائی وے کو مسلح ڈاکوؤں کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد بند کر دیا تھا۔ مظاہرین نے پولیس اور سندھ حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
احتجاج میں شامل اللہ بخش کہتے ہیں کہ ’سیلاب کے بعد سے ہم نے جرائم میں اضافہ دیکھا ہے۔ دیہاتوں میں چور گھروں میں گھس جاتے ہیں اور دن کے وقت بھی بندوق کی نوک پر بھینسیں اور مویشی چرا لیتے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’سیلاب سے متاثرہ دیہاتوں اور اضلاع سے ڈکیتی کی اطلاعات روزانہ کی بنیاد پر آتی ہیں۔ حکومت نے ہمیں چوروں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہم سڑکیں بند کرنے، احتجاج کرنے اور انصاف کیلئے رونے کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟‘