لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکہ کی بدنام زمانہ فوجی جیل گوانتاناموبے میں دو دہائیوں تک زیر حراست رہنے والے دو پاکستانی بھائیوں کو امریکی حکام نے رہا کر دیا ہے اور وہ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
’اے پی‘ کے مطابق 55 سالہ عبدل اور 53 سالہ محمد ربانی کو پاکستانی حکام، سکیورٹی حکام اور ایک پاکستانی سینیٹر کی طرف سے باضابطہ پوچھ گچھ کے بعد ان کے اہل خانہ سے دوبارہ ملایا جائے گا۔
یہ حال ہی میں رہا کئے جانے والے قیدی ہیں جنہیں امریکی حراست سے رہا کیا گیا ہے، کیونکہ امریکہ جیل کو خالی کرنے اور بند کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے اس فوجی جیل کو 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بعد پکڑے گئے مشتبہ افراد کیلئے کیوبا میں ایک بحری اڈے پر قائم کیا تھا۔
دونوں بھائیوں کی رہائی 75 سالہ پاکستانی سیف اللہ پراچہ کی گوانتا ناموبے جیل سے رہائی کے چند ماہ بعد ہوئی ہے۔
انہیں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران 2002ء میں پاکستانی حکام کی جانب سے ان کے آبائی شہر کراچی سے گرفتار کرنے کے بعد امریکی حراست میں منتقل کیا گیا تھا۔
امریکی حکام نے ان دونوں پر القاعدہ کے ارکان کو رہائش اور دیگر نچلی سطح کی لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
دونوں بھائیوں نے گوانتاناموبے منتقل کئے جانے سے قبل سی آئی اے کی حراست میں بدترین تشدد کا الزام لگایا تھا۔ امریکی فوجی ریکارڈ میں بھی ان دونوں کی جانب سے تفتیش کے دوران دیئے گئے بیانات کو اس طور بیان کیا ہے کہ وہ جسمانی استحصال کے ذریعے حاصل کئے گئے تھے۔
امریکی فوج نے ایک بیان میں ان کی وطن واپسی کا اعلان کیا۔ تاہم ان کی واپسی کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے طے کی گئی شرائط کے بارے میں فوری طور پر کوئی معلومات نہیں دیں۔
جمعہ کے روز رہائی پانے والے دونوں بھائیوں کے قریبی خاندانی دوست نے بتایا کہ پاکستان حکام نے بھائیوں کے خاندان کو رہائی اور ان کی پاکستان واپسی کے بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے۔
انہوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محمد ربانی نے گوانتا ناموبے میں اپنی حراست کے دوران پینٹنگ سیکھی تھی اور توقع تھی کہ وہ ان میں سے کچھ پینٹنگز اپنے ساتھ لائیں گے۔
انکا کہنا تھا کہ ربانی اکثر بھوک ہڑتال کرتے تھے اور جیل حکام انہیں ٹیوب کے ذریعے کھانا کھلاتے تھے، وہ زیادہ تر عرصہ غذائی سپلیمنٹس پر ہی زندہ رہے۔
پینٹا گون نے کہا ہے کہ اب گوانتاناموبے میں 32 قیدی باقی ہیں، جن میں سے 18 رہائی کے اہل ہیں، تاہم انہیں اپنانے کیلئے مستحکم ملکوں کی تلاش ہے۔ بہت سے افراد کا تعلق یمن سے ہے، جو جنگ اور مسلح گروہوں سے دوچار ہے۔ آزاد ہونے والے یمنی قیدیوں کو وہاں بھیجنے کیلئے خدمات دینے سے محروم ہے۔
9 قیدیوں کے خلاف فوج کے زیر انتظام چلنے والی عدالتوں میں مقدمات زیر کار ہیں، جبکہ 2 کو سزا سنائی گئی ہے۔