لاہور (جدوجہد رپورٹ) لبنانی پاؤنڈ امریکی ڈالر کے مقابلے میں تاریخی کم ترین سطح پر آ گیا ہے۔ اقتصادی بحران کے اس تازہ ترین سنگ میل نے زیادہ تر آبادی کو غربت میں دھکیل دیا ہے۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق جنوری کے آخر میں لبنانی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 60 ہزار تھی۔ بحران کی سنگینی کے باوجود اشرافیہ کرنسی کے آزادانہ زوال کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اشرافیہ کو ملکی مالیاتی تبادہی کیلئے بڑے پیمانے پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ میں حریف اتحادوں کے درمیان مسلسل تعطل کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے ملک میں کوئی صدر نہیں ہے اور نگراں حکومت امور سرانجام دے رہی ہے۔ لبنانی بنکوں نے طویل عرصہ سے رقم نکلوانے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ منگل کو ہڑتال کے دوبارہ شروع ہونے پر بینک مکمل بند کر دیئے گئے۔
یہ ہڑتال گزشتہ ماہ کے اوائل میں بینکوں کی ایسوسی ایشن نے قرض دہندگان کے خلاف من مانے عدالتی اقدامات کے خلاف شروع کی گئی تھی۔ عدالت میں کھاتہ داروں نے بچت کی بازیافت کیلئے مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
قانونی چارہ جوئی کے جواب میں کچھ ججوں نے بینک ڈائریکٹرز یا بورڈ ممبران کے فنڈز ضبط کرنے یا قرض دہندگان کو پرانے ایکسچینج ریٹ پر صارفین کے ڈالر کے ذخائر ادا کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
نگراں وزیر اعظم نجیب میکاتی کی جانب سے بینکوں کی تحقیقات کرنے والے ججوں میں سے ایک کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے گزشتہ ماہ کے آخر میں مداخلت کے بعد صارفین کو ہڑتال سے دو ہفتے کی مہلت ملی تھی۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران بینک سے رقم نکالنے کی حد نے عوامی غم وغصے کو جنم دیا ہے۔ کچھ لبنانیوں نے اپنے پیسوں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے مسلح ہولڈ اپ کا سہارا لیا ہے۔ دارالحکومت میں بہت سے بینک تقریباً ناقابل شناخت اور حفاظتی دھاتی پینلز میں ڈھکے ہوئے ہیں، جبکہ اے ٹی ایم میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے اور بینکوں کی شاخیں کئی دنوں سے بند ہیں۔
فروری کے وسط میں ڈالر کے مقابلے میں لبنانی کرنسی 80 ہزار روپے تک گرنے کے بعد درجنوں مشتعل مظاہرین نے بیروت میں کئی بینکوں پر حملہ کیا۔ سیاسی بے عملی اور جوابدہی کا فقدان لبنان کے معاشی بحران کا خاصہ رہا ہے۔ حکام اربوں ڈالر کے ہنگامی قرضوں کو کھولنے کے بدلے میں بین الاقوامی قرض دہندگان کی طرف سے مانگی گئی اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
گزشتہ سال اپریل میں آئی ایم ایف نے بیروت کو چار سالوں میں پھیلے ہوئے قرضوں کی مد میں 3 ارب ڈالر فراہم کرنے کے لئے اصولی طور پر ایک معاہدے کا اعلان کیا، جو کہ وسیع اصلاحات کے پیکیج سے مشروط ہے۔
لبنان کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ یہ ملک بڑی حد تک قیادت کے بغیر ہے، کیونکہ منقسم سیاستدان مہینوں سے نیا صدر منتخب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اکتوبر میں میشل عون کی مدت ختم ہونے کے بعد سے لبنان کا کوئی صدر نہیں ہے۔ جانشین کے انتخاب کیلئے پارلیمنٹ کے بار بار اجلاس بلائے گئے، سبھی اجلاس متفقہ امیدوار کیلئے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔