خبریں/تبصرے

پلوامہ حملہ مودی سرکار کی نااہلی کا نتیجہ تھا: سابق کشمیری گورنر ستیہ پال ملک

قیصر عباس

(جدوجہد رپورٹ) پلوامہ میں خودکش حملے کے دوران فروری 2019ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیرکے گورنر ستیہ پال ملک نے ایک دھماکہ خیز انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ حملہ مودی حکومت کے غلط فیصلوں کا نتیجہ تھا اور اگر یہ غلطیاں نہ کی جاتیں تو حملے میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کی جانیں بچا ئی جا سکتی تھیں۔ اس حملے میں بھارتی سنٹرل ریزرو پولیس فورس، سی آر پی ایف کے چالیس سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔

بھارتی حکومت پرسنگین الزامات لگاتے ہوئے ان کامزید کہنا تھا کہ انہوں نے جب وزارت داخلہ کی اس نااہلی کاذکر وزیر اعظم مودی سے کیا تو انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی چونکہ مودی سرکار حملے کا رخ پاکستان کی طرف موڑکے انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی: ”میں نے جب مودی جی کو بتا یا کہ یہ ہماری نااہلی تھی، انہوں نے مجھ سے کہا اس پر آپ چپ رہئے۔“

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے لائی گئی دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ایک کار حملے سے پہلے دس پندرہ روز تک علاقے میں گھومتی رہی اور خفیہ اداروں کی آنکھ سے مکمل طور پر اوجھل رہی۔ اسی کار نے فوجی کارواں پر پلوامہ کی شاہراہ پر حملہ کرکے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی: ”حملے کے قریب آٹھ دس چھوٹی رابطہ سڑکیں ملتی تھی اور ان کی نگرانی کے لئے وہاں کوئی نہیں تھا۔“

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتا یا کہ ”اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کو اندرونی طور پر اکٹھا کرنا ممکن ہے۔ اسے پاکستان سے لایا گیا تھا۔“ ان کا کہنا تھا کہ ان کو اس سارے معاملے سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا تھا اور اگریہ نااہلیاں سرزد نہ ہوتیں تو اتنا بڑا حادثہ پیش نہ آتا۔

خبروں کی ویب سائٹ وائر (Wire) پر بھارت کے مشہورٹی وی اینکر اور صحافی کرن تھاپر کو دئے گئے ایک سنسی خیزویڈیو انٹرویو میں سابق گورنر نے وزیر اعظم پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہاہے کہ سکیورٹی فورس کے اس بڑے قافلے کو سڑک کے بجائے ہوائی جہازوں سے لے جانے کی درخواست کی گئی تھی جسے دہلی میں سیکرٹری وزارت داخلہ نے رد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ”مجھے حقیقت بتانے دیجئے، سی آر پی ایف نے ائر کرافٹ مانگے تھے کیوں کہ اتنا بڑا کانوائے کبھی روڈ سے نہیں جاتا…مجھ سے نہیں، جو اس سے متعلق تھے، ہوم منسٹری سے پوچھا تھا۔ اگر مجھ سے پوچھتے تو میں ضرور دیتا۔“

اس انٹر ویو کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ مودی کی حکومت نے کشمیر کے مسئلے پر اہم فیصلوں کے بارے میں اس وقت کشمیر کے گورنر کو لاعلم رکھا تاکہ انہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ حملے کے بعد رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بھارتی لڑاکا طیاروں نے پاکستان میں بمباری کی تھی۔ جوابی حملے میں پاکستان نے ایک بھارتی جہاز گرا کر اس کے پائلٹ کوحراست میں لے لیا تھا۔ اگرچہ مبصرین کے خیال میں پلوامہ حملے میں پاکستان کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مودی سرکار نے اپنی انتظامی غلطیوں پر پردہ ڈال کر اسے انتخابی مہم میں کامیابی سے استعمال کیا۔

کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ایک بڑی غلطی ہے جسے فوری طورپر واپس لیا جانے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ لداخ کو کشمیر سے الگ کیا جا سکتا تھا لیکن کشمیر کو یونین ٹیرٹری (Union Territory) قرار دینا ایک غلط فیصلہ تھا۔ ان کے نزدیک وزیر اعظم مو دی کشمیر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور انہیں علاقے کے مسائل کا بالکل اندازہ نہیں ہے۔ ان کے الفاظ میں وزیر اعظم ”مست ہیں اپنے میں (ان کے نزدیک کشمیری)، جہنم میں جائیں۔“

ٓانڈیا میں بسنے والوں مسلمانوں سے وزیر اعظم مودی اور ان کے وزرا کے سلوک پر سخت تنقید کرتے ہوئے سابق گورنر کا کہنا تھا کہ مسلمان اس ملک کی ایک بڑی اور ذمہ دارآبادی کا حصہ ہیں جنہیں الگ تھلگ نہیں کا جانا چائیے۔

گورنر ملک نے نومبر 2018ء میں کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت نہ بنانے کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے مختلف وجوہات کاذکر کیاحالانکہ وہ ستاسی کے ایوان میں اکثریت کا دعویٰ کر چکی تھیں لیکن گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

انٹرویو میں ستیہ پال ملک نے اور بھی اہم انکشافات کئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1۔ مودی کے بارے میں بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی وزیراعظم کا ایک غلط فیصلہ تھا جس کے بعد جن لوگوں نے اسے نہیں دیکھا تھا ان کی ایک بڑی تعدادنے اسے دیکھنا شروع کیا۔

2۔ مودی کی ناک کے نیچے مالی بدعنوانیاں ہو رہی ہیں اور وہ ان سے واقف ہیں مگر ان کے خلاف کاروائی نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے مطابق ”مودی کوکرپشن سے بہت نفرت نہیں ہے۔“

3۔ راہول گاندھی کو پارلیمان میں تقریر کی اجازت نہ دینا ایک فاش غلطی تھی جس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

4۔ بھارتی ریاستوں میں نااہل گورنر تعینات کئے جا رہے ہیں۔

5۔ پنجاب کے کسانوں کی ہڑتال کے دوران انہوں نے نریندر مودی سے ملاقات کی اور اس کے شروع ہی میں دونوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔

انٹرویو کے آخر میں کرن تھاپر نے سابق گورنر کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ ان نکشافات کے بعد انہیں مودی سرکار کی انتقامی کاروائیوں کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ میں عمرکے اس حصے میں کسی سے خوف زدہ نہیں ہوں، خود ایک کرائے کے مکان میں رہتا ہوں اور ان بیانات کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔