فاروق سلہریا
تقریباً تین ہفتے قبل حامد میر وزیرستان سے پاکستان کے شہریوں کو یہ خوشخبری دے رہے تھے کہ اربوں کھربوں کا تانبہ زمین تلے دفن ہے جسے نکال کر پاکستان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ یہ پروگرام اور پھر کیپیٹل ٹاک میں اس پر بحث اس سرکاری پراپیگنڈے کا حصہ تھی جو مستقبل سے مایوس عوام کو دلاسا دینے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
پانچ سال پہلے عمران خان کی حکومت بنی تھی تو بحیرۂ ارب سے اربوں کھربوں کی گیس نکل آئی تھی، جس کے بعد اہل پاکستان کی قسمت بدلنے والی تھی۔
دس سال پہلے جب نواز شریف نے تخت سنبھالا تھا تو بلوچستان سے اربوں کھربوں کی معدنیات نکل آئی تھیں، جس کے بعد پاکستان کی قسمت پلٹا کھانے والی تھی۔
کیا وزیرستان سے تانبہ نکلنے سے پاکستان، بالخصوص وزیرستان میں، ترقی اور خوشحالی کے راستے کھل جائیں گے؟
دو ٹوک جواب: نہیں۔
ایسی صورت حال میں علمی تجزئیے کا معروف طریقہ کار ہے موازنہ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بلوچستان ریاست پاکستان کا وہ حصہ ہے جو معدنیات کے لحاظ سے سے، سب سے زیادہ، مالا مال ہے مگر عین یہی خطہ ہے جو ترقی اور خوشحالی میں دیگر تمام علاقوں سے پیچھے ہے۔
عالمی سطح پر دیکھتے ہیں۔ افریقہ تمام بر اعظموں کی نسبت غریب ہے حالانکہ یہاں سے سونا، ہیرے، تیل…مہنگی ترین معدنیات…نکلتے ہیں۔
نائیجیریا کی مثال لیجئے۔ یہ ملک تیل برآمد کرنے والے دس بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ سالانہ برآمد 50 ارب ڈالر کے قریب پہنچی ہوئی ہے مگر یہ افریقہ کا 9 واں غریب ترین ملک ہے (یاد رہے، نائیجیرین تیل پر شیل کی اجارہ داری ہے)۔
انگولا، کانگو، جنوبی افریقہ، بوٹسوانا اور نمیبیا میں ڈیڑھ سو سال سے ہیرے کی کانوں سے ہیرے نکالے جا رہے ہیں۔ سوائے جنوبی افریقہ کے، باقی سب ملکوں میں لوگ زندگی کی انتہائی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ جنوبی افریقہ میں بھی دولت سفید فام لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ نسل پرستی کے خاتمے کے بعد، دو چار سیاہ فام سیاستدان بھی ارب پتی بنے ہیں مگر اکثریت کی حالت میں زیادہ بہتری نہیں آئی (اور اس بہتری کی وجہ ہیرے کی کانیں نہیں، سیاسی جدوجہد ہے)۔
لیکن کیا خلیجی ممالک میں تیل کی دولت سے عرب شہریوں کو فائدہ نہیں ہوا؟
۱۔ بالکل ہوا مگر ان لوگوں کو جنہیں مختلف خلیجی ریاستوں میں محدود شہری حقوق حاصل ہیں۔ یہ وہی عرب النسل لوگ ہیں جو ان ریاستوں میں پیدا ہوئے۔ ان ملکوں کی معیشیت کا پہیہ چلانے والی ’غیر ملکی لیبر‘ تیل کی دولت کے نتیجے میں صرف استحصال اور غربت کا شکار ہوئی ہے۔ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن پر مبنی محنت کش طبقہ جدید غلامی کی بد ترین شکل ہے (امید ہے حامد میر اس ماڈرن سلیوری پر بھی کسی دن رپورٹنگ کریں گے)۔ دریں اثنا، عرب شہریوں کی مراعات میں بھی مسلسل کمی آئی ہے۔ مزید یہ کہ ان عرب شہریوں کو روٹی روزگار تو مل جاتا ہے لیکن جمہوری حقوق نام کی کوئی چیز نہیں۔ اسی طرح، سعودی عرب میں بالخصوص، شیعہ آبادی سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن سعودی علاقوں سے تیل نکلتا ہے وہاں شیعہ قبائل آباد ہیں اور شدید غربت کا شکار ہیں۔
۲۔ بعض خلیجی ممالک جہاں تیل کی دولت کسی حد تک مقامی آبادی میں تقسیم ہوئی، اس کی بنیادی وجہ عرب دنیا کے سیاسی حالات تھے۔ جب پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں عرب سوشلزم کی تحریک نے زور پکڑا تو سامراج کی ہدایت پر، بادشاہتیں بچانے کے لئے، شہریوں کو معاشی سہولتیں دی گئیں۔
اختتامیہ
کسی ملک میں عام شہریوں یا محنت کش طبقے کو کتنی معاشی سہولتیں موجود ہیں اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہاں کتنی جمہوری آزادیاں موجود ہیں اور سیاسی حالات کیسے ہیں۔ جمہوری آزادیاں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ سونے چاندی کی کانوں سے فرق نہیں پڑتا۔ عام طور پر، ان کانوں کا فائدہ صرف حکمران طبقے کو ہوتا ہے جو ملکی دولت رشوت کے بدلے میں، سستے داموں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ان کے بچوں کو کنسٹلنٹ کے طور پر یہ کمپنیاں نوکری دیتی ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کو اس کاروبار میں، معدنی دولت ملک سے باہر پہنچانے کے لئے، ٹرانسپورٹ کے ٹھیکے مل جاتے ہیں۔ محنت کشوں کے حصے میں صرف بھوک آتی ہے۔
پاکستان میں محنت کشوں کے حالات بہتر بنانے کے لئے تانبے کی کانوں کی بجائے ضروری ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی بند کی جائے، فوج سمیت نوکر شاہی کے بجٹ کم کئے جائیں اور اشرافیہ کو جو 17 ارب ڈالر کی سالانہ ٹیکس چھوٹ ملتی ہے، اسے ختم کیا جائے۔
یوں جو کھربوں روپے عوام سے لوٹے جاتے ہیں، انہیں عوام کو نوکری دینے، مفت تعلیم، مفت علاج، سر پر چھت کی فراہمی، یونیورسل پنشن اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی صنعتی ترقی پر خرچ کیا جائے۔ یہ اقدامات پی ڈی ایم لے گی نہ تحریک انصاف یا جماعت اسلامی۔
یہ اقدامات کوئی ایسی حکومت ہی لے سکتی ہے جو سوشلسٹ پروگرام رکھتی ہو۔ یہ ہے اصل ڈویلپمنٹ چیلنج۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔