فاروق سلہریا
چند دن پہلے تک عظیم تجزیہ نگار بتا رہے تھے: مولوی کو ووٹ نہیں ملا۔ اچھرہ کی ویڈیوز دھیان سے دیکھیں۔ مولوی کو ووٹ کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ بغیر ووٹ کے تخت نشین ہے۔ وہ حکومت میں نہیں، طاقت میں ہے۔ فوج کی طرح۔ الیکشن والی حکومتیں بنتی ٹوٹتی رہتی ہیں۔ فوجی اور مولوی کی حکومت مسلسل چلتی ہے۔ جو ریاست پی ٹی ایم اور بلوچ مزاحمت کاروں پر سیدھی گولیاں چلا دیتی ہے، اس کی نمائندہ ایس پی ہاتھ جوڑے مولویوں کے سامنے کھڑی تھی۔ بجائے مولویوں کو ایک عورت کی زندگی خطرے میں ڈالنے، نقص امن اور ہراسگی جیسے الزامت میں قید کرنے کے، عورت سے معافی منگوائی جا رہی ہے۔ یہ ہوتی ہے طاقت جو ووٹ سے نہیں ملتی۔ اس لئے جو لوگ مولوی کی طاقت کا پیمانہ ووٹ کو بناتے ہیں، سرا سر غلط ہیں۔
ووٹ مولوی کی مقبولیت کا بھی پیمانہ نہیں۔ ووٹ پی ٹی آئی کو ملے یا مسلم لیگ کو، یہ ملتا بہرحال مولوی اور فوجی کو ہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ دونوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ مولوی کے پاؤں پڑے رہتے ہیں، اس کی ہر بات مانتے ہیں مگر مولوی ان دونوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھتا ہے۔ قصہ مختصر، مولوی فوجی کی طرح سب سے طاقتور سیاسی جماعت بھی ہے اور سب سے مقبول بھی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔