مانچسٹر (پرویز فتح) 3 مارچ کو فیض احمد فیض نے برصغیر میں انقلابی شعور کو جنم دیا اور تحریک آزادی میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ فیض نے قوموں کی آزادی، مساوات اور امنِ عالم کا جو پیغام دیا، عالمی سطح پر آج اس کی اشد ضرورت ہے۔ فیض شاعری کے ایک نئے دبستان کے بانی ہیں، جس نے جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا۔ فیض کی نظمیں اور تحریریں آج بھی آمریت، معاشی استحصال، سماجی جبر اور سامراجی بربریت کے خلاف ایک غیر متزلزل مزاحمت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سامراجی ممالک اپنے استحصال کو دوام بخشنے کے لیے کمزور ممالک پر جنگیں مسلط کرتے ہیں۔ فیض کے فلسطین میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور فلسطینی عوام پانی کی ایک بوتل کے لیے گولیوں کی بُچھاڑ سے گزر کر جاتے ہیں۔ مانچسٹر میں فیض ڈے کی رنگا رنگ تقریب صوفی کلام کے گائیک محمد گلزار کی دھن میں پم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے پر اختتام پزیر ہوئی۔ تقریب کا انعقاد فیض ڈے مانچسٹر آرگنائزنگ کمیٹی نےکیا تھا، اور 33 رکنی وسیع تر آرگنائزنگ کمیٹی کمیٹی میں پریس کلب آف پاکستان اور برطانیہ بھر سے ترقی پسند شامل تھے۔ تقریب سے اظہارِ خیال کرنے والوں میں لیورپول یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر اعزاز ملک، ظفر تنویر، طلعت گِل، وقاص بٹ، ذاکر حسین، حرسیب بینس، نذھت عباس، پرویز فتح، صابرہ ناہید، میاں محمد اعظم، محبوب الہی بٹ اور پریس کلب کے صدر چوہدری پرویز مسیح شامل تھے۔ انقلابی کلام پیش کرنے والوں میں نامور ترقی پسند شاعر صابر رضا، ریاض کھوکھر میاں، ماہ جبیں غزل انصاری اور طاہر حفیظ شامل تھے۔ نظامت کے فرائض نامور ترقی پسند دانشور اور سابق کونسلر نصرالہ خان مغل اور ترقی پسند شاعرہ، ادیب نذھت عباس نے سر انجام دیئے۔ تقریب کے آخری حصے میں جگتار سنگھ شہری، محبوب الہی بٹ اور صافیانہ کلام کے نامور گائیک محمد گلزار نے کلام فیض گا کر سامعین کو نیا ولولہ دیا۔ ان کے ساتھ طبلے پر قیصر مسیح نے خوبصورت دھنوں کے رنگ بھر دیئے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نامور ترقی پسند دانشور اور لیور پوُل یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عزاز ملک نے فیض احمد فیض کی کلام کا تاریخی حقائق کی روشنی میں تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح فیض کا کلام آفاقی حیثیت کا حامل ہے، دُنیا بھر کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کی نمائیندگی کرتا ہے اور امن عالم کے لیے دُنیا بھر میں نیا ولولہ پیدا کرتا ہے۔ اُنہوں نے دُنیا بھر میں جاری قومی آزادی اور امن عالم کی تحریکوں کے ساتھ فیض کے علمی ادبی اور سیاسی افکار کو جوڑتے ہوئے جامع تجزیہ پیش کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب فیض نے اپنی اہلیہ ایلس فیض کو لینن پیس ایوارڈ کی خبر سنائی تو انہوں نے کہا کہ اس کی اہمیت نوبیل ایوارڈ سے سے زیادہ ہے، کیونکہ اس زمانے میں لینن ایوارڈ ہی آزادی، مساوات اور عالمی امن کے حقیقی علم برداروں کو ملتا تھا۔ نوبیل پرائیز سامراجی استحصال کے ساتھ بندھے ہوئے لوگوں کو ہی ملتا ہے۔ نامور ترقی پسند ادیب، صحافی اور ساوتھ ایشین پیپلز فورم کے راہنما ظفر تنویر نے فیض احمد فیض اور صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے بنایا کہ فیض احمد فیض ایک عظیم شاعر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے صحافی بھی تھے، جنہوں نے سب سے پہلے 1938ء میں ادب لطیف کے پہلے مدیر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں میاں افتخار الدین نے پرگریسو پیپرز کی بنیاد رکھی اور پاکستان ٹائمز کا اجراء کیا تو اس کے پہلے ایڈیٹر بھی فیض احمد فیض ہی تھے۔ فیض صاحب اس فریضے کے لیے اس وقت راضی ہوئے جب میاں افتخار الدین نے کہا کہ قائدِ اعظم نے تجویز کیا ہے کہ فیض احمد فیض ہی اس کے بہترین ایڈیٹر ہو سکتے ہیں۔ نامور ترقی پسند دنشور، کالمسٹ اور پریزینٹر طلعت گِل نے فیض اور خواتین کی برابری کے مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے تفصیل سے روشنی ڈالی کہ عورتوں کو ادب کے میدان میں لانے میں فیض صاحب کا بہت ہاتھ ہے۔ عورتوں کی سماج میں برابری، سماج میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے اور ملکی ترقی میں مثاویانہ بنادوں پر حصہ ڈالنے میں اُن کی شاعری، نظریات اور مشترکہ جدوجہد کی راہیں نکالنے کی کوششوں کا بہت عمل دخل ہے۔
فیض اور فلسطین کی تحریکِ آزادی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ترقی پسند ادیب، دانشور اور راہنما وقاص بٹ نے فیض صاحب کے یاسر عرفات سے تعلق، بیروت میں قومی آزادی کی تحریکوں کے عالمی علمبردار "لوٹس” کے ایڈیٹر کے طور پر برسوں خدمات سر انجام دینے اور فلسطین کے تحریک آزادی میں عملی شرکت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اُنہوں نے کہا کی فیض کا فلسطین آج پھر آگ اور خون کا میدان بنا ہوا ہے۔ وہاں 30 ھزار سے زائد افراد کو شہید کیا جا چکا ہے جن میں 21 ھزار کے قریب عورتیں اور بچے ہیں۔اُنہوں نے طارق محمود کی لوٹس کے شمارے اکٹھے کر کے فیض کی تحریروں پر ایسرچ کو سراہا، جو ان دنوں فلسطین کی یک یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ فیض اور ورکنگ کلاس موومنٹ پر نامور ترقی پسند دانشور اور عوامی ورکرز پارٹی کے راہنما ذاکر حسین ایڈووکیٹ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف فیض کی شاعری کا فوکس وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے عوام کو حقیقی آزادی، مساوات، انصاف اور استحصال سے پاک معاشرے کا قیام تھا تو دوسری طرف وہ خود براہِ راست ٹریڈ یونیں تحریک کا حصہ تھے۔ اُنہوں نے مرزا محمد ابراہیم اور دیگر مزدور راہنماؤں کے ساتھ مل کر پاکستان پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریش کی بناد رکھی اور اس کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ ریلوے ورکوز یونین کے راہنما رہے اور پوسٹل ورکرز یونین کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے۔ اُنہوں نے کسان رہنما چوہردی فتح محمد کے ساتھ مل کر کسان تحریک میں بھی بھرپُور کردار ادا کیا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تاریخی کسان کانفرنس کے انعقاد میں اپنا بھر پُور کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ فیض کے ہمہ جہت کام کو اجاگر کرنے اور ایک وسیع تر ترقی پسند تحریک پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
نامور ترقی پسند شاعرہ، ادیب اور عوامی ورکرز پارٹی کی فیڈرل کمیٹی کی رکن محترمہ نذھت عباس نے فیض احمد فیض کی ترقی پسند تحریک میں نوجوانوں کی سمولیت اور حوصلہ افزائی کرنے، بلخصوص احمد سلیم اور فیض کے تعلق پر کیس سٹڈی پیش کیا اور بتایا کہ فیض صاحب کس طرح ایک عام سے نوجوان کو ترقی پسند تحریک میں کھینچ لائے اور اس کی کس طرح محبت اور شفقت سے تربیت اور راہنمائی کی کہ وہ ایک لاجواب ادیب اور انقلابی راہنما بن گئے۔ اُنہوں نے احمد سلیم کی شاعری اور ادبی میدان میں خدمات کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی اور نوجوانوں کو ترقی پسند سیاست کی جانب مائل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ ترقی پسند تحریک کو ایک نیا ولولہ دیا جا سکے۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ برطانیہ کے راہنما اور انڈین ورکرز ایسوسی ایشن برطانیہ کے نائب صدر حرسیب بینس نے فیض، سامراجی جبر اور قومی آزادی کی تحریکوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فیض کی عالمی امن، تخفیفِ اسلحہ، کلونیل تسلط کے خلاف ان کی کلام کی آفاقی حیثیت کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ فیض احمد فیض ایک کیمونسٹ تھے اور انہوں نے متحدہ ہندوستان میں جس کیمونسٹ پارٹی کے قیام کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور اس کے اہم رکن رہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں بھی اُس پارٹی کا حصہ ہوں۔ اُنہوں نے لینن پیس ایورڈ کے موقع پر فیض صاحب کی تقریر کا متن پیش کیا جِس میں فیض صاحب نے عالمی امن اور سامراجی تسلط سے آزادی کا واشگاف الفاظ میں پرچار کیا تھا۔
تقریب کا آغاز اور تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے مارکسی کارکن اور ساوتھ ایشین پیپلز فورم کے راہنما پرویز فتح نے فیض ڈے منانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ قیامِ پاکستان سے ہی ملک میں موجود استحصالی نظام کو دوام بخشے کے لیے ایک مخصوص قسم کا بیانیہ بنایا گیا اور اس کی تکمیل کے لیے ذھن سازی کی گئی۔ اسی کے تحت سوشلزم کو لادینیت کے معنی پہنائے گئے، جو کہ ایک معاشی نظام ہے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے استحصال کا خاتمہ چاہتا ہے۔ حالانکہ، مذھب کے بارے میں سوشلزم اور جمہوریت دونوں سیکولرزم پر بنیاد رکھتے ہیں، جس کا مطلب مذھب اپنا اپنا، ریاست سب کی سانجھی ھے۔ اُنہوں نے کہا ریاست تو اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے، اور ماں ایک شہری کی سگی اور دوسرے کی سوتیلی نہیں سکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ بات قابل فخر ہے کہ فیض احمد فیض ہمارے ہم وطن تھے۔ پریس کلب کی ایونٹس کمیٹی کے سربراہ میاں محمد اعظم نے کہا کہ فیض چاہتے تھے کہ پاکستان ایک ایسا جدید، جمہوری اور ترقی یافتہ ملک بنے جہاں بسنے والے غریب مزدور، کسانوں، مذھبی اقلیتوں، عورتوں اور مظلوم، محکوم، پسے ہوئے طبقات کو تعلیم، صحت، روزگار، چھت اور بہتر مستقبل میسر ہو۔ وہ مختلف قوموں، ملکوں اور کمیونٹیز کے درمیان اعتماد، محبت اور ہم آہنگی کے لیے ایک مضبوط ذریعہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ فیض احمد فیض نے اپنے اشعار، اپنی خونصورت شخصیت اور اپنے کردار کے حوالے سے لاکھوں لوگوں کے لیے محبوب اور ہردلعزیز شخصیت اور مقام پایا ہے۔ پریس کلب آف پاکستان کے صدر چوہدری پرویز مسیح نے تقریب کے آغاز میں تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا اور فیض کی شاعری اور سیاسی جدوجہد کو مذھب، رنگ، نسل اور علاقائی تعصبات سے پاک قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کی فیض احمد فیض کی طرح ان کے دیگر ساتھیوں نے بھی سماجی برابری اور استحصال سے باک معاشرے کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں اور ہم آج حسن ناصر شہید کو بھی آج یاد کرتے ہیں اور مرزا محمد ابراہیم، سی آر اسلم، عابد حسن منٹو، چوہدری فتح محمد اور دیگر انقلابی راہنماؤں کی عمر بھر کی جدوجہد کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔
فیض ڈے مانچسٹر آرگنائزنگ کمیٹی کے کنوینر اور نامور ادیب و صحافی محبوب الہی بٹ نے تقریب کے آخر میں شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فیض احمد فیض آزادی، حریت، عدل و انصاف اور مساوی بنیادوں پر ترقی، خوشحالی اور کامیاب مستقبل کی جدوجہد کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیض صاحب سے محبت کرنے والے پوری دُنیا میں موجود ہیں اور ان سے بے پناہ محبت، احترام اور عقیدت رکھتے ہیں۔ تقریب کے آخری حصے میں کلامِ فیض کی میوزک کی دہن میں ترقی پسند صحافی، پریزینٹر اور گلوکار جگتار سنگھ شہری نے فیض صاحب کا کلام تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی، تیرے جانثار چلے گئے ترنم کے ساتھ گائی۔ اُن کے ساتھ طبلے پر قیصر مسیح موجود تھے۔ ترقی پسند ادیب و گلوکار محبوب الہی بٹ نے گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ترنم کے ساتھ گائی اور صوفیانہ کلام کے گائیک محمد گلزار نے شہرہ آفاق نظم ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، وہ دن کہ جِس کا وعدہ ہے، جو لوح قلم سے لکھا ہے، ہم دیکھیں گے گا کر فیض احمد فیض کو ذبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔