آرش مینوی
انسان کی تاریخ نیچر کے ساتھ مقابلے کی تاریخ ہے۔ زندہ رہنے کی خاطر ہمیشہ سے انسان فطرت سے جنگ آزما رہا ہے۔ شعوری ارتقاء کے نتیجے میں نیچر سے مقابلے میں انسان کا پلڑا نسبتا بھاری ہوگیا۔ اور انسانی شعور نے نیچر یعنی خارجی کائنات کو مسخر کرکے تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھیں۔ نیچر کے ساتھ اسی مقابلے کے دوران ہی سائنس کا ظہور ہوا۔ اشیاء خارجیہ کو اپنے استعمال میں لانے کے لئے ان کی شناخت بھی ضروری تھی۔ انسان جب فطرت میں موجود اشیاء کی خاصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے سائنس جنم لیتی ہے۔ اور جب ان اشیاء کی خاصیتوں کو سمجھ کر ان سے مختلف آلات بناتا ہے۔ اور سائنس کو استعمال میں لاتا ہے تو اس سے ٹیکنالوجی ظہور میں آتی ہے۔ چقماق پتھر کی خاصیت کو سمجھنے سے آگ جلانے کی سائنس نے جنم لیا۔ دیا سلائی کی ایجاد سے پہلے تک چقماق پتھر ہی آگ کی ٹیکنالوجی تھی۔
انسان نے کب آگ کو قابوکرنا سیکھا ۔ اس بارے میں ہم فی الحال صرف تخمینے ہی لگاسکتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ نولاکھ سال پہلے کی انسان نما مخلوق نے ہی آگ کو مسخر کرلیا تھا۔ کوئی پانچ لاکھ سال پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن اتنا مسلم ہے کہ آگ کو مسخر کرنے کی سائنس نے انسانی تہذیب کے ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ آگ صرف فائدہ مند ہی نہیں نقصان دہ بھی ہے۔ آگ کو انسان نے تخریبی مقاصد اور جنگی اہداف کے لئیے بھی استعمال کیا۔ یہاں سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ سائنس سے جنم لینے والی ٹیکنالوجی کو انسان دونوں طرح سے استعمال کرسکتا ہے۔ تمدن سازی کے لئے بھی اور تمدن کی بربادی کے لئے بھی۔
جنگوں میں دشمنوں کے کیمپوں اور رسد کے ذخیروں کو آگ لگانا بھی معمول رہا ہے۔ اسی طرح انسان نے پتھر کی خاصیت کو سمجھ کر پتھروں سے اوزار بنائے۔ لوہے کی دریافت سے انسان کو اس دھات کی مضبوطی کا علم ہوا تو انسان نے لوہے سے اوزار بنا کر اپنی تہذیب کے ارتقاء کو سرعت وتیزی عطا کی۔ لوہے سے انسان نے زراعت کے لئے اوزار بنائے اور لوہے کو جنگی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا۔ اس ٹیکنالوجی نے بھی دونوں کردار ادا کئے۔ پہیئے کی ایجاد بھی ایک اہم ٹیکنالوجی تھی۔ جس نے آمدو رفت اور اشیاء کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کو آسان بنایا۔ تجارت کے فروغ و ترقی میں پہیئےکا بڑا کردار ہے۔اور تجارت نے مختلف تہذیبوں کو آپس میں جوڑنے کا کردار نبھایا۔ یہ تو سائنس و ٹیکنالوجی کی ابتدائی مثالیں ہیں۔
خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ کیونکہ سائنس کی تاریخ ہمارا موضوع نہیں۔ بلکہ سماج پر اس کے اثرات ہمارا موضوع ہیں۔ سائنس کا سفر پہیئے کی دریافت یا لوہے کے اوزاروں کی ایجاد پر ختم نہیں ہوا۔ بلکہ یہ آج بھی جاری ہے۔ سائنس آج بھی وہی ہے۔۔البتہ یہ پہلے سے زیادہ منظم ہو چکی ہے۔ اس کی تحقیق کا دائرہ زیادہ پھیل چکا ہے۔ اور مزید آلات کی ایجاد نے اس کا سفر سہل کردیا ہے۔ اس لحاظ سے قدیم سائنس اور ماڈرن سائنس میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ اس ارتقائی سفر میں بھاپ کے انجن کی ایجاد ایک انقلابی ایجاد تھی۔جس کے بعد انسانی تہذیب نے تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ اور پھر
الیکٹریسٹی کی دریافت نے بجلی کی مدد سے چلنے والے آلات بنانے میں مدد فراہم کی۔ ریڈیو کی ایجاد سے لے کر کمپیوٹر اور سمارٹ فون کی ایجاد تک ہزاروں ایجادات ہیں۔جو سائنس کی بدولت ممکن ہوئیں۔ اور جنہوں نے نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی بلکہ سماجی زندگی کو بھی بدل ڈالا۔ یہ سب ایجادات جن کو ہم ٹیکنالوجی بھی کہہ سکتے ہیں، سائنس کی بدولت ممکن ہوئیں۔ سائنس فطرت کے منظم مطالعہ کا نام ہے۔ سائنس میں ابتدائی مشاہدے کے بعد ہائپو تھیسز پیش کئیے جاتے ہیں۔ان ہائپو تھیسز کی مختلف تجربات کے ذریعے آزمائش کی جاتی ہے اور ہائپو تھیسز کی صداقت پہ مطمئن ہونے کے بعد تھیوریز بنتی ہیں۔
اس منظم مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج کے اطلاق(Applicability)سے ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا رشتہ بہت قریبی ہے۔ ہر ایجاد کے پس منظر میں کئی سائنسی دریافتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ نیوٹن کے دریافت کردہ قوانین حرکت ہوائی جہاز بنانے اور اڑانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ اپالو مشن سے لے کر ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ تک ہزاروں ایسی ایجادات ہیں۔جن کی بنیاد میں وہی سائنس کارفرما ہے۔ کوانٹم سائنس کی دریافتوں سے فائدہ اٹھا کر سمارٹ فون کی ایجاد ممکن ہوئی۔ فون کے اندر جی پی ایس سسٹم آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کیی روشنی میں کام کرتا ہے۔ اسی طرح انسانی جینوم کی ساخت کا مطالعہ اور ایٹم کی اندرونی ساخت کے سائنسی مطالعے نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں انقلابی جستیں طے کی ہیں۔ بہت سی بیماریوں کا علاج جینیٹک سائنس کی بدولت ممکن ہوا۔
میڈیکل سائنس کی مدد سے بہت سے ملکوں سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ طاعون کا خاتمہ بھی سائنس کی مدد سے ممکن ہوسکا۔ ملیریا ایک جان لیوا بیماری تھی۔ جس کا علاج فلیمنگ کی دریافت سے ممکن ہوا۔ زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج بھی ممکن ہوچکا ہے۔ ایکس -ریز کی دریافت نے بیماریوں کی تشخیص دینے والے آلات بنانے میں بھی مدد کی اور اب تو کینسر جیسی بیماری کے بعض مراحل کا علاج بھی ریڈیو تھراپی سے کیا جاتا ہے جس میں ایکس- ریز استعمال ہوتی ہیں۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو تبدیل کرنے میں کس قدر موثر ثابت ہورہی ہیں۔
یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ سائنسی ایجادات اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کا استعمال انہیں اچھا یا برا بناتا ہے۔ اٹامک سائنس کو ہی لے لیجیے، ایٹم کے داخلی اجزاء کے مطالعے نے انسانوں کے سامنے نئیے راستے کھولے۔ ایٹمی سائنس کی مدد سے ایٹمی انرجی کو انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور ایٹم بم بنا کر انسان نے اپنے لئیے تباہی کا دھانہ بھی کھول رکھا ہے۔ ایٹمی سائنس اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں بلکہ یہ انسان ہے جو اس کو اچھے یا برے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
لیکن اگر انسان اپنی نوع کی بقاء کے لئے فکر مند ہو تو سائنس کے اندر یہ پوٹینشل بھی موجود ہے کہ یہ انسانی غلطیوں کی اصلاح بھی کرسکتی ہے۔ انسانی ایجادات نے زمین کے ٹمپریچر میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے زندگی کی بقاء کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔اب انسان اس طرف متوجہ ہوچکا ہے۔ اور ماحول کی گرمی میں اضافہ کرنے والے یا الودہ کرنے والے عوامل پر قابو پانا چاہتا ہے۔ لیکن ہوس زر انسان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ سائنس کی مدد سے ہی ماحول دوست (Environment friendly) ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ماحول دوست گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں سولر سائنس اور دیگر شعبوں کی سائنس کا بڑا دخل ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے ماحول دشمن دھوئیں کو فلٹر کرنے والے آلات بھی سائنس نے ایجاد کرلئے ہیں۔ لیکن ان آلات کا اضافی خرچہ منافع کی ہوس میں مبتلا مالکان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ تو یہ انسان کا قصور ہے۔
ضرورت سے زائد فیکٹریز لگانے کی روش بھی ہوس زر سے جنم لیتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کا لالچ انسان کو ھل من مزید کی طرف لے جاتا ہے۔ ہوس زر کا سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ یہ اپنی اور بنی نوع انسان کی تباہی کے راستے کھولتی ہے۔ یہاں پہنچ کر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کہ اگر انسان اخلاقی اقدار کا پابند ہوکر ٹیکنالوجی کو استعمال میں لائے تو یہ انسان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اور اس کے نقصان دہ پہلو کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اخلاقیات کون طے کرے گا؟ اخلاقیات کے معیار تو ہر دور میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور اخلاقیات انسان نے ہی اپنے اوپر لاگو کرنی ہوتی ہیں اور جب انسان ہوس زر میں مبتلا ہو جائے تو پھر وہ اخلاقی اقدار کو پامال کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتا ہے۔
جس سماج میں دولت اکٹھی کرنے کی ایک دوڑ لگی ہو وہاں اخلاقیات پہ عمل کرنے والے بھی بہت تھوڑے رہ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہوس زر کی دوڑ کی بنیادی وجہ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی ملکیت کی جگہ اجتماعی ملکیت کا تصور قائم کیا جائے۔ سائنس و ٹیکنالوجی بھی تو انسان کی اجتماعی ملکیت اور انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ اس پر سب کا حق ہے۔ اگر اس کو ہوس زر کے لئے استعمال کیا جائے گا تو تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اور اگر انسانیت کے مفاد میں بروئے کار لایا جائے تو سماج کی پیشرفت وترقی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
سائنسی تھیوریز کی تشکیل میں ہزاروں سائنسدانوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ سائنسی آلات بنانے میں بھی ہزاروں محنت کش مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ کسی اکیلے فرد کا کارنامہ نہیں ہوتے۔ لیکن جب یہ آلات بن جاتے ہیں تو مالکان کی نجی ملکیت میں چلے جاتے ہیں۔ جو منافع کی خاطر ان آلات کو سماج کی تباہی کے لئے بھی کام میں لے آتے ہیں۔ اگر ان آلات بنانے والے اداروں پر، ان میں کام کرنے والے والے محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہو تو اس سے منافع کی دوڑ ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیونکہ جہاں بہت سے انسان مل کر فیصلے کرتے ہیں وہاں اس بات کا امکان کم ہو جاتا ہے کہ وہ انسانیت کی تباہی چاہیں گے۔