حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کے چند مطالبات کی منظوری کے بعد ریاستی سطح پر ایک منظم نفرت انگیز مہم دیکھنے میں آئی ہے۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ’ہندوستانی ایکشن کمیٹی‘ کے نام سے ٹرینڈ چلایا گیااور ’فیس بک‘ پر بھی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ اس مہم کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ کشمیریوں نے پاکستان کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے،پاکستانی فورسز پر حملے کئے جا رہے ہیں اور بجلی سستی ہونے کا تمام بوجھ پاکستانی عوام پر ڈالا جائے گا۔ مطالبات منظور کرنے پر وزیراعظم شہبازشریف کے خلاف بھی سخت بیانات اور ویڈیو پیغامات دیکھنے میں آئے۔
ویڈیو پیغامات میں جموں کشمیر کے شہریوں کو پاکستا ن کی حدود میں داخل ہونے کیلئے کچھ شرائط بھی عائد کی گئیں۔ ان شرائط میں ہر مسافر کے ہاتھ میں پاکستانی پرچم اور تحریری معافی نامہ سمیت ہر گاڑی پر پاکستانی پرچم لگانا شامل تھا۔ ان اشتعال انگیز بیانات کے بعد گزشتہ روز باغ جموں کشمیر کی مسافر گاڑیوں کو چند نوجوانوں کی جانب سے روکے جانے کے واقعات سامنے آئے۔ ان نوجوانوں نے سٹینسر بنوا رکھے تھے، جن پر’پاک فوج زندہ باد‘ اور پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے درج تھے۔ سامنے آنے والی ویڈیوز کے مطابق درجن بھر نوجوان مسافر گاڑیوں کو روکتے ہیں۔ پاکستان اور پاک فوج کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے یہ نوجوان سٹینسر کی مدد سے گاڑیوں پر سپرے پینٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ واقعات کوٹلی ستیاں کے علاقے میں پیش آئے۔
گزشتہ چند روز کے دوران طاقتور حلقوں کے قریبی سمجھے جانے والے کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے کالم لکھے، وی لاگ اور تجزیئے کرتے ہوئے لانگ مارچ کو گزشتہ سال تحریک انصاف کے احتجاج سے مماثل قرار دیا۔ ان زعماء نے اس تحریک کو بھارت اور دیگر غیر ملکی طاقتوں کی پاکستان کے خلاف گہری سازش قرار دیا۔ پاکستانی پرچم جلائے جانے کے جھوٹے الزامات بھی تحریک میں شامل افراد پر عائد کئے جاتے رہے۔ ان الزامات کی تصدیق کیلئے جعلی ویڈیوز اور فوٹوز کا سہارا بھی لیا گیا۔ پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت مختلف ذمہ داروں نے بھی تحریک کو ایک غیر ملکی سازش اور بھارتی ایجنڈا قرار دیا۔ تاہم انہوں نے اس عمل کو کچھ شرپسند عناصر تک محدود بھی رکھنے کی کوشش کی۔
اسی طرح جموں کشمیر کے کچھ سیاسی رہنماؤں نے بھی جعلی ویڈیوز اور تصاویر کو جواز بنا کر تحریک میں غیر ملکی ایجنٹوں کی شمولیت کا الزام عائد کیا اور لانگ مارچ کو بھارتی سازش سے تعبیر کیا۔اسی بیانیہ کو مضبوط کرنے کیلئے حکومت میں شامل پیپلزپارٹی نے 23مئی کو ’یوم استحکام پاکستان‘ کے عنوان سے پروگرامات منعقد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ملٹری ڈیموکریسی کی داعی آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے بھی 25مئی کو ’پاک فوج زندہ بادریلی‘ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
یہ نفرت انگیز بیانیہ نیا نہیں ہے اور نہ ہی پہلی بار ایسا ہو رہا ہے۔ جموں کشمیر میں لانگ مارچ کے قریب آتے ہی حکومت اور انتظامی افسران نے اسی طرح کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا تھا۔ سرکاری سوشل میڈیا ٹرولز مسلسل نفرت انگیز مہم چلا رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر لانگ مارچ میں بھارتی رنگ ڈالنے کیلئے رات کی تاریکی میں راولاکوٹ میں بھارتی پرچموں پر مشتمل پوسٹر بھی چسپاں کئے گے۔تاہم اس تمام تر مہم کو عوام کی وسیع پرتوں نے نظر انداز کیا اور مارچ میں بھرپور شرکت کی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لانگ مارچ ختم ہونے اور تحریک کے بنیادی مطالبات کی منظوری کے بعد یہ پروپیگنڈہ کیوں کیا جارہا ہے؟ یہ نفرت پھیلانے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں اور اس بیان بازی سے کیا نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ہم ذیل میں ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ پروپیگنڈہ اس تحریک کے اثرات کو پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں تک پہنچنے سے روکنے کی ایک کوشش ہے۔ مصنوعی طور پر سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مہم کا مقصد پاکستانی شہریوں اور جموں کشمیر کے شہریوں کے مابین نفرت پھیلانا ہے۔اس کے ذریعے سے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جو بجلی جموں کشمیر کے لوگوں کیلئے سستی کی گئی ہے، اس کاتمام تر بوجھ پنجاب کے شہریوں پر ڈالا جائے گا۔اس بات کا جبکہ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس پروپیگنڈہ کا دوسرا مقصد تحریک میں متحرک عناصر کوتنہا کرنے کی کوشش ہے۔ اس کیلئے تحریک میں شامل مختلف نظریات کے حامل گروہوں، جماعتوں اورتنظیموں وغیرہ کے مابین دوریاں پیدا کر کے تقسیم کو فروغ دیا جائے گا۔ اس تقسیم سے مسترد ہو چکی روایتی سیاست کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
سب سے بڑھ کر ماضی کی طرزپر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی قیادت پردباؤ ڈال کر مبہم بیانات دلوانے اورحکومتی نمائندگان کے ذریعے سے ان کی ترویج کرتے ہوئے جوابی حملے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ جوابی ریاستی حملہ ہر طرح کے مزاحمتی عناصر کو کچلنے جیسے اقدامات سے بھی بڑھ کر ہو سکتا ہے۔
اگر ماضی کی تاریخ پرنظر دوڑائی جائے،تو 1955ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ گزشتہ 4سال سے لوگ اس خطے کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے اجتماعی جدوجہد کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ درمیانی عرصہ میں ریاستی منظم حکمت عملی کے تحت ’تحریک آزادی‘کے نام پر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی تحریک میں پراکسی مداخلت پر ہی تمام تر توجہ مرکوز رہی ہے۔اس عمل کے دوران اس خطے میں نوآبادیاتی تسلط کو مزید گہرا اور مضبوط کیا جاتا رہا ہے۔تاہم یہ پہلاموقع ہے کہ جس کے ذریعے سے وسائل کی سامراجی لوٹ مار اور نوآبادیاتی ڈھانچے کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لئے نوآبادیاتی طاقتور کسی صورت یہ نہیں چاہیں گے کہ ان حالات کوپیدا کرنے والوں کو نشان عبرت بنائے بغیر خاموش رہیں۔
1950سے 1955کے دوران اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات میں ریگولر اور نیم فوجی دستوں کے ذریعے سے اس خطے کی تحریک کو بہیمانہ انداز میں کچلنے کی ایک تلخ تاریخ پہلے سے موجود ہے۔ سینکڑوں رہنماؤں کو چند بیرکوں میں جانوروں کی طرح باندھا گیا، کئی رہنماؤں کو رسیوں سے باندھ کر جانوروں کی طرح سڑکوں پر گھسیٹا گیا، نوعمر بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا،خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ جہاں جہاں فورسز کے کیمپ لگائے جاتے تھے، وہاں پورے گاؤں کے مردوں کو پوراپورا دن مرغا بنائے رکھنے کے واقعات پیش آئے۔ مالیہ ادا نہ کرنے والے شہریوں سے جبری طور پر مالیہ لینے کیلئے ان کے جانور،برتن اور دیگر سازو سامان چھیننے سے لیکر عورتوں کو اغواء کرنے جیسے واقعات بھی کچھ رہنماؤں نے اپنی تصانیف میں درج کئے ہیں۔ غرضیکہ طاقت کا ایک اندھا راج تھا، جس کے ذریعے اس خطے میں نوآبادیاتی تسلط کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نشان عبرت بنایا گیا۔
یہ تضحیک صرف اس لئے نہیں تھی کہ ان لوگوں نے ووٹ کا حق مانگا،یا پھر مالیہ دینے سے انکار کرتے ہوئے حق حکمرانی مانگنے کی جسارت کی۔ یہ تضحیک اس لئے تھی کہ غلاموں نے آقاؤں کو للکارنے کی جسارت کی تھی۔ اس لئے انہیں نشان عبرت بنایا گیا کہ آئندہ کوئی بھی آقاؤں کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
اس خطے کے لوگوں پر بیتے ان بھیانک واقعات کو تاریخ کے اوراق سے کھرچ کر نکال دیا گیا۔ تاہم ایف سی، پی سی اور بارڈر فورسز(رینجرز) کے مظالم ایک ایسا ٹراما(صدمہ) تھا، جو آج بھی اس خطے کے لوگوں کے جینز میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایف سی،پی سی اور رینجرز کی آمد کی خبر نے لانگ مارچ میں چند ہزار افراد کی شرکت کے امکان کو لاکھوں افراد کی بے خوف شرکت میں بدل کر رکھ دیا۔ نوجوانوں اور محنت کشوں نے یہ طے کر لیا کہ اگر ان فورسز کو جموں کشمیر میں داخل ہونے دیا گیا تو ماضی کی تلخ یادیں دوبارہ تازہ ہو جائیں گی۔یوں پورا معاشرہ خوف سے آزاد ہو گیا۔ بندوقوں کے سامنے ڈنڈوں اور پتھروں کے ذریعے لڑنے اور مرنے کیلئے ہر شخص تیار تھا۔ لانگ مارچ میں عوام کی اس بے خوف شرکت نے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔
اب ایک بار پھر پلٹ وار کی کوششیں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ تاہم جس طرز کا نفرت انگیز ماحول بنایا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے صورتحال سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑنے کی طرف ہی جائے گی۔ قومی تعصب اور نفرت کو پروان چڑھا کر کسی طور پر بھی نہ تو امن زیادہ دیر قائم رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ریاستی کنٹرول کے مقاصد تادیر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں بھی یہی کھیل تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ اس طرز کے اقدامات نئی تحریکوں اور نئی بغاوتوں کا باعث ہو سکتے ہیں۔ جبر کے ذریعے سے نوآبادیاتی تسلط کو تادیر قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی ان نفرتوں کے ذریعے نظام حکمرانی کو زیادہ دیر تک قائم رکھا جا سکتا ہے۔ریاستی منصوبہ بندی کے تحت وقتی طور پر اگر یہ نفرت انگیز واقعات طول پکڑتے ہیں اور ان کی آڑ میں جموں کشمیر کے مزاحمتی کارکنوں کے خلاف کسی نوع کا کوئی کریک ڈاؤن کیا بھی جاتا ہے،تو اس کے خلاف شدید رد عمل آئے گا۔
سامراجی اداروں کی ایماء پر نیو لبرل پالیسیوں کا نفاذ کرتے ہوئے پاکستان بھر میں جس قدر معاشی بربادی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں معاشرے کو مصنوعی منافرتوں اور تقسیم کے ذریعے سے زیادہ تر تک الجھایا نہیں جا سکتا۔ کوئی ایک واقعہ یا حادثہ نئی بغاوتوں اور تحریکوں کے آغاز کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر ایک چھوٹے سے نوآبادیاتی خطے میں ایک تحریک کے نتیجے میں ریاست ہوا میں معلق ہو سکتی ہے، تو پاکستان کے کروڑوں محنت کش جب متحرک ہونگے تو اس نظام کے پرخچے اڑا کر رکھ دیں گے۔