پاکستان

پاکستان: ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘، فیک نیوز اور فیکٹ چیک

حارث قدیر

پاکستانی فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر ) کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو اب ‘ڈیجیٹل دہشت گردی’ کا بھی سامنا ہے۔ اس سے قبل مذہبی دہشت گردی، غیر ملکی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف لڑائیوں اور آپریشنوں سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ آخری اطلاعات تک ‘ففتھ جنریشن وار’ تک پہنچ پایا تھا۔ اب ایک نئی دہشت گردی شروع ہو گئی ہے، جس کیلئے نہ جانے کون سا آپریشن شروع کیا جائے گا۔

پریس کانفرنس میں نئی دہشت گردی متعارف کروانے کے علاوہ روایتی جملے ہی دہرائے گئے۔ دفاعی اداروں کے خلاف مبینہ سازشوں اور پروپیگنڈے کا تذکرہ کیا گیا۔ صرف ایک مقدس ادارے کے علاوہ باقی تمام ہی اداروں کی ناکامیوں اور نااہلی کا تذکرہ بھی ہمیشہ کی طرح کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اگر یہ ادارے ٹھیک طرح سے کام کر رہے ہوتے، وقت پر ملزم پکڑے جاتے، شفاف ٹرائل ہوتے، قوانین ٹھیک بنائے جاتے، سیاسی پریشر نہ ڈالے یا لئے جاتے تو پھر دفاعی اداروں کی یہ درگت نہیں ہونی تھی، جو آج ہو رہی ہے۔

یہ البتہ بتانے سے گریز کیا گیا ہے کہ براہ راست آمریت کا اختتام ہائبرڈ نظام(یعنی جمہوریت میں لپٹی آمریت)میں تبدیلی کی صورت ہوا تھا۔ تب سے اب تک کار سرکار کی تمام تر حکمت عملیاں تو فوجی اشرافیہ نے خود ہی ترتیب دی ہیں۔ سیاسی جال بننے سے عدالتوں کے ہیر پھیر طے کرنے اور میڈیا کو تیر کرنے تک اس بساط کی ہر چال تو آپ ہی چلتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وزارت اطلاعات و نشریات کی ذمہ داریاں بھی آپ نے خود ہی لے رکھی ہیں۔ پھر یہ گلے شکوے کس سے اور کیونکر؟

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے موقع پر چائے پینے بھی آپ خود ہی تشریف لے گئے۔ پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشنوں میں سرحد پار افغانستان دھکیلے گئے دہشت گردوں کو گھر واپسی کی راہ بھی آپ ہی نے دکھائی۔ اب کھلے عام ان کے کیمپ، بھتے، احکامات اور دیگر سرگرمیاں بھی چل رہی ہیں ۔ دہشت کا ماحول پھر سے خیبرپختونخوا کے لوگوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ پشتون سوال پوچنھ رہے ہیں اگر انہیں واپس ہی لانا تھا تو لاکھوں پشتونوں کے گھر بار اجاڑنے، بمباری میں ہزاروں جانیں گنوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اب یہ سوال اٹھانے والے پشتون بھی شرپسند معلوم ہوتے ہیں۔

سب سے بڑا دکھ اس نئی ‘ڈیجیٹل دہشت گردی’ کا ہے۔ درحقیقت یہ بھی وہی ‘مونسٹر’ ہے، جسے آپ نے ماضی کے دیگر تجربات کی طرح اپنی ہی تجربہ گاہ میں تیار کیا تھا، اور ہمیشہ ہی کی طرح یہ مونسٹربھی آپ کے قابو سے باہر ہو گیا۔ اب تو آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ جو کچھ بھی اس عسکری لیبارٹری میں تیار کیا جائے، اس پر ایکسپائری ڈیٹ بھی اسی وقت لکھ دی جائے، تاکہ عوام الناس کو معلوم ہو کہ کب سے اس نئی تخلیق کو دہشت گرد کہنا اور سمجھنا شروع کرنا ہے۔

درحقیقت ڈیجیٹل دہشت گردی کی اصطلاح پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ کیلئے استعمال کی گئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے رائی کو پہاڑ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ تاہم یہی کام پہلے وہ فوجی اشرافیہ کے حق میں بھی کرتے رہے ہیں، لیکن اس وقت وہ بالکل درست تھے۔ فیک نیوز اگر آئی ایس پی آر کے ‘ٹرولز’ پھیلائیں تو وہ درست ہے، لیکن اگر پی ٹی آئی اب پھیلائے تو وہ غلط ہے۔ صرف یہی نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پھیلائی گئی فیک نیوز اصل مسئلہ ہے۔ اس فیک نیوز کو بنیادپر کر درحقیقت ان اصل خبروں کی عوام تک رسائی روکنا مقصود ہے،جن کو روایتی میڈیا سے غائب کروا دیا گیا ہے۔

فیک نیوز اور پروپیگنڈہ ایک مسئلہ ضرور ہے۔ تاہم اس کو دہشت گردی صرف پاکستان میں ہی قرار دیا گیا ہے۔ جعلی خبروں اور پروپیگنڈہ کو روکنے کیلئے فیکٹ چیک کو فروغ دیا جاتا ہے۔ حقائق تک عوام الناس کی رسائی آسان بنائی جاتی ہے، تاکہ لوگ جعلی خبروں اور پروپیگنڈہ کی زد میں نہ آئیں۔ اب اگر لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کررہے ہوں اور آپ اس علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر دیں، میڈیا پر اس احتجاج کو دکھانے پر پابندی عائد کر دیں، تو ایسی صورت میں ایک ہلاکت سینکڑوں ہلاکتوں کی خبر میں تبدیل تو ہو گی۔

اس لئے پابندیا ں کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں، بلکہ مزید مسئلے پیدا کرنے کا موجب بنتی ہیں۔ جتنی آزادیاں ہونگی، جتنا سچ کو عام کیا جائے گا، مسائل اتنے کم ہوتے جائیں گے۔ سچ لیکن آپ کے اقتدار اور جاہ و جلال کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ صرف سچ ہی لوگوں تک پوری طرح پہنچنا شروع ہو گیا تو آپ کا یہ نظام اور اس کی لوٹ مار شاید چند دن کی بھی مہمان نہ رہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔