سید عدیل اعجاز
2024ء میں ادب میں نوبل انعام کی جنوبی کوریائی لکھاری ہان کانگ حق دار قرار پائی ہیں،جو اپنے خوابناک اور باغی ناول ’دی ویجیٹیرین‘کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اس ناول کی بنا پر ان کے قلم کی مہک بین الاقوامی سطح تک پھیل چکی ہے۔ یہ اپنے ملک کی پہلی مصنفہ ہیں جنہوں نے ادب میں نوبل انعام حاصل کیا ہے۔ ہان کے قلم میں عجیب سحر ہے اور یہ شاعرانہ نثری طرز میں انسانی زندگی کی نزاکت اور حساسیت کو بے نقاب کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ ان کے فن پاروں کا بنیادی موضوع درد، کرب اور اندرونی اضطراب ہے جو معاشرتی صدمات کی بنا پر انسانوں کے اندر رچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ روح کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہان ان جذبات کی نہ صرف عکاسی کرتی ہیں بلکہ نہایت جرأت سے ادبی پیرائے میں اسے بیان بھی کرتی ہیں جس بنا پر ادب میں انھیں جدت کار کا درجہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے بارے میں ادبی نقادکہتے ہیں کہ انھوں نے کورین لکھاریوں کی ایک نسل کو زیادہ سچ بولنے اور اپنے موضوعات میں زیادہ جرأت مند ہونے کی ترغیب دی ہے۔
ہان کانگ نے 1970ء میں جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ان کے گھر کے در و دیوار میں کتابوں کے صفحات کی مہک رچی ہوئی تھی جس کی بدولت کتابوں سے شفتگی خوشبو کی طرح ان کے ذہن و قلب میں بس گئی۔ ان کی زندگی کا پہلا لمس کتاب کا ورق اور لفظوں کی کوملتا کا احساس تھا۔ ہان کہتی ہیں کہ بچپن میں کتابیں ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ بعد کو یہی ان کی زندگی کی حقیقت بن گئیں۔ اپنے گھر میں نہ صرف انہوں نے کتابوں کو پایا بلکہ بڑے بڑے کوریائی ادباء کی آنکھیں دیکھیں اور ان کے خیالات سے براہِ راست استفادہ کیا،کیوں کہ ان کے والدِ محترم کوریائی زبان کے معروف قلم کار اور ناول نگار تھے۔ ہان کے ہاں کتابوں کے علاوہ فنونِ لطیفہ اور موسیقی سے گہری رغبت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے بچپن میں ان دونوں فنون میں دست گاہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کی تحاریر اور فن پاروں میں فنونِ لطیفہ کی بنت، موسیقیت اور نثر میں غنائیت ایک دوسرے کے گلے ملتے، قلب کو لبھاتے اور اذہان کو مسخر کرتے نظر آتے ہیں۔ ہان کی یہی ادا، طرزِ انشاء انھیں ان کے معاصرین سے نہ صرف جدا کرتی ہے بلکہ انھیں ایک الگ اور کسی حد تک الوہی درجہ بھی دیتی ہے۔ موسیقی اور فنونِ لطیفہ کا قابل تعریف آمیزہ ان کی تمام ادبی تخلیقات میں چھلکا پڑتا ہے۔
انہوں نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز 1993 میں کیا،جب ان کی کئی نظمیں ’لٹریچر اینڈ سوسائٹی‘نامی رسالے میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے نثری تخلیقی سفر کا آغاز 1995 میں مختصر کہانیوں کے مجموعے ’یوسو کی محبت‘کے شائع ہونے سے کیا، جس کے فوراً بعد ان کی دیگر نثری تخلیقات، ناول اور مختصر کہانیاں منصہ شہود پر آنا شروع ہوئیں۔ ان میں قابل ذکر ناول’تمہارے سرد ہاتھ‘ہے جو 2002 میں منظرِ عام پر آیا۔ اس میں ہان کی فنون میں واضح اور گہری دلچسپی جھلکتی ہے۔ درحقیقت یہ ناول ایک مجمسہ ساز کے گمشدہ مسودے کی کہانی ہے جو خواتین کے جسموں کے پلاسٹر کاسٹ بنانے کا جنون کی حد شوق رکھتا ہے۔ اس ناول میں انسانی جسم کی اناٹومی، شخصیت اور تجربے کے مابین کھیل مجسمہ ساز کے ذہن کو آتشیں خیالات کی جولانگاہ بنا دیتا ہے جو اس کے ذہن میں کشمکش کو مسلسل پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ ذہنی کشمکش اسے بے قرار کیے رکھتی ہے اور اس کے ذہن میں عجب سوالات کاشت کرتی ہے کہ جسم کیا کیا کچھ ظاہر کرتا ہے اور کیا کیا کچھ چھپاتا ہے۔ جیسا کہ اس ناول کے آخر میں ایک کردار بیان کرتا ہے کہ’زندگی ایک چادر ہے جو ایک کھائی کے اوپر جھکی ہوئی ہے، اور ہم اس کے اوپر ماسک پہنے ہوئے بازی گر کی طرح رہتے ہیں۔‘ہان کے کردار اندرونی اور مسلسل بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں۔
ان کا بین الاقوامی سطح پر وسیع پذیرائی حاصل کرنے والا ناول’دی ویجیٹیرین‘ہے جو 2007 میں نمو پایا اور 2015 میں انگریزی کے قالب میں ڈھلا تھا۔ اسی ناول پہ انھیں 2024 میں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار یونگ ہے جو کہ ایک انتہائی گھریلو خاتون ہے۔ناول میں وہ ایک مناسب حد تک توجہ دینے والی بیوی نظر آتی ہے جو نہ تو بہت زیادہ ناخوش ہے اور نہ ہی کسی بڑی خواہش کی متمنی ہے۔ اس کا شوہر، مسٹر چونگ، ایک اوسط درجے کا ملازم ہے جس کی زندگی میں پرجوشی کے خفیف سے رنگ بھی موجود نہیں ہیں۔ وہ اپنی زندگی سے تھوڑا سا بیزاز ضرور ہے لیکن اس بیزاری کا پیمانہ اور شدت بہت زیادہ نہیں ہے۔ تاہم، وقت گزرتا جاتا ہے اور دونوں اپنی عام زندگی کی ڈگر پر خواہی نہ خواہی چلتے رہتے ہیں۔ مگر، ان دونوں کی زندگی ان کے اندازے سے زیادہ نازک اور حساس ثابت ہوتی ہے۔ اس دن سے رشتوں کا تانا بانا بکھرنے اور الجھنے لگتا ہے۔ ان کی زندگی میں حالات اس دن کے بعد یکسر بدل جاتے ہیں، چیزیں ٹوٹ کر بکھرنے لگتی ہیں جب یونگ فریزر سے سارا گوشت نکال کر پھینک دیتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ اب سے وہ سبزی خور بننے جا رہی ہے۔ اس کا یہ اعلان خاندان کو حیرت کی کھائی میں دھکیل دیتا ہے اور ہر ایک پر سکتہ طاری کر دیتا ہے۔ یونگ کا شوہر اس اعلان کے بعد کہتا ہے کہ، ”جب میری بیوی سبزی خور بنی، میں نے اسے ہر لحاظ سے مکمل طور پر بے نشان سمجھا۔“
ناول میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مکمل طور پر گوشت کھانا چھوڑ دیتی ہے بلکہ ایک ایسے درخت میں تبدیل ہونے کی خواہش کرتی ہے جو صرف سورج کی روشنی پر زندہ رہ سکے۔ اس دوران وہ اپنے شوہر کو وضاحت دیتی ہے کہ،’میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔‘ہم جانتے ہیں، حالانکہ اس کا شوہر نہیں جانتا، کہ خواب کی نوعیت کیسی تھی۔ یہ تاریک، خون آلود اور جارحانہ تھا۔ اس اعلان اور خواب کے بعد، یونگ کی گھریلو زندگی میں سکون کی بجائے تشدد سرایت کرنے لگتا ہے جس بناء پر اسے ذہنی، جسمانی، اور قلبی کلفت سے گزرنا پڑتا ہے جو اس کی روح تک کو ڈستا ہے،بالخصوص تب جب اس کا والد اسے میٹھا اور کھٹا سور کا گوشت کھلانے کی کوشش کرتا ہے، اور احتجاج میں وہ خود کو چاقو سے زخمی کر لیتی ہے۔ اس کے بعد سب کچھ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ تشدد کی شدت میں دوسرے لوگ بھی اضافہ کرنے پر آمادہ پیکار ہونے لگتے ہیں اور خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ ناول میں اس کا سبزی خور رہنے کا عہد اس خاندان کے بکھرنے میں واحد مستقل عنصر بن جاتا ہے۔
یونگ کا شوہر اپنی مکمل طور پر سادہ زندگی میں اس پیچیدگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ یہ سب اس ہی کے بارے میں ہے۔ اس کے ذہن میں معاشرتی رکھ رکھاؤ کے حوالے سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ جب انہیں اپنے باس کے ساتھ کھانے پر جانا ہوگا تو کیا ہوگا؟ اور اس کی بیوی اب برا بھی نہیں پہنتی! لوگ کیا سوچیں گے؟ اس کی بہن، اِن ہیے، اپنے خاندانی فرض کے احساس کے ساتھ اپنی بہن کو سہارا دینے کی کوشش کرتی۔ وہ یہ جانتی ہے کہ جب خاندان کا کوئی فرد مشکل میں ہوتا ہے تو دوسروں کے لیے زیادہ کچھ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آخر کار، اسے ایک نفسیاتی کلینک میں داخل کرایا جاتا ہے، جہاں اس کی بہن اسے ”معمول کی“زندگی میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم، یونگ نفسیاتی حالت میں مزید ڈوب جاتی ہے جو ناول کے متن میں ”جلتے ہوئے درختوں“کے ذریعے ظاہر ہو رہی ہے۔
’دی ویجیٹیرین‘ کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ہمیں یونگ ہی کا فیصلہ اور اس کے خاندان کا ردعمل دکھایا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اس کے بہنوئی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جو ایک ناکام آرٹسٹ ہے،جو یونگ کے جسم کے ساتھ جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے، جنسی اور جمالیاتی استحصال کرتا ہے اور جسمانی اذیت و کربناکی کا سبب بنتا ہے۔ تیسرے حصے میں ان ہیے کو دکھایا گیا ہے، جو ایک کاسمیٹکس اسٹور کی مینیجر ہے اور خاندان کی تباہی کے اثرات سے نمٹنے کا اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بہن کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ تینوں حصے معاشرے کے کردار کے بارے میں ہیں،معاشرے میں لوگ کس قدر سفاک ہوتے ہیں۔ اس ناول میں ان تینوں حصوں کو بادی النظر دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے اس میں بڑے جذبات اور سرد مہری کے درمیان تصادم جنم لیتا ہے۔ یہ ٹکراو دراصل ان خواہشات کی بناء پر عمل میں آتا ہے جو بسا اوقات پوری کی جاتی ہیں اور زیادہ تر دبا دی جاتی ہیں،یا انھیں سسکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ ناآسودگی کی حالت میں کراہتی رہتی ہیں۔ جس سے کرداروں کی اندرونی دنیا میں بے انتہا شدت آ جاتی ہے اور بیرونی دنیا میں اتنی ہی بے حسی کی ردا میں لپٹتی رہتی ہیں۔ مگر اندرونی جذبات کا جوار بھاٹا کسی نہ کسی دن کسی نہ کسی واقعے کے سبب ضرور پھوٹ پڑتا ہے۔ مگر اس جوالا مکھی کا پھوٹ بہنا کسی طور خوبصورت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہان کا یہ ناول روح اور ذہن کو جھنجھوڑنے والا ہے۔ یہ جذباتی، اشتعال انگیز اور پُرتشدد ہے۔ طاقتور تصویروں، حیران کن رنگوں اور پریشان کن سوالات سے بھرا ہوا ہے۔ جیسے جیسے یونگ تبدیل ہوتی ہے، اس مزاج میں تبدیلی آتی ہے ویسے ویسے کتاب کی زبان بھی بدلتی ہے۔ اس ناول میں جذبات، زبان، نفسیات اور کردار ساتھ بدلتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
یہ ہان کانگ کا پہلا ناول ہے جو انگریزی میں شائع ہوا تھا۔ ڈیبوراہ اسمتھ نے اس کا غیر معمولی حد تک خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے سے قبل انھوں نے 6 سال تک کورین زبان کو سیکھا اور اس کے ادب کا ڈوب کر مطالعہ کیا۔ انگریزی میں اس کامطالعہ کر کے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ لکھا ہی انگریزی زبان میں گیا ہے۔ ہان کانگ کے فن پاروں میں درد اور غم آفاقی صورت میں نظر آتے ہیں جو انسان کے بھیتر موجود ہیں جنہیں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ معاشرہ بھی اس غم کو گداز کرتا ہے۔ اس کی تشفی کسی طور ممکن نہیں ہے۔ اردو ادب میں بھی غم اس صورت میں نظر آتا ہے جس کی ایک وجہ ناآسودگی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میر تقی میر، ناصر کاظمی اور جون ایلیاء اسی درد و الم کے سفینے ادب کے قلزم میں کھینچتے نظر آتے ہیں۔ نثر میں اختر رضا سلیمی کے ہاں اس غم کی آہٹ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جہاں ایک تہذیب کے مر جانے اور تسلیم نہ کیے جانے کی بناء غم ذہن میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔ جو انسان کو نہ صرف مردم گزدیدہ بنا دیتا ہے بلکہ تشدد برداشت کرنے پر بھی مائل کرسکتا ہے۔
ہان کے ہاں درد، کلفت، رنج و محن کی بوقلمونی ان کے زیادہ تر فن پاروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ 2011 میں تخلیق پانے والی کہانی’یونانی سبق‘دو کمزور افراد کے درمیان ایک غیر معمولی تعلق کی دلکش عکاسی ہے۔ جس میں ایک نوجوان عورت، جو متعدد تکلیف دہ تجربات کے بعد بولنے کی طاقت کھو چکی ہے، قدیم یونانی زبان کے ایک استاد کے ساتھ جڑتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہا ہے۔ ان کے نقائص سے ایک نازک محبت کا رشتہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ کتاب نقصان، قربت اور زبان کی حتمی شرائط کے بارے میں ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ اسی طرح ناول ’انسانی اعمال‘میں،انھوں نے سیاسی تاریخی واقعے کو ادب میں سمویا ہے جو گوانگجو میں 1980 میں پیش آیا تھا،جس میں جنوبی کوریا کی فوج کے ہاتھوں سینکڑوں طلباء اور غیر مسلح شہریوں کو قتل کیا گیا تھا۔ ہان نے اس واقعے کے متاثرین کی آواز کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے انتہائی حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ناول میں روحوں کو اپنے جسم سے الگ ہونے کی اجازت دی جاتی ہے، جس سے انہیں اپنی تباہی دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض لمحات میں، جب ناقابل شناخت لاشوں کو دفن نہیں کیا جا سکتا، تو متن سوفوکلیز کی’اینٹی گونی‘کے بنیادی موضوع کی طرف پلٹتا ہے۔ اسی کے مصداق ’دی وائٹ بک‘کو انھوں نے شاعرانہ انداز میں قلم بند کیا ہے۔ درحقیقت یہ ناول کی صورت میں مرثیہ ہے جو اس شخص کے لیے وقف ہے جو راوی کی بڑی بہن ہو سکتی تھی، لیکن وہ پیدائش کے چند گھنٹے بعد ہی مر گئی۔ ’ہم جدا نہیں ہوتے‘بھی ’دی وائٹ بک‘کی طرح کہانی کو بیان کرتا ہے۔ یہ کہانی 1940 کی دہائی کے آخر میں جنوبی کوریا کے جزیرہ جیجو میں ہوا کے منظر میں بیان کی گئی ہے،جہاں ہزاروں افراد کو، جن میں بچے اور بوڑھے شامل تھے، شک کی بنیاد پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ناول میں ہان نے مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کس طرح راوی اور اس کی دوست انسون، جو دونوں اس واقعے کے بعد اپنے رشتے داروں سے وابستہ صدمے کو ساتھ لیے ہوئے ہیں، مشترکہ طور پر اس کا غم منا رہے ہیں۔ اپنے مخصوص اور جامع انداز میں، ہان کانگ نہ صرف ماضی کے حال پر اثرات کو طاقتور انداز میں پیش کرتی ہیں، بلکہ اتنے ہی طاقتور انداز میں دوستوں کی ان ناقابل تسخیر کوششوں کا سراغ لگاتی ہیں جو اجتماعی طور پر فراموش کیے گئے۔ یہ ناول گہری دوستی اور وراثتی درد کے بارے میں ہے۔
ہان کے ہاں درد کا بیانیہ ہے جس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے یہ ان کی مشرقی سوچ کا مظہر ہے۔ مشرق میں غم اور درد کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ ہان کہتی ہیں کہ درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی عارضی اذیت میں کم نہیں کیا جا سکتا۔ ہان کے پاس جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان تعلقات کا ایک منفرد شعور ہے، اور اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں وہ معاصر نثر میں ایک موجد بن چکی ہیں۔ انھیں انسان کی اندرونی دنیا کے صدمات کا گہرا ادارک ہے اور یہی ان کی خاصا ہے۔ اسی بناء پر ان کا مٹی اور روایات سے گہرا تعلق ہے۔ ہان کو مصورِ غم و الم کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
(نوٹ: اس مضمون کو لکھنے کے لیے، دا گارڈین، دا نیویارک ٹائمز اور متعدد ادبی رسائل میں ہان کے بارے میں شائع ہونے مواد سے استفادہ کیا گیا ہے)